تحریر۔ رشید احمد نعیم،پتوکی
پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے نقصانات،تباہ کاریوں اور ہولناک بربریت کو دیکھتے ہوئے دوسری جنگِ عظیم کے فاتحین نے اپنی اپنی عوام کو پُرامن اور خوشحال ماحول دینے کے لیے ایک نئی اورمنظم تنظیم کے قیام کی ضرورت محسوس کی کیونکہ لیگ آف نیشنز ناکام ہو چکی تھی۔اس لیے جنگی ماحول سے چھٹکارہ پانے اور غریب اقوام کے حالات میں بہتری لانے کے لیے ایک نئی بین الاقوامی تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اس سلسلے میں امریکہ کے شہر سان فرنسسکو میں پچاس ملکوں کے نمائندوں کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے قیام پر غور ہوا۔25 اپریل تا26 جون1945 ان ممالک کی کانفرنس ہوئی جس میں نئی بین الاقوامی تنظیم قائم کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔اقوام متحدہ 24 اکتوبر1945 کو باقاعدہ قائم ہوئی۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ارکان کی تعداد192ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصو ل کے تحت بنی نوع انسان کی آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔قوموں کے باہمی تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی سطح پر موثرقانون سازی کرنا تاکہ امن کو لاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے۔انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے عالمی سطح پر بلا امتیاز رنگ و نسل مثبت اقدامات کرنا۔انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا۔ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے قوموں میں دوستی کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکنا ہے۔دیکھنے اور سننے کو یہ الفاظ دل کو بہت بھاتے ہیں اور یہ سب اچھا لگتا ہے مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو بہت بھیانک نظر آتا ہے کیو نکہ اس وقت خطہِ ارض پر پچاس سے زائد اسلا می مما لک موجود ہیں۔ جن کی آ بادی دوارب سے متجاوز ہے۔ جو مادی اسباب و وسا ئل سے ما لا مال ہیں۔جن کے پاس تیل و گیس اور سونا و چاندی کے وسیع ذخا ئر ہیں۔جن کے پاس معدنیات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے موجود ہیں۔جن کے پاس انفرادی قوت ٗفوجی طاقت اور جہادی جذبے کے ٹھاٹھیں مارتے سمند ر ہیں۔مگر پھر بھی ہر طرف سر زمین گلستا نِ خون مسلم سے ہی رنگین ہو رہی ہے۔ منظم نسل کشی کے جرائم چار سو پھیل رہے ہیں۔مسجد اقصیٰ کے مبارک محراب و منبر پر لا شے تڑپ رہے ہیں۔ کشمیر کی جنت نظیر وادی آ گ و خون سے لتھڑ رہی ہے۔ چیچنیا کے راہگزار،کو سو دو کے مرغزار ٗ افغانستان کے کوہسار، بو سنیا کی سر د پو ش وادیاں اور برما کی گلیاں خون مسلم کے نا حق بہنے کی قسمیں کھا رہی ہیں۔ جہاں عفت و عصمت تار تار ہوئی اور چادر و چار دیواری کا تقدس پا مال ہورہا ہے۔ اسلام دوستی کی سزائیں دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اخو ت و مساوات کو تار عنکبوت بنا دینے پر کوئی احساس ندامت محسوس نہیں کیا جا رہا ہے۔ حقوق انسانی پا مال ہورہے ہیں اور مظلوموں و بے کسوں کی آ ہیں اور سسکیاں صدا بصحر ا ثا بت ہو تی جا رہی ہیں۔