تحریر ڈاکٹر راحت جبین ۔کوئٹہ
خدا کو ڈھونڈتے پھرتے ہو
خدا کہیں کھو گیا ہے کیا
ہر انسان چاہے اچھا ہو یا برا, ہجوم میں ہو یا تنہائی میں, اپنے خدا سے ہمیشہ اس کا تصوراتی رابطہ رہتا ہے. وہ اپنے سوالات, حاجات, مشکلات اور مسائل کا ذکر اپنے خدا سے من ہی من میں کرتا ہے. عام معمولات کے دوران, سر بسجود ہو یا کسی مذہبی وابستگی سے ہٹ کر یہ معاملات انسان اور خدا کے مابین چلتے رہتے ہیں.انسان کبھی خدا کا شکر گزار ہوتا ہے اور کبھی شکوہ کناں مگر اکثر و پیشتر شکوے انسان اور خدا کے درمیان سے نکل کر لوگوں تک پہنچتے ہیں اور فتنے کا باعث بنتے ہیں. ایسی صورتحال زیادہ تر ادباءو شعراءکی ساتھ ہوتی ہے, کیونکہ ان کی تخلیقات ان کے ذہنوں سے نکل کر صفح قرطاس پر بکھر جاتے ہیں.
ایسا ہی کچھ امر جلیل کے استعاراتی افسانچے ”خدا گم ہوگیا ہے” کے سلسلے میں ہوا. اس ناول میں امر جلیل اپنے اور خدا کے مابین معبود اور بندگی کی دیوار ہٹا کر خدا کو اپنے جگری دوست کے درجے تک لایا. تمیز اور بد تمیزی کے دائرے سے نکل کر اپنی شکایات اس سے کیں. یہ افسانہ پڑھ کر مجھے اپنی چند نزدیکی سہیلییاں یاد آئیں. بات چیت کے دوران ہم اداب گفتگو بالکل ملحوظ خاطر نہیں رکھتے. بالکل یہی صورت حال اس افسانے میں نظر آئی.. جس میں امر جلیل نے تمام حدود پار کر لیے. دوست کہہ کر علامتی طور پر ہی سہی ناول کے شروع میں ہی لکھا کہ ”خدا گم ہوگیا ہے” اور اس پورے افسانے کا متن بھی یہی ہے جس میں وہ خدا کو لاپتا تصور کرنے کے ساتھ مظلوم, لاچار اور بے بس بھی گردانتا ہے.
امر جلیل ایک دو جگہ خدا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ”ایک نوالہ کھانے سے مر نہیں جا¶ گے….” یا ”فضول میں بھرم نہ دکھا¶، مجھے پتہ ہے کہ تم کچھ نہیں دے سکتے۔۔…. میں نے کہا تم فضول میں ضد نہ کرو خدا۔۔۔…. مجھے دینے کے لئے تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔…..۔” یا ” میرا دماغ گھوم گیا، دل میں خیال آیا کہ دھکا دے دوں بھلے مگرمچھ کھا جائیں۔۔…..” یہ پڑھ کر مجھ حیرت ہوئی کہ پوری کائنات کے خالق کے لیے ایسے الفاظ زیب دیتے ہیں چاہے خود کلامی میں یا علامتی طور پر ہی کہے جائیں. حالانکہ ایک جگہ وہ خدا کی بڑائی کا بھی معترف ہے.
”خدا میرا وہم نہیں ہے، وہ موجود ہے، میں اسکے بغیر مکمل نہیں ہوں، وہ میرے بغیر مکمل نہیں ہے، میں ہوں تو وہ ہے، وہ نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا، نہ دھرتی نہ آسمان نہ چاند نہ سورج نہ تارے، نہ پہاڑ نہ چٹانیں نہ ریگستان نہ جنگل نہ دریا نہ سمندر نہ انسان، کچھ بھی نہ ہوتا، وہ ہے تو سب کچھ ہے”
اور آخر میں جاکر یہ بھی لکھتا ہے
”اگر دے سکتے ہو تو مجھے اپنی خدائی دے دو۔۔۔” یعنی اصل بات ہی یہی ہے کہ ہم سب خدا بننا چاہتے ہیں فانی سے لافانی ہونا چاہتے ہیں. اور یہی چاہت ہم سے کفریہ جملے کہلواتی ہے.
