اُمت کا غم خوار نبی ﷺ

Published on April 20, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 268)      No Comments

تحریر : محمد ریاض
جس وقت ہمارے آقانبی کریم ، شفیع المذنبین، سردار دوجہاںحضرت محمد مصفطیٰ ﷺ بیمار ہوئے، ایام مرض میں ایک دن حضرت جبرئیل ؑ آئے، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی خوشخبری ہوتو سنادو۔ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: یارسول اللہ ﷺ آپ کے استقبال کے لئے دوزخ ٹھنڈی کردی گئی ہے اور جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے گئے ہیں، حوران جنت اور ملائکہ آپ کے استقبال کے لئے جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے یہ بات سن کر فرمایا: جبرئیل ؑ نہ مجھ کو جہنم سے کچھ مطلب ہے نہ جنت سے تعلق ہے، یہ بتاﺅ کہ میری اُمت کے لئے کیا تیارکیا گیا ہے؟ حضرت جبرئیل ؑ نے عرض کیا: ©”جنت حرام ہے تمام اُمتوں پر جب تک آپ کی اُمت نہ جائے“۔حضور نبی کریم ﷺ سے حضرت جبرئیل ؑ نے عرض کیا: ”اگر آپکی خوشی ہوتو آپکی وفات کے بعد آپکے جسم مبارک کو جنت میں پہنچاﺅں؟“۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، مجھے میری اُمت کے اندر رہنے دو، یہیں اپنی اُمت کے لئے استغفار کروں گا۔ وصال سے تین روز قبل حضرت جبرئیل ؑ نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپکو سلام فرماتا ہے، اور یہ ارشاد فرماتا ہے کہ آپکا مزاج کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اے جبرئیل ؑ : میں بہت غمگین ہوں۔ حضرت جبرئیل ؑ مزاج پوچھ کر چلے گئے، پھر جبرئیل ؑتشریف لائے اور عرض کیا، اللہ تعالی ٰ آپکو سلام فرماتے ہیں کہ آپکو کیا غم ہے؟اللہ تعالیٰ جانتے ہیں لیکن آپ اپنی زبان مبارک سے فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مجھے گناہگار اُمت کا اس وقت بہت خیال ہے۔ گنگاروں کی مغفرت کس طرح ہوگی؟ حضرت جبرئیل ؑ نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا، الٰہی تیرے محبوب ﷺ یوں ارشاد فرماتے ہیں، حکم ہوا کہ ©© ”وہ رب العالمین آپ کو سلام فرماتے ہےںاور ارشاد کرتے ہےںکہ اگر آپکی امت کا کوئی مسلمان گنہگار مرنے سے ایک سال پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرے گا، ہم اسکی توبہ قبول فرماکراسے بخش دیں گے“۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مولیٰ کریم، ایک سال کی مدت بہت ہوتی ہے۔ مولیٰ کریم ! میری امت کی مشکل آسان کر، یہ سن کر حضرت جبرئیل ؑچلے گئے ، تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس آئے اور عرض کیا: یارسول ﷺ ! رب العالمین فرماتے ہیں کہ اگر آپکی اُمت کا گناہگار مرنے سے ایک مہینہ پہلے توبہ کرے گا تو ہم اسکی توبہ قبول کریں گے۔ عرض کیا: مولیٰ ایک مہینہ بہت ہے، اے میرے اللہ !اُمت کی مشکل آسان کر۔حضرت جبرئیل ؑواپس گئے، پھر آئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! رب العالمین آپ کو سلام فرماتے ہےں اور یہ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر ایک مہینہ مدت بہت ہے تب ایک ہفتہ تو بہت نہیں ہے، آپ کی اُمت کاجو گناہگار ہفتہ بھر پہلے مرنے سے توبہ کرلے وہ بخشا جائے گا۔نبی کریم ﷺ نے عرض کیا : مولیٰ ایک ہفتہ بہت ہے، الٰہی! معاف کر، میری امت کی خطاوﺅں سے درگزر فرما۔ پھر حکم ہوا جو شخص مرنے سے ایک دن پہلے توبہ کرے گا وہ گناہوں سے پاک ہوجائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے عرض کیا: اے میرے رب! ایک گھڑی بہت زیاد ہے، یہ سن کر حضرت جبرئیل ؑ آسمان پر گئے اور پھر واپس آئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ !رب العالمین آپکو سلام فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب ﷺ ! اگر مرنے والے گنہگار شخص کی روح حلقوم میں پہنچ جائے اور زبان بند ہوجائے اگر اپنے دل میں گناہ سے نادم ہوجائے میں اسے بخش دوںگا اور کچھ بھی اسکے گناہوں کی پرواہ نہ کروں گا اور جس مسلمان گنہگار نے توبہ نہ کی اسکو آپ ﷺ اپنی شفاعت سے بخشوائیں، آپ ﷺ جس کی شفاعت فرمائیں گے وہ بخشا جائے گا۔ یہ سن کر حضور نبی کریم ﷺ کا دل خوش ہوا اور اُمت کی طرف سے غم رفع ہوا، سبحان اللہ!کیا مہربان، رﺅف و رحیم نبی ﷺ ہماری ہدایت کے لئے بھیجے گئے۔حضور نبی کریم ﷺ کے پاس ملک الموت آئے تو آپ ﷺ نے اپنے حق میں بات بھی نہ کی، فرمایا: جبرئیل ؑ کہاں ہیں؟ اے ملک الموت! جب تک جبرئیل کی زبانی اُمت کی مغفرت کی بشارت نہ سنوں گا، اس وقت تک جان نکالنے کی اجازت نہ دوں گا۔ سبحان اللہ(تحریر بحوالہ قصص الانبیائ)۔درج بالا تحریر سے جہاں نبی کریم آقا دوعالم رﺅف و رحیم رحمةالعالمین ﷺ کی اپنی اُمت سے محبت کا اظہار سامنے آتا ہے ، وہی پر اُمت کے لئے یہ درس بھی ملتا ہے کہ اُمت ہر حال میں نبی کریم ﷺ کی بتائے ہوئے رستے پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کرے اور ساتھ ہی ساتھ ہر وقت استغفار بھی کرتی رہے، نبی کریم ﷺ کی طرف سے اُمت کے لئے استغفار کی تاکید بہت سے مواقعوں پر کی گئی ہے، ہماری یہ کتنی بدقسمتی ہوگی کہ اگر ہم استغفار کرنا چھوڑ دیں۔ ہمارے پہلے ہی اعما ل کچھ اچھے نہیں ہیں کہ روز قیامت اللہ کریم کے سامنے کھڑے ہوکر جنت کی امید لگاسکیں۔سب سے پہلے تو ہمیں نیک اعمال کی پوری پوری کوشش کرنی چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی ہر روز معافی مانگتے رہنا چاہئے، کیونکہ زندگی کا کچھ پتا نہیں کہ اگلے ہی لمحے اس دنیا فانی کو چھوڑ کر جانا پڑ جائے۔استغفار کی اہمیت ، ضرورت اور حصول برکت کے لئے چند قرانی آیات و احادیث کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں: قرآن مجید میں اللہ کریم کا ارشاد پاک ہے کہ ” جو شخص کسی برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے، وہ پھر اللہ سے بخشش طلب کرے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، نہایت مہربان پائے گا“۔ (النسائ: 110)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے ’ ’ا¿ستغفر اللہ الذی لا Êلہ Êلا ہو الحی القیوم وا¿توب Êلیہ “ کہا تو اس کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اگرچہ وہ میدان جنگ سے بھاگ گیا ہو۔(سنن ابی دا¶د1517.)۔
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سارے انسان خطاکار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں“ جامع ترمذی (2499)۔
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مبارکبادی ہے اس شخص کے لیے جو اپنے صحیفہ (نامہ اعمال) میں کثرت سے استغفار پائے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر 3818)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، پھر اچھی طرح وضو کرتا ہے، اور دو رکعتیں پڑھتا ہے، مسعر کی روایت میں ہے: پھر نماز پڑھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ سنن ابن ماجہ (1395 )۔
اللہ کریم ہم سبکو ہدایت نصیب فرمائے اور نبی کریم ﷺ کی سچی پکی محبت اور اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ کی لاکھوں کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر اور آپکی آل پاک رضوان اللہ علیھم اجمعین پر اور آپ ﷺ کے اصحاب پاک رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین پر۔ آمین ثم آمین۔نوٹ: اس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول ترجمہ، قرآنی آیت یا حدیث کے حوالہ نمبر،معنی،املائ، لفظی یا پرنٹنگ کی غلطی پر اللہ کریم کے ہاں معافی کا طلبگار ہوں، اور اگر کسی مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا اعتراض یا غلطی نظر آئے تو براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی ضرور فرمادیجئے گا۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

WordPress Blog