تحریر ڈ:اکٹر راحت جبین ،کوئٹہ
اکثر اوقات شاپنگ مال کی مختلف وڈیوز نظروں سے گزرتی رہتی ہیں جن میں خوب دھکم پیل اور لوٹ مار مچ رہی ہوتی ہے. کبھی کبھار لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں اور نوبت مار پیٹ تک پہنچ جاتی ہے. ایسی ساری وڈیوز میں تقریبا عورتیں ہی آپس میں دست و گریبان نظر آتی ہیں, شاذو نادر ہی کسی مرد کی کوئی وڈیو نکلتی ہے. مزے کی بات تو یہ ہے کہ یورپ اور عرب ممالک کے لوگ ایسے معاملات میں بھی ہم سے کئی گنا آگے ہیں. یعنی جتنے مہذب لوگ اتنی افراتفری, بھگڈڑ اور مار پیٹ. جبکہ عام رش والی جگہوں اور چھوٹی موٹی مارکیٹوں میں گاہک ایسے خوشگوار مناظر سے محروم ہی رہتے ہیں. ہاں البتہ ان کے ہاں صرف دھماکے ہوتے ہیں وہ بھی خود کش کیونکہ یہی واحد طبقہ ہے جو مار کھا کر احتجاج کے بجائے خاموش رہنا مناسب سمجھ کر اسے اپنا نصیب گردانتا ہے.
مذکورہ بالا وڈیوز زیادہ تر مخصوص سیل کے دورانیے کی ہوتی ہیں. پچھلے سال کورونا لاک ڈاون کے اعلان کے بعد حفظ ماتقدم کے طور پر لوگوں نے اپنی دو تین ماہ کی گروسری اور دوسری روزمرہ زندگی کی ضروریات کی مکمل شاپنگ کی تھی. اس دوران