ہر دور میں نئے لقب اور نئے تمسخر کے ساتھ مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی بنیاد پرست تو کبھی رجعت پسند،کبھی انتہا پسند،کبھی القا عدہ تو کبھی طالبان کا نام دیا گیا۔ ان تلخ حالات کے باو جود بھی مسلم سربراہوں کی خوبید گی بیداری میں نہیں بدل سکی۔ان کے مردہ ضمیر تا حال محو استر احت ہیں۔ہر حکمران ذاتی مفادات کی بدبو داراور تعفن زدہ گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ آ رام دہ سہولتوں سے لطف اندوزی اور عیش و عشرت مقصدِ حیات بن کر رہ گیا ہے۔ نہ دردِ مسلم باقی رہا ہے نہ ملتِ اسلا می کی نگہبانی کی تڑپ، نہ کفر کا ہاتھ رو کا جا رہا ہے اور نہ زبان کے تشتر پر کوئی قد غن لگ رہی ہے۔ نجی محفلیں ہوں یا قومی مجالس، بین الا قوامی اجتماع ہوں یا انٹر نیشنل کا نفرنسز، او۔آئی۔سی کا پلیٹ فا رم ہو یا رابطہ عا لم اسلامی کا فورم،عرب لیگ ہو یا کوئی دیگر ادارہ، ہر جگہ زبانی جمع خرچ، اخباری بیانات، فوٹو سیشن اور ڈھیلے ڈھالے غیر موئژ اعلامیے کے علا وہ کچھ نہیں ہوتا۔اور علامیہ بھی ایسا کہ اقوام عالم کے سروں پر جوں تک نہیں رینگتی۔جبکہ ایسے اجلا سوں کے انتظا مات پر غریب عوام کے کروڑوں روپے اڑ ا دیے جاتے ہیں۔مہنگے ترین ہو ٹل بک کر لیے جاتے ہیں۔انواع و اقسام کے کھانے چن دیے جاتے ہیں۔الیکٹر انک اورپرنٹ میڈیا کے نمائندے منتظر رہتے ہیں۔کہ کب مسیحانِ قوم فارغ ہوں اور فوٹو سیشن کا اہتمام کیا جاسکے۔ایسے اجلاسوں،پروگراموں میٹنگوں سے نہ کوئی مسلہ حل ہوتا ہے اور نہ کسی کے زخم بھرتے ہیں۔نہ کسی کے دکھوں کا مداوا ہوتا ہے۔اور نہ فاقوں ماری اقوام کی شکم سیری ہوتی ہے۔ نہ دہشت گردی کا سد باب ہوتا ہے۔ اور نہ غلا می کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں۔ نہ آزادی کی صبح نو روشن ہوتی ہے۔نہ کسی کے چاکِ گریباں پر رفو کا کام ہوتا ہے۔ اگر حقیقت سے جائزہ لیا جائے تو یہ صرف اور صرف نااہل،بد کردار، مفاد پرست اور ذاتی انا کے پجاری مسلم حکمرانوں کا قصور ہے۔جو ابھی تک نہ مسلم اْمہ کو متحد کر سکے اور نہ دوست و دشمن کی پہچان کر سکے بلکہ آج تک اقوام متحدہ، سلامتی کونسل،آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈبینک جیسے جانبدار، انسانیت دشمن اور بھیڑیا صفت اداروں سے عدل و انصاف کی اُمیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے ان اداروں نے آ ج تک مظلو م کی مدد نہیں کی بلکہ ہمیشہ ظالم اور جارح کو تھپکی دیتے ہیں کبھی مسلمانوں کی داد رسی نہیں کی بلکہ ہمیشہ یہودی مفادات کا تحفظ کیا۔بو سنیا میں منظم نسل کشی ہو جائے تو کوئی بات نہیں۔عراق پر لاکھوں ٹن بارود پھینک دیا جائے تو کوئی بات نہیں فلسطینیوں کی بستیاں ٹینکوں سے مسمار کردی جا ئیں تو کوئی بات نہیں، کشمیریوں کو لفظِ غلط کی طرح مٹا دیا جائے تو کوئی بات نہیں،القاعدہ اور طالبان کا لیبل لگا کر پورے افغانستان کو ملیا میٹ کر دیا جائے تو کوئی بات نہیں اوراگر برما کے مسلمانوں کا قتل عام ہو تو کوئی بات نہیں مگر یہودو ہنود اور نصٰاری کے مفادات پر زد پڑ جائے گی تو راتوں رات یہ خونخوار ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ آ ن کی آن میں قرار دادیں منظور ہو جاتی ہیں۔اتحاد بن جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی تیمور کی قسمت میں آزادی لکھ دی جاتی ہے۔