تحریر۔ر شید احمد نعیم،پتوکی
عورت عزت و احترام کا نام ہے۔عورت والدین کے لیے باعثِ فخر، بھائیوں کے لیے باعثِ عزت،شوہر کے لیے قیمتی سرمایہ اور اولاد کے لیے عمدہ نمونہ ہوتی ہے۔عورت رات کا تارا،صبح کا نور اور شبنم کا قطرہ ہے۔ عورت مرد کی آنکھ کی بینائی ہے۔عورت خدا کی بڑی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے جو مرد کے دل کا سکون،روح کی راحت،ذہن کا اطمینان اور بدن کا چین ہے جبکہ عورت انسانی تمدن کا جزوِلازم ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عورت دنیا میں پیار کا تاج محل ہے اگر عورت نہ ہوتی تو انسانوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بھی بد تر ہوتی۔عورت عظمت کا مینار ہے اگر آپ اسلام کا مطالعہ اس جہت سے کریں کہ اسلام سے پہلے عورت کا کیا مقام تھا اور اسلام نے اُسے کیا مقام دیا تو آپ بے ساختہ بول اُٹھیں گے کہ عورت تحت الشریٰ تھی اسلام نے فوق الثریابنادیا،وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی اسلام نے اُسے زندگی عطا کی۔وہ زیبِ میخانہ تھی اسلام نے اُسے زینتِ کاشانہ بنا دیا۔وہ پامال تھی اسلام نے اُسے با کمال بنا دیا۔وہ برباد تھی،ناشاد تھی۔ اسلام نے اُسے شاد کیا،آبا د کیا۔اُس کا مقام صرف مرد کے دل کو لُبھانا تھا اسلام نے اُس کے ذُمے گھر کا سجانا لگا دیا۔ اگر اسلام عورت کو یہ مقام نہ دیتا تو کوئی باپ بیٹی کی پیدائش پر سر اُٹھا کر نہ چل سکتا۔اگر اسلام عورت کو مقام نہ دیتا تو وہ ہمیشہ کی طرح بتوں اور دیوتاؤ ں کی بھینٹ چڑھتی رہتی۔اگر اسلام عورت کو عزت نہ دیتا تو بیٹی کی تربیت جنت کی ضمانت نہ ہوتی۔ ماں کی خدمت جنت کا پروانہ نہ ہوتی۔افسوس کہ آج کے خودساختہ تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف سے یہ بات تواتر سے آ رہی ہے کہ عورت ہمارے معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ ہے،اس کے حقوق پامال ہو رہے ہیں،اس کا استحصال ہو رہا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ یورپ نے عورت کو آزادی دی ہے اُس کو حقوق دیئے ہیں۔اُس کو مرد کے برابر لا کھڑا کیا ہے جس کی بدولت عورت خوب ترقی کر رہی ہے۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ دنیا میں کسی مذہب اور قانون میں، کسی تمدن اور سوسائٹی میں عورت کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں دیا گیا جو مقام اور مرتبہ عورت کو اسلام میں دیا گیا ہے۔غیر اسلامی تہذ یبوں میں عورت کی حق تلفی ہوتی رہی۔ اُس کے ساتھ نا انصافی ہوتی رہی۔ اُسے منحوس اور کمتر سمجھا گیا۔اُسے شیطان کی ایجنٹ اور شروفساد کی جڑ ثابت کیا گیا۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ ”یہ بد نما داغ انسان کی پیشانی سے کبھی دھویا نہیں جا سکے گا کہ زما نہِ جہالیت میں مرد نے اُسی گود کو بے عظمت و بے قیمت کیا جس گود میں پرورش پا کر آدمی بنا۔