تحریر: رشید احمد نعیم، پتوکی
لاوارثوں کے وارث، انسانیت کی خدمت کے علمبردار، پاکستان کی شان، عالمی پہچان، حب الوطنی کی اپنی مثال آپ اور جذبہِ خدمتِ خلق سے سرشار عظیم سماجی کارکن محترم مولانا عبد الستار ایدھی کا یوم والادت منایا گیا۔دیکھنے میں عبد الستار ایدھی ایک انسان کا نام ہے مگر حقیقت میں عملی طور پر یہ ایک عظیم مشن کا نام ہے اور وہ قابلِ ستائش کام غریب، مسکین، لاوارث، نادار اور بے سہارا افراد کے پیٹ کی آگ بجھانے اور ان کے سر چھپانے کے لیے چھت کا اہتمام کرنا ہے۔اورعبد الستار ایدھی نے یہ کام اس قدر احسن انداز میں سر انجام دیا کہ عالمی ادارے بھی اس بات کاعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے۔یہ عظیم شخص 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑا کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ عبد الستار ایدھی پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کے چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں انکو سکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسہ خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسہ کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بچا لیتے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی بن گئی۔1947ء میںتقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوگیا۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادات سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔1957 ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے سکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔ مولانا عبد الستار ایدھی نے خدمت خلق کے لیے جو شمع روشن کی اس کو اخلاص کا ایندھن تیل فراہم کیا اور یوں شمع سے شمع جلتی گئی اور آج نہ صرف پاکستان کا کونہ کونہ اس سے مستفید ہو رہا ہے بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ آج عبدالستار ایدھی کا انتقال نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے لاکھوں نادار یتیم ہوگئے۔۔۔ انسانیت کی سب سے بڑی مثال پوچھی جائے گی تو بتایا جائے گا کہ عبدالستار ایدھی ہوا کرتے تھے۔۔۔
جب نوبل ایوارڈ دینے والے اپنا احتساب کریں گے تو ایک بار شدید دھچکہ لگے گا کہ وہ زندگی میں انہیں یہ ایوارڈ نہ دے سکے حالانکہ انکے مقابلے میں دنیا بھر میں کوئی انسانیت کا مسیحا نہیں۔پاکستان میں آج تک جب بھی کوئی ناجائز بچہ کوڑے کے ڈھیر میں پھینکا گیا تب اسکو اگر گودملی تو وہ عبدالستار ایدھی کی تھی۔۔۔ آج تک اگر کوئی لا وارث مرا تو اسکی تدفین میں کوئی مسلہ نہیں ہوا کیونکہ ہر لاوارث کا وارث ایدھی تھا۔حادثات ہوں یا قدرتی آفات سب سے پہلے ایدھی فاونڈیشن کی امدادی ٹیمیں ہی نظر آتی ہیں۔
پاکستان میں انسانیت عبدالستار ایدھی سے شروع ہوتی ہے۔ 88 سالہ عبدالستار ایدھی نہیں جانتے تھے کہ پیسے کے پیچھے بھاگنا کیا ہوتا ہے، کبھی کسی حکومت سے امداد نہیں لی، صرف عوامی تعاون سے 65، 66 سالوں سے ایک ایسا رفاہی ادارہ چلا رہے تھے جس کا اب سالانہ خرچ تقریبا ایک ارب روپے ہے تاہم آمدنی اس سے دوگنی ہے اور یہ ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔۔ سادہ اتنے تھے کہ ہر ایک بتاتے تھے کہ ادارے میں امدادی رقم ڈبل آتی اور سنگل خرچ ہوتی ہے۔ نڈر ایسے تھے کہ کوئی پروٹوکول نہیں، بدترین حالات میں بھی کوئی سیکیورٹی حصار نہیں۔ بلوچستان گئے تو ڈاکو تائب ہوگئے، فنڈز دیئے۔
شمالی وزیرستان گئے تو طالبان نے بے لوث رہنما مان لیا اور ڈھیروں امداد دیکر بحفاظت روانہ کیا۔ کوئی خوف نہیں کوئی لگی لپٹی نہیں۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر سراہے جانے کی کوئی تمنا بھی نہیں تھی۔ پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی عبدالستار ایدھی نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی تھی، شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی لباس پہنتے تھے، جو صرف ایک یا دو انکی ملکیت تھے، اسکے علاوہ انکی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا تھا۔
مولانا عبد الستار ایدھی کو مختلف ادوار میں مختلف عزازات سے نوازا گیا
بین الاقوامی اعزازا
نوعوامی خدمات میں رامون مگسے سے اعزاز
لینن امن انعام
پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاونڈیشن
دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس? گینیز بک ورلڈ ریکارڈز (2000)۔
ہمدان اعزاز برائے عمومی طبی خدمات 2000متحدہ عرب امارات
بین الاقوامی بلزان اعزاز 2000برائے انسانیت، امن و بھائی چارہ، اطالیہ
انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری (2006)۔
یونیسکو مدنجیت سنگھ اعزاز 2009ء۔
احمدیہ مسلم امن اعزاز (2010)۔
قومی اعزازات
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی طرف سے سلور جوبلی شیلڈ (1962–1987)۔
حکومت سندھ کی جانب سے سماجی خدمتگزار برائے بر صغیر کا اعزاز (1989)۔
نشان امتیاز، حکومت پاکستان کا ایک اعلیٰ اعزاز (1989)۔
حکومت پاکستان کے محمکہ صحت اور سماجی بہبود کی جانب سے بہترین خدمات کا اعزاز (1989)۔
پاکستان سوک سوسائٹی کی جانب سے پاکستان سوک اعزاز (1992)۔
پاک فوج کی جانب سے اعزازی شیلڈ
پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کی جانب سے اعزازِ خدمت
پاکستانی انسانی حقوق معاشرہ کی طرف سے انسانسی حقوق اعزاز
چھبیس مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز
عبد الستار ایدھی 8 جولائی 2016 کو دنیا سے رخصت ہوئے تو ایدھی ولیج میں کھڑے لاوارث بچوں کی زبان پر بے ساختہ آیا کہ ہم ایک بار پھر یتیم ہو گئے
بے شک آج مولانا عبدالستار ایدھی ہم میں موجود نہیں ہیں مگر وہ اپنی انسانیت کی خدمت کے حوالے سے ہمیشہ دلوں پر راج کرتے رہیں گے