ان استعارات کے پیچھے شاید اس کی سوچ معاشرتی فشار, نا انصافی اور ظلم کی ہو, جہاں غریب اور مظلوم کی کہیں شنوائی نہیں اور وہ خدا کو مورد الزام ٹہراتا ہے کہ وہ ظلم کیوں نہیں روکتا. مگر سچ تو یہ ہے کہ خدا گم نہیں ہوا, ہمارا ضمیر کھو گیا ہے بلکہ مرچکا ہے. پہلے وقتا فوقتا کچوکے لگاتا تھا مگر اب اضافی بوجھ کی مانند ہمارے اوپر بار بن گیا ہے جس سے ہم سب چھٹکارہ چاہتے ہیں. ہمیں اپنے سوئے ہوئے یا لاپتہ ضمیر کو جگانے یا ڈھونڈنے کی ضرورت ہے نہ کہ شہ رگ سے قریب خدا کو جس سے ہمارے نفس, بے جا ضروریات, عیاشی اور کاہلی نے ہمیں دور کیا ہے.
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا مذہب ہمیں شاعری سے روکتا ہے مگر کس قسم کی شاعری سے اور کیوں؟. اکثر اوقات شاعری میں عشق حقیقی پر عشق مجازی حاوی ہوجاتا ہے اور شاعری کی صورت کفریہ اور مشرکانہ کلمات منہ سے نکلتے ہیں. اور ہم گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں. جیسا کہ ایک انڈین گانے کے بول ہیں.
جانے دل میں کب سے ہے تو
جب سے میں ہوں تب سے تو
مجھ کو میرے رب کی قسم
یارا رب سے پہلے ہے تو
یا پھر
تجھ میں رب دکھتا ہے یارا میں کیا کروں
سجدے سر جھکتا ہے یارا میں کیا کروں
اب تو ادب کو ناپنے کا پیمانہ ہی بدل گیا امر جلیل جیسے لوگوں کی ہر تحریر کو تقویت ملتی ہے اور ادب کی بہترن صنف میں شمار کیا جاتا ہے پھر بھلے سے اس میں ادب کے نام پر مذہب کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑائی جائیں. مانا کہ ہمارے اعمال مذہب کے دائرے سے نکل گئے ہیں اور رب کائنات کی نافرمانی کے عروج تک پہنچ گیے ہیں مگر کیا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس حد تک پہنچ جائیں کہ علامتی طور پر ہی سہی اس ذات لافانی کا فانی سے موازنہ کریں. اپنے اعمال کو دیکھنے کے بجائے خدا کے اختیارات پر انگلی اٹھائیں اور بھول جائیں کہ ظلم کیوں بڑھ گیا یے؟, نا انصافی کی کیا وجوہات ہیں؟, روز مرہ زندگی میں اپنے فرائض سے روگردانی کی کیا سزا ہے؟ اور یہ کہ مذہب کو اور اللہ تعالی کی ذات کو پھرکنے کا کیا پیمانہ ہے. خدا کو علامتی کردار بنا کر چیف کلیکٹر یا دھنی بخش جیسے لاپتا کرداروں کی صف میں کھڑا کرنا شرک کے متردف نہیں یا پھر ہمارے مذہب میں ایسے شرک کی گنجائش ہے؟. خدا صرف تصوراتی یا علامتی نہیں, اس کا وجود ہے اور وہ بھی لافانی جسے شاید محسوس کرنے کی بھی ہم میں تاب نہیں.