الجزائر میں اسلام پسندوں کی کامیابی سے انکاری ہو کر اقتدار فوج کو سونپ دیا جاتا ہے اور افغانستان کی اسلامی حکومتوں کا خاتمہ کر کے پورے ملک کو تورا بورا میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔اور عراق کے خلا ف مہم جوئی تو اس لحا ظ سے بھی شرمناک تھی کہ حملے کے لیے نہ کوئی ٹھوس ثبوت تھا اور نہ کوئی اخلاقی جوازبس غنڈہ گردی تھی۔جس کے بل بوتے پر مسلم ممالک کے خلاف لشکر کشی کرنا اور تیل پر قبضہ کرنامقصود تھا۔جس کے لیے نہ اقوام متحدہ سے قرار دادوں کی منظوری کی ضرورت تھی۔اور نہ سلامتی کونسل کی حمایت نہ اقوام عالم کی پرواہ تھی اور نہ عوام الناس کے احتجاج کا خوف نہ مرنے کٹنے اور نہ معذور ہونے والے عراقیوں کی فکر تھی اور نہ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہونے والے مہاجرین کی پریشانی۔موت کے ان سوداگروں کو تو بس خراج چاہیے تھا۔وہ چاہے خون کا خراج ہو یا تیل کا۔یہ قبضہ گروپوں کی دنیا ہے جس پرحکم صرف قا بضین کا چلتا ہے۔امریکہ اور اس کے حواریوں کی دیدہ دلیری،انسان دشمنی اور شقاوت قلبی کی اصل وجہ اقوام متحدہ کی سر پرستی ہے۔حالانکہ جب اقوام متحدہ کی داغ بیل ڈالی گئی تو اسکا مقصد مظلوم کی مدد اور ظالم کو ظلم سے روکنا تھا۔دشمنیوں کو دوستیوں اور محبتوں کو نفرتوں میں بدلنا تھا۔قتل و غارت کاسدباب اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر اصلاحِ احوال کی کوشش کرنا تھا مگر اب تو یہ ادارہ بھیڑیوں کی انجمن بن چکا ہے اور کھوج لگانے والے چوروں کے ساتھ مل چکاہے۔قدرت اللہ شہاب کے بقول پوری دنیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت چل رہی ہے۔جب کوئی مقدمہ اقوام متحدہ کے سپرد ہوتا ہے۔تو وہ اپنی پوری کوشش کرتی ہے نہ لاٹھی ٹوٹے اور نہ ہی بھینس مالکان کو واپس ملے۔گھر والوں سے کہا جاتا ہے کہ بے فکر ہو کے سو جاؤ اور چوروں سے کہا جاتا ہے شاباش اچھا موقع ہے۔سب کچھ لوٹ لو۔کیا اب ایسے اداروں سے منصفی چاہی جا سکتی ہے؟۔کیا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ امتِ مسلمہ کی حفاظت کریں گے؟کیا ان کو نظر نہیں آ رہا ہے کہ برما مہیں کیا ہو رہا ہے؟ہر طرف خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں، مسلمانوں کا قتل عام جاری ہیں۔معصوم بچوں کو موت کے کھاٹ اتار کر ماؤں کی ہربھری گودیں اجاڑی جا رہی ہیں۔والدین سے ان کے بڈھاپے کا سہارا چھینا جارہا ہے تو کہیں بچوں کو داغِ یتیمی دے کر ان کی زندگیوں عذاب بنایا جا رہا ہے۔ بہنوں کے سامنے ان کے کڑیل بھائی موت کی وادی میں سلائے جا رہے ہیں تو کہیں بھائیوں کے سامنے جان نثار کرنے والی بہنوں کو ابدی نیند سلایا جا رہا ہے۔ کسی سے اس کا سر کا تاج چھینا جا رہا ہے تو کسی سے اس کی جیون ساتھی ہمیشہ ہمیشہ ک لیے جدا کی جارہی ہے۔ موت کا بھیانک رقص جاری ہے مگر افسوس کہ مسلمان حکران کی قوت بینائی اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ انہیں کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ان کی آنکھوں پر تواقتدار کے لالچ کی پٹی بندھی ہوئی ہے اس کے علاوہ ان کو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے مگر سوال ہے کہ امت مسلمہ خوابِ غفلت سے کب بیدار ہو گی؟؟؟ اب نہیں تو کب؟؟