“یونا نیوں نے عورت کو شیطان کی بیٹی اور نجاست کا مجسمہ قرار دیا تو رومیوں نے جا نورکا درجہ دیاجبکہ اہلِ عرب میں زمانہِ جہالیت میں لڑکیوں کو زندہ در گور کیا جاتا تھا عورت کی خریدوفروخت کی جاتی تھی ہندو عورت کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور عیسائیوں کے ہاں عورت کی کیا قدروقیمت تھی اس کا اندازہ اس با ت سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ”۵۸۲ ء میں کلیسا کی ایک مجلس نے فتویٰ دیا تھا کہ عورتیں روح نہیں رکھتیں“ جبکہ محسنِ انسانیت حضرت محمدﷺ نے عورت کو ذلت و پستی کی گہرائیوں سے اُٹھایا اور اُسے عظمت و رفعت کے بلند مقام پر فائز کر دیا۔تعجب ہے اُن پر جو اسلام کو عورتوں کے حقوق کا غاصب قرار دیتے ہیں۔کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ کونسا دوسرا مذہب ہے جس نے اچھی بیوی کو نصف ایمان قرار دیا ہو؟؟؟ جس نے بیواؤں کو عزت کی مسند پہ بٹھایا ہو؟؟ جس نے عورت کے حُسن وجمال کو نہیں اُس کے عورت ہونے کو قابلِ احترام ٹھہرایا ہو؟؟؟عورت کو ماں،بیٹی،بہن اور بیوی کی حیثیت سے جو عظمت،جو محبت،جو مقام اور احترام اسلام نے دیا ہے وہ دنیا کے کسی قدیم قانون،مذہب یا تہذیب نے نہیں دیا۔ارشادِ خدا وندی ہے”اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ سے حُسنِ سلوک سے پیش آیا کرو، اگر تیرے پاس اُن میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جا ئیں تو اُن کو کبھی اُف تک بھی مت کہنا اور اُن کو نہ جھڑکنا اور اُن سے خوب ادب سے پیش آنا،اوراُن کے سامنے شفقت سے
انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان د ونوں پر رحمت فرمائیے جیسا انھوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کیا“ کوئی بتا سکتا ہے کہ اسلام کے علاوہ وہ کون سا قانون وہ، کون سا مذہب، و ہ کون سا صحیفہِ اخلاق ہے جس میں والدین کو اُف تک کہنے کی اجازت نہ ہو؟؟؟ ارشادِ نبویﷺ ہے ”جنت ما ں کے قدموں تلے ہے“ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ”تم پر اپنی ماؤں کی نا فرمانی اور حق تلفی حرام کر دی ہے“ والدین کی عظمت و فضیلت کا یہ خوبصورت حکم صرف اسلام میں ہی ہے۔ اسلام نے بیٹی کی حیثیت سے بھی عورت کو نمایاں مقام دیا ہے۔بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا۔بیوی کو نصف ایمان اور وراثت میں حق دار بنا دیا گیا۔اگر آج کے مسلمان اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے عورتوں پہ ظلم کرتے ہیں یا اپنی بیویوں سے غلط برتا ؤ کرتے ہیں تو ان احمقوں اور جا ہلوں کی وجہ سے اسلام کو مورد الزام نہیں ٹھہرا یا جا سکتا اسلام عورت کو تجارت و ملازمت کی اجازت دیتا ہے نبی اکرمﷺ نے جس عظیم خاتون کو پہلا شرفِ زوجیت بخشا وہ بھی ایک کامیاب تاجر تھی۔لیکن عورت اگر تجارت یا ملازمت کر نا چاہتی ہے تو اُ س کے لیے کچھ حدود مقر ر ہیں۔بلا روک ٹوک اُسے تجا رت یا ملازمت کی اجازت نہیں ہے اجنبی مردوں کے ساتھ خلوت میں میٹنگ کر نے کی اجازت نہیں ہے۔بلا شرعی پردہ کے کسی غیر محرموں کے ساتھ میل ملاپ کی اجازت نہیں۔