امر جلیل ایک جگہ لکھتا ہے کہ میں نے خدا کو کنفیوژ کردیا تھا، میں نے پوچھا تھا کہ تم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی بھیجے ہیں ان میں ایک بھی عورت نہیں ہے، کسی عورت کو نبی نہیں بنایا۔۔ تم نے ایسا کیوں کیا؟؟ جواب دینے کی بجائے خدا یہاں وہاں دیکھنے لگا، میں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے تم نے ایسا کیوں کیا، کیونکہ تمہیں ماں اور ممتا کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں۔۔”خدا تم بڑے بدنصیب ہو کہ تمہیں کسی ماں نے جنم نہیں دیا، اس لئے تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ ایک ماں اورماں کی ممتا کیا ہوتی ہے”
ماں جس کی خدمت میں رب نے جنت کی نوید لکھ دی, اسے نہیں پتا ماں کیا ہے؟؟؟ ماں جس کی محبت سے ستر گنا زیادہ اپنی محبت کو قرار دیا اسے نہیں پتا ماں کیا ہے؟؟؟
کیا ہے یہ سب؟ کیا ہمارا ادب اس حد تک گستاخ ہوچکا ہے کہ ہم اپنے ہی پیدا کرنے والے ذات کی توہین کے اس حد تک مرتکب ہوں کہ ادب کے تمام تقاضے ہی بھول کر اسے علامتی ادب کا شاہکار قرار دیں.کیا فرق رہ گیا ہم میں اور ایک کافر میں. جو کافر کہتے ہیں وہی ہم کہہ رہے ہیں. مجھے آج کل کے ادیب اور قاری سے چند سوالات کے جواب چاہئیں. کیا علامتی ادب میں ہی سہی ہم اپنے ماں باپ کی توہین کرتے ہیں یا ان کی توہین برداشت کرتے ہیں؟؟ کیا استعارتی طور پر ہی سہی کوئی لکھاری یا قاری اپنے والد کے بارے میں یہ کہنا یا سننا پسند کرے گا کہ اسے سمندر میں پھینکو تاکہ مگر مچھ اسے کھا جائیں. ہوسکتا ہے کہ اس علامتی افسانے کے پیچھے امر جلیل کا وہ مطلب نا ہو جو ہم بے ادب سمجھ رہے ہیں. مگر ایسے ادب سے بے ادبی ہزار درجے بہتر ہے. کیونکہ ادب میں کسی بھی قسم کی گستاخی کی گنجائش نہیں.
الحمد اللہ ہم تو وہ قوم ہیں جو شخصیت پرستی کے لبادے میں اپنے سیاسی قائدین کی بھی پوجا کرتے ہیں اور ان کو برا بلا کہنے والوں کی ماں بہن ایک کردیتے ہیں تو کیا ہمارے سیاسی قائد, رب کائنات سے بڑے ہیں. قائد کو کچھ کہنا قابل برداشت نہیں جبکہ یہاں استعارتی کہہ کر سراہ رہے ہیں. قائد کے لیے مرنے مارنے والے کی اپنے رازق کے لیے خاموشی کیا معنی رکھتی ہے. پہلے زمانے میں فیض, حبیب جالب, ناصر قاسمی, احمد فراز و دیگر نے جیلیں اس وجہ سے کاٹیں کہ انہوں مسند اعلی پر براجمان حاکم طبقے کے خلاف کچھ کہا.
کیا ایسے حکم نامے صرف وقت کے حکمرانوں کی توہین کے لیے ہیں. مانا کی رب کی ذات سب سے افضل ہے اس کی بزرگی پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا مگر کیا ہمارے ضمیر واقعی مردہ ہوچکے ہیں جو ہم یہ برداشت کر رہے ہیں.
ماضی میں کچھ شاعر حضرات نے رب سے ایسے مکالمے کیے جیسے کہ علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم شکوہ لکھی اور اس میں اللہ تعالی سے مسلمانوں کی پستی کی شکایتوں کی لمبی لسٹ لکھی مگر اخلاقیات و ادب کی حد کو ملحوظ خاطر رکھ کر اور نہ ہی اس ذات کی کبریائی کو چیلینج کیا مگر پھر بھی اسے اس وقت کے مسلمانوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا مگر علامہ اقبال اس دوران جواب شکوہ بھی لکھ چکے تھے جس میں ان سوالات کا جواب تھا جو شکوہ میں کیے گئے. اووہ بھی نہایت مہذب انداز میں.
احمد ندیم قاسمی کی شاعری میں بھی یہ جھلک دیکھنے کو ملتی ہے مگر حد ادب کے دائرے میں رہ کر.
اس انتظار میں تکمیلِ کفر ہو نہ سکی
کبھی تو میرا خدا بھی مرا خدا ہوتا
ایک جگہ احمد ندیم قاسمی صاحب اپنی بندگی کا بھی بھرپور اظہار بھی کرتے ہیں.
مرا کوئی بھی نہیں کائنات بھر میں ندیم
اگر خدا بھی نہ ہوتا تو میں کدھر جاتا
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس ملازموں کی فوج ہو جو اس کے حکم کے تابع رہیں اور اس کے اشاروں پر چلیں. ان کی اپنی سوچ کو محکوم کرکے ان کو محدود کر دیا جاتا ہے. ان کی ضروریات مشکلات اور مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے.
اے خدا کوئی آدمی تو بھیج
سب خدا ہیں تری خدائی میں
جب ایک فانی انسان کی اپنے جیسے انسان کے لیے سوچ ایسی ہے تو زیر غور بات یہ ہے کہ لافانی مالک دو جہاں کی اپنی مخلوقات کے لیے سوچ کیسی ہوسکتی ہے. کیونکہ خدا اور انسان کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا اس کائنات کا وجود. اللہ تعالی نے جب یہ کائنات بنائی تو اس کے پیچھے اپنے حبیب کی پیدائش اور اسلام کا نزول تھا. تو پھر وہ ہم سے بندگی کی امید کیوں نہ رکھے.
ہم معاشرتی نا انصافیوں اور ظلم کی بات کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ ظلم, انصافیاں اور مسائل خدا حل کرے. یہ ہماری پیدا کردہ ہیں اور ان کا حل بھی ہمیں خود ڈھونڈنا ہے. کیوں؟؟ اس لیے کہ ہم اشرف المخلوقات بنا کر بھیجے گئے ہیں. ہمیں اللہ نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرکے بھیجا ہے. پیدائش سے لے کر موت ایک جیسی دی, دن سے لے کر رات ایک جتنے دیے, جسمانی ساخت اور عقل و شعور کا ایک جیسا معیار. پھر گلہ کیوں؟ جو ظلم کرتا ہے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرو. نا کہ خدا کو مورد الزام ٹہرا¶ خدا نے تو ایک مکمل ضابطہ حیات ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچا دیا. دو اچھے, برے راستے اور ان کی منزل بتادی اب اس ضابطے پر عمل کرنا تو ہمارا کام ہے. انسانی ذہن کو اللہ تعالی نے جستجو کے لیے بنایا.خدا کی حقیقت اور انسان سے اس کا تعلق,انسان کے اشرف لامخلوقات ہونے اور کائنات کی حقیقت, عالم برزخ اور گناہ و ثواب کا حصول یہ سب تسخیر کا متقاضی ہے. اسی سوچ نے ادباءاور شعراءکو بھی خود کلامی اور اپنی تخلیقات کے ذریعے ایسے متعدد سوالات اٹھانے پر مجبور کیا ہے جو جائز ہے مگر ادب کے دائرے میں رہ کر
سفیرِ عشق
تحریر::ایس ایس حامد یزمان
ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے لیکن 21 اپریل کو خالقِ کائنات نے ایک ایسی ہستی کو افقِ خاور کے پردوں میں چھپایا جس نے ملتِ اسلامیہ کی تقدیر کا فیصلہ سنایا تھا جو مسلمانانِ بر صغیر کے اسیری میں جھلستے ہوئے وجود کو یوں آزادی کی روشنی میں لایا جیسے کسی تپتے ہوئے صحرا میں چپکے سے بہار آ جائے اور چار سو خوشی و شادمانی کے عَلم لہرا دے
اقبال! جس نے افلاک کو مکاں بناتے ہوئے اس کی بلندیوں پہ اپنا نام ”اقبال ” ثبت کیا
اقبال! وہ ہستی کہ جن کے عشق کی گواہی دینے کے لئے خوبصورت الفاظ شاعری کا جامہ پہنتے جائیں
اقبال! وہ مردِ حق کہ جن خواب کی حسین تعبیر ہے پاکستان
اقبال وہ نام کہ اقبال مندیاں ان کی دہلیز پہ سر جھکائے با ادب نظر آتی ہیں
اقبال وہ لامحدود کام ہے کہ جن کی انتہاءتک رسائی نا ممکن ہے
علامہ محمد اقبال کا نام ملتِ اسلامیہ کے لئے قابلِ قدر اور قابلِ فخر سرمایہ ہے
اقبال ایسی ہستی جو دنیا سے چھپ کر بھی تا قیامت محفوظ و موجود اور تابندہ رہے گی
اقبال! سفیرِ محبت و امن, واعظِ قوم اور حقیقی عشق کے باکمال مسافر تھے اے بادِ صبائ! تیرا جب بھی امینِ محبت کی آرام گاہ سے گزر ہو تو تُو پیکرِ عقیدت و وفا ہو کر میرے اقبال کے مزار کو پلکوں سے چومنا اور م¶دب ہو کر عرض گزار ہونا کہ اے راہِ عشق کو جاودانی عطا کرنے والے تجھے تیرے طالب سلام کہتے ہیں
تلاشوں میں جب بھی عشق کی راہ کو
بے اختیار میری نظری تیری آرام گاہ پہ آتی ہیں
عورت کا مقام
تحریر:شاہدہ ارشاد خان۔ کراچی
میں اکثر عورتوں کو اپنے حقوق کا رونا روتے اور خاص کر جب عورتوں کو سڑکوں پر اپنے حقوق مانگتے دیکھتی ہوں تو دل میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں اور دل دکھ جاتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مذہب اسلام کی عورت کون سے حقوق مانگنے سڑکوں پر نکلتی ہے جبکہ اللہ تعالی نے ہمارے پیارے نبیﷺ کے ذریعے چودہ سو سال پہلے اسلام میں عورت کا مقام بتا دیا تھا آئیں اسلام میں عورت کا مقام دیکھیں
عورت اگر بیوی کے روپ میں تھی تو نبی ﷺ? نے فرمایا خدیجہ اگر تم میری جلد بھی مانگتی تو میں اتار کر دے دیتا جب یہی عورت بیٹی کے روپ میں تھی تو نبی ﷺ? نے نہ صرف کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا بلکہ فرمایا میری بیٹی فاطمہ میرے جگر کا ٹکرا ہے جب یہ عورت بہن کے روپ میں تھی تو نبی ﷺ? نے فرمایا کہ بہن تم نے خود آنے کی زحمت کیوں کی تم پیغام بھجوا دیتی میں سارے قیدی چھڑا دیتا اور جب یہ عورت ماں کے روپ میں آئی تو قدموں میں جنت ڈال دی گئی اور حسرت بھری صدا بھی تاریخ نے محفوظ کی فرمایااے صحابہ کرام کاش! میری ماں زندہ ہوتی میں نماز عشاءپڑھا رہا ہوتا اور میری ماں محمد پکارتی تو میں نماز روک کر اپنی ماں کی بات سنتا عورت کی تکلیف کا اتنا احساس فرمایا گیا کہ دوران جماعت بچوں کے رونے کی آواز سنتے ہی قرا¿ت مختصر کر دی
خدارا مغرب کی لڑکیوں کی آزادی دیکھ کر اپنے حقوق نہ مانگیں ان کے پاس سوائے آزادی کے اور کچھ نہیں ہے اور آپ کے پاس اللہ تعالی کا دیا ہوا خاص مقام ہے بیشک کبھی کبھی مشکلوں پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر اپنے مقام کے تقدس کو پہچان کر اپنے گھروں میں پرسکون زندگی گزاریں
اللہ تعالی ہم سب عورتوں کو یہ بات سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین
بچوں کی تربیت کیسے کریں
اقصی رمضان (نارووال)
ماں کی تخلیق کا مقصد صرف نسل انسانی کو آ گے بڑھانا نہیں تھا۔بلکہ بچوں کی تربیت کو پروان چڑھانے کے لئے ماں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ماں کی رضامندی کو رب کی رضامندی اور ماں کی نافرمانی کو رب کی نا فرمانی قرار دیا گیا۔
دنیا اور آ خرت کی کامیابی میں ماں کی عظمت و عزت و تکریم کو واجب قرار دے دیا گیا۔
مگر آ ج کی ماں اپنے رتبے کو پہنچاتی ہی نہیں۔بچے کو دنیا کی تعلیم دلوانے کے لیے سخت سے سخت حالات سے بھی گزر جاتی ہے۔افسوس صد افسوس! آ خرت کی زندگی جو ہمیشہ رہنے والی ہے اس کے لیے تیاری ہی نہیں کروا رہی اپنے بچوں کو۔ کاش آ ج کی ماں اپنے بچوں کی شخصیت میں نبی آ خر الزماں صلی علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کا رنگ بھرتی۔اس کی زندگی کا مقصد آ خرت کی کامیابیوں کا حصول بناتی۔اس کی شخصیت کو صحابہ کرام کی لازوال ایمان افروز محبت سے چار چاند لگاتی۔مگر اے ماں یہ تو نے کیا کیا!
اپنی اولاد کو سپر مین اور اسپائیڈر مین کے خیالات میں گم کر دیا۔
ارےتم اسے محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد بناتی۔مگر تو نے تو اسے فانی دنیا کے فریبوں میں کھو جانے دیا۔
ارے تجھے تو اپنی اولاد کو مولا علی کرم اللہ وجہہ کی شجاعت دینی تھی۔عمر فاروق کا ایمان دینا تھا۔عثمان غنی کی سخاوت دینی تھی۔ابوبکر صدیق کی صداقت دینی تھی۔
سرور کائنات کی محبت سے اس کا سینہ منور کرنا تھا۔رب کائنات سے اس کی ملاقات کروانی تھی۔بی بی فاطمہ کی شرم وحیائاور پاکیزگی سے اس کے تصورات و خیالات سے اس کو روشناس کروانا تھا۔
آ ج کی ماں جاگ ذرا۔اگر اب بھی تو نہ جاگی۔ تو بربادی کا ایک طوفان اب بھی تمھارے سامنے سینہ تان کر کھڑاہے۔اب بھی وقت ہے۔ان قدروں کو پہچان ذرا۔ جسے کہا گیا ”ماں کے پیروں تلے جنت ہے۔اپنے اس رتبے کو پہچان زرا۔
دنیا کی فانی محبت سے تھوڑا الگ کر،اپنے ذہن کو اس چمک ودمک سے آ زاد کر۔
اب بھی وقت یے۔اٹھ اپنے ایمان کو تازہ کر،اس دنیا کی محبت کو فراموش کر۔اور اپنی آ خرت کی فکر کر جس کے لیے تو نے جوابدہ ہونا ہے۔
اس دنیا میں تیری اولین زمہ داری اولاد کی پرورش ہے۔تیرا کام اس کی شخصیت میں دنیاوی اخلاق واطوار کو سنوارنااور دین کی خدمت اوراس کے فرائض کو اجاگر کرنا ہے۔
اپنی اولاد کو اپنی آ خرت میں نجات کا ذریعہ دنیا میں صدقہ جاریہ بنانا ہے۔
اللہ سے دعا ہے مجھے اور آ پ سب کو دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کے لیےاپنی زمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق دے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔(آ مین یا رب العالمین)۔