ایک طرف وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ملک میں گڈ گورننس کے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں اور سرکاری مشینری کو عوام کاحاکم نہیں بلکہ خادم قراردیا جارہاہے مگر دوسری جانب اسی سرکاری مشینری کے چند پرزے حکومت کی گڈ گورننس کی پالیسی کی دھجیاں بکھیر نے میں مصروف ہیں اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے اور ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے یہ سرکاری اہلکار عوام کے خادم نہیں بلکہ حاکم ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے تمام ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہوئے معزز شریف شہریوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز ، گستاخانہ ، قابل اعتراض ، ناروا ، غیر اخلاقی ، غیر قانونی ، غیرانسانی رویہ روارکھنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور جب انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ غلطی صارف کی نہیں بلکہ خود ان کی ہے تو وہ اپنی غلطی کاہزاروں روپے جرمانہ بھی صارف سے وصول کرتے ہیں اور انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اسے ذلیل و خوار کرتے ہوئے بار بار دفاتر کے چکر لگانے پر بھی مجبور کیاجاتاہے جس کی ایک مثال نادار سوئفٹ رجسٹریشن سنٹر کچہری چوک جھنگ صدر کی ہے ۔ ضلع جھنگ کے ممتاز سینئر صحافی ، جھنگ یونین آف جرنلسٹس اینڈ پریس کلب جھنگ کے ایگزیکٹو ممبر ، قومی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیاسے تعلق رکھنے والے ورکنگ جرنلسٹ اور مقامی اخبار کے چیف ایڈیٹر آفتاب احمد خان ترین نے وزیر اعظم پاکستا ن محمد نواز شریف ، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ، چیئرمین نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی محمد امتیاز تاجور کے نام تحریر ی درخواست میں نادراجھنگ کی سنگین زیادتی اور عملہ کے انتہائی غیر اخلاقی رویہ کے بارے میں مؤقف اختیارکیاہے کہ تقریباً 2 ماہ قبل وہ اپنی شادی شدہ صاحبزادی اور نواسے و نواسی کا کارڈ بنوانے کیلئے نادرا سوئفٹ رجسٹریشن سنٹر کچہری چوک جھنگ صدر گئے جہاں جاتے ہی انہیں بغیر رضامندی نارمل ٹوکن کی بجائے ارجنٹ ٹوکن جاری کر دیا گیا جس کے بعد ڈیٹا انٹری کا مرحلہ مکمل ہوا جہاں انہوں نے اپنی بیٹی کا کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ ، اپنا ، اپنی اہلیہ اور داماد کا شناختی کارڈ پیش کیا ، تصویر بنانے ، انگلیوں کے نشانات لینے کے بعد اگلے مرحلہ میں ڈیٹا انٹری آپریٹرز نے تمام ڈیٹا کمپیوٹر میں فیڈ کیا اور آخری مرحلہ پر پرنٹڈ فارم نکال کر تصدیق کیلئے دے دیا گیا ۔ جسے ضروری کوائف لف کرنے کے بعد بیان حلفی کی گزیٹڈ افسر اور مجسٹریٹ درجہ اول سے تصدیق کے بعد متعلقہ کاؤنٹر پر جمع کروایا گیا تو وہیں سے بلا جواز اعتراضات لگانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔انہوں نے بتایاکہ اس موقع پر کہا گیا کہ جس آفیسر کی تصدیق کروائی گئی ہے اس کے عہدے کی نہیں بلکہ نام کی مکمل مہر لگوائی جائے ۔ اس طرح تصدیقی اتھارٹی کی نام والی مہر دوبارہ لگوا کر فارم متعلقہ کاؤنٹر پر دیا گیا جہاں انتہائی ناروا ، ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا گیا کہ کارڈ 17/18 روز کے بعد بن کر آ جائے گا حالانکہ فیس ارجنٹ وصول کی گئی تھی مگر جب مقررہ ایام کے بعد کارڈ بن کر آیا تو اس میں پتے کی غلطی کر دی گئی جو متعلقہ ڈیٹا انٹری آپریٹرز اور محکمہ کے متعلقہ حکام کی سنگین کوتاہی تھی مگر اس کا سزا وار بھی سینئر صحافی کو ہی ٹھہرایا گیا ۔ اس موقع پر انہوں نے دوبارہ صحافی موصوف کو ارجنٹ ٹوکن جاری کیا اور اپنی غلطی کی سزاانہیں دینے کے بعد طویل مراحل سے گذار کے نیا کارڈ جاری کیا ۔ اس دوران انہوں نے اپنے نواسے اور نواسی کے سمارٹ کارڈ کے اجرأ کیلئے بھی ٹوکن حاصل کئے جو فی کس 1500 روپے کے حساب سے 3000 روپے میں جاری کئے گئے ۔ مذکورہ کارڈز بنوانے کا مقصد یہ تھا کہ چونکہ موصوف کا داماد بسلسلہ روزگار سعودیہ منتقل ہو گیا تھا لہٰذا وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کو بھی وہاں بلوانا چاہتا تھا ۔ اس موقع پر ان کی ملاقات اسسٹنٹ پراجیکٹ منیجر زاہد علی سے بھی ہوئی جس نے مذکورہ کارڈز کے اجرأ میں بظاہر تعاون کی یقین دہانی کروائی مگر ان کے عملہ نے ان کی ہدایت کو درخور اعتنا ء نہ سمجھا ۔ بعدازاں 31 جنوری کو صحافی موصوف کو اپنی شادی شدہ صاحبزادی ، نواسے اور نواسی سمیت نادرا آفس آنے کیلئے کہا گیا ۔ جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں سسٹم انجینئر رضوان چوہدری نامی شخص موجود تھا جسے تمام کاغذات بشمول نکاح نامہ وغیرہ دکھائے گئے اور بچوں کے سمارٹ کارڈ پراسیس کرنے کی استدعا کی گئی ۔ اس موقع پر وارث نامی ایک ہاتھ سے معذور ڈیٹا انٹری آپریٹر کو بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ ، ان کے والد کا شناختی کارڈ، والدہ کاشناختی کارڈ اور دیگر کوائف فراہم کئے گئے تو اس نے ڈیٹا انٹری کے بعد کہا کہ ان کے داماد محمد صابر کے ریکارڈ میں غیر شادی شدہ تحریر ہے اس لئے نہ تو سمارٹ کارڈ بن سکتے ہیں اور نہ ہی بچوں کے پاسپورٹس کا اجراء ممکن ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی صاحبزادی کا زوجیت کے نام پر بنایا گیا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ، کمپیوٹرائزڈ نکاح نامہ ، بچوں کے کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات دکھائیں مگر اس نے صحافی موصوف کے داماد کو شادی شدہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دونوں ٹوکن پر سرخ پنسل سے کچھ تحریر کر کے اگلے کاؤنٹر پر جانے کی ہدایت کی جہاں اس سے بھی زیادہ بد تمیز ، نا اہل اور ہتک آمیز رویہ کی حامل ڈیٹا انٹری آپریٹر نیئر بتول موجود تھی جس نے کاغذات دیکھے اور سسٹم انجینئر رضوان کے پاس جانے کو کہا ۔ جب صحافی موصوف سسٹم انجینئر کے پاس گیا تو انہوں نے ڈیٹا انٹری آپریٹر وارث سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ڈیٹا میں صابر غیر شادی شدہ تحریر ہے مگر وہ اس بات کا کوئی جواب نہ دے سکے کہ جب کمپیوٹرائزڈ نکاح نامے سمیت صابر کی اہلیہ کے شناختی کارڈ میں خاوند کی زوجیت درج ہے تو پھر ریکارڈ میں غلطی یا ڈیٹا میں مسنگ کیسے ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ سنگین محکمانہ غفلت اور مجرمانہ کوتاہی ہے ۔ اس موقع پر انہوں نے صحافی موصوف کا شناختی کارڈ مانگا اور ڈیٹا چیک کر کے انہیں بھی یہ کہہ دیا کہ ریکارڈ میں آپ کی ازدواجی حیثیت بھی غیر شادی شدہ ہے حالانکہ ان کی اہلیہ کا ان کی زوجیت میں شناختی کارڈ بن چکا ہے اور بچوں کی پیدائش کے ریکارڈ میں بھی ان کی اولاد کا ڈیٹا رجسٹرڈ تھا مگر اگر ڈیٹا میں کوئی مسنگ کی جاتی رہی ہے تو اس کا ذمہ دار موصوف نہیں تھا ۔ اس پر جب صحافی موصوف نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی تو تینوں اہلکاروں نے ان کے ساتھ شدید ہتک آمیز ، نا روا ، قابل اعتراض ، گھٹیا و غلیظ اور ذہنی پستی کے مطابق رویہ اختیار کیا اور کہا کہ ٹھیک ہے ان سے غلطی ہوئی ہے مگر وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے اس لئے آپ سے جو ہو سکتا ہے وہ کر لیں ۔ اس طرح جہاں نادرا جیسے انتہائی حساس نوعیت کے قومی ادارے کی ساکھ متاثر کی گئی وہیں سینئر صحافی کا وقار بھی مجروح کیا گیا ۔ انہوں نے اعلیٰ ارباب اختیار سے صورتحال کافوری نوٹس لینے اور ذمہ داران کو معطل و تبدیل کرنے کابھی مطالبہ کیاہے۔