اکیلے لمبا سفر کرنے کی اجازت نہیں۔اسلام نے عورت کو معاشی جدو جہد سے آزاد رکھا ہے اور اُس کے نان نفقہ کا بوجھ اُس کے باپ پر رکھا ہے۔ اس کے بھائی پر رکھا ہے۔ اس کے شوہر پر رکھا ہے اس کے بیٹو ں پر رکھا ہے اس لیے عورت کو کاروبار کرنے، ملازمت کرنے یا مزدوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض مکار این جی او کسی ایک بے سہارا خا تون کا واقعہ لے کر بڑ ی ہو شیاری اور ملمع سازی سے اُسے اُچھالتی ہیں کہ عورت کو ملازمت کی اجازت نہیں دی جا ئے گی تو بیچاری بے سہارا اور بیوہ خواتین اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کہاں سے پالیں گی؟؟؟ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ عورت کو اسلامی دائرے میں رہتے ہوئے
کاروبار یا ملازمت کرنے کی اجازت ہے لیکن عورتوں کے یہ جھوٹے وکیل عورتوں کے ہمدرد نہیں بلکہ مکار اور فریبی لوگ ہیں ان کو عورتوں کے مسائل سے دلچسپی نہیں بلکہ اُن کے حُسن و جمال سے دلچسپی ہوتی ہے ان کو عورتوں کی مجبوریوں یا پر یشانیوں کا کوئی خیال نہیں ہوتا بلکہ یہ بد بخت تو عورت کی جوانی،عورت کے جسم اور عورت کی شکل و صورت کے غم میں مرے جا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو بے سہارا عورتوں اور بیوہ خواتین کی معاشی پریشانیوں کا غم ہے تو پھر یہ بیوہ اور ادھیڑ عمر کی عورتوں کو ملازمت کیوں نہیں دیتے ہیں؟؟؟ اُنہیں اپنی سیکریٹری کیوں نہیں بنا تے ہیں؟؟؟اُنہیں ائرہوسٹس کیو ں نہیں بناتے ہیں؟؟؟ اُنہیں نرسیں کیوں نہیں بناتے ہیں؟؟؟ کیا مجبور صرف جوان لڑکیاں ہی ہوتی ہیں؟؟؟ کیا ضرورت مند صرف حُسن و جمال والی ہی ہوتی ہیں؟؟؟ کیا معاشی تنگی کا شکار صرف پُرکشش ہی ہوتی ہیں؟؟؟ یورپ کے پرستارو! فرق صرف اتنا ہے کہ اسلام عورت کے حُسن کو، اُس کی جوانی کو تو پردے میں قید کرتا ہے لیکن عورت کو اُس کے حقوق دیتا ہے اسلام عورت کا مقام اس کے حُسن اور جوانی کے لحاظ سے متعین نہیں کرتا بلکہ اسلام عورت کو عمر کے ہر حصے میں قابلِ احترام ٹھہراتا ہے۔ اسلام عورت کو بچپن میں شفقت دیتا ہے،جوانی میں محبت دیتا ہے، بڑھاپے میں عظمت دیتا ہے،اور مرنے کے بعد اُسے دعائے مغفرت کا حق دیتا ہے۔یورپ کے اندھے پرستارو!تم نے عورت کو کیا دیا؟؟؟ تم کہتے ہو کہ عورت کو آزادی دی مگر حقیقت یہ ہے کہ تم نے عورت سے اس کی آزادی چھین لی ہے۔تم نے عورت کی ممتا گُم کر د ی ہے، تم نے عورت سے اس کا گھرگرہستن کا کردارچھین لیا ہے، تم نے بہن کے سر سے آنچل غائب کر دیا ہے، تم نے بیٹی کو شفقت سے محروم کر دیا ہے،تم نے عورت کے حُسن کا تماشا بنا دیا ہے،تم نے اُس کی جوانی کو کھلونا بنا دیا ہے،تم نے عورت کے جسم کو جنسِ ارزاں قرار دے دیا ہے۔تم عورت کو شمعِ محفل بنانا چاہتے ہو مگر اسلام نے اُسے زینتِ کاشانہ بنایا ہے۔ تم عورت کے حُسن کو اُجاگر کرنا چاہتے ہو مگر اسلام نے اس کی نسوانیت کو نمایاں کیا ہے۔تم عورت کی قیمت اس کے ظاہر سے لگاتے ہو لیکن
اسلام اس کی قیمت اس کے باطن سے لگاتا ہے۔تم عورت کو چوراہے پر لانا چاہتے ہو مگر اسلام اس کی عظمت و منزلت اس کے گھر میں ہی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور اسلام اعلان کرتا ہے کہ اللہ کے بندو! عورت کو عورت ہی رہنے دو اسی میں فائدہ ہے عورت کا، مرد کا، تمدن کا، بچوں کا،گھر کا،دین کا اور دنیا کا۔جو مرد عورت کی مادر پدر آزادی کی آڑ میں اسے بے حیائی و بے پردگی پہ اُکساتے ہیں وہ حقیقت میں انسان نہیں وحشی اور شہوت پرست درندے ہیں۔ انسان نہیں انسانیت کے کے ماتھے کا بد نما داغ ہیں۔انسان نہیں نسوانیت کے سوداگر ہیں۔انسان نہیں کینسر کے گلے سڑے پھوڑے ہیں۔انسان نہیں بشکلِ حیوان انسان ہیں۔انسان نہیں بے حیائی کے پیکر ہیں۔انسان نہیں ننگ انسانیت ہیں اور اسی طرح جو عورتیں ہر شعبے میں مردوں کی برابری کرنا چاہتی ہیں اور نمائش کے طور پر کام کرنا چاہتی ہیں صرف فیشن کے طور پر۔محض جدت پسندی کی وجہ سے نوکری کرنے کے نام پر آزادی چاہتی ہیں وہ عورتیں نہیں ہیں بلکہ عورت کے نام پر بہت بڑا الزام اور دھبہ ہیں کیا وہ عورتیں ہیں جنہیں اپنے بچوں کی تربیت کی اور گھریلو فرائض کی کوئی فکر نہیں،کیا وہ عورتیں ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف تھرکنا،ناچنا اور مردوں کے دل لبھانا ہے،کیا وہ عورتیں ہیں جن کے جسم عریاں ہیں چہرئے عیاں ہیں اور جن کی لوچدار آوازیں فتنہ جہاں ہیں حقیقت میں یہ عورتیں نہیں بلکہ تہذیب کے چہرئے پر بد نما نشان ہیں یہ عورتیں نہیں ثقافت کے جسم پر چیچک کے داغ ہیں یہ عورتیں نہیں شرم و حیا کے جنازے ہیں یہ عورتیں نہیں بلکہ عورت کا کوئی مسخ شدہ ایڈیشن ہیں یہ عورتیں نہیں روح سے خالی لاشے ہیں اور ان کے مطالبات کو کسی بھی معاشرے میں پذیرائی نہیں مل سکتی باقی جہاں تک حقوق کی بات ہے تو جو حقوق اسلام میں دیے گیے ہیں وہ کسی اور مذہب میں نہیں دیے گیے کو ئی ایسا مذہب یا کوئی قا نون دکھائیں جس میں بیٹی کی تربیت کو جنت کی ضمانت بتا یا گیا ہو، جس میں ماں کو اُف تک کہنے کی اجازت نہ ہو، جس میں اچھی بیوی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا ہو،جس میں ماں کے قد موں کے نیچے جنت بتائی گئی ہو جس مذہب نے عورت کو اُس
وقت عزت دی ہو جب عورت کے انسان ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بحثیں ہو رہی تھیں جس مذہب نے عورت کو علمی عملی اور اخلاقی میدان میں مرد کے برابر کھڑا کیا ہو پھر اسلام میں عورت کو حقارت کی نظر سے کس طرح دیکھا جا سکتا ہے؟؟جبکہ عورت کے بطن سے نبی بھی پیدا ہوتا ہے، صحابی بھی پیدا ہوتا ہے،اور محدث بھی پیدا ہوتاہے، مفسر،قطب،ابدالی،ولی بھی اسی کے پیٹ سے جنم لیتا ہے اگر اسلام عورت کو حقوق نہ دیتا تو تاریخ میں کوئی صحابیہ،عاملہ،محدثہ اور مفسرہ نہ بنتی۔ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا ہے اُسی کانتیجہ ہے کہ آج عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے خوبصورت اور قابلِ احترام رشتے میں بندھی ہوئی ہے(ماخوذ خطابات حضرت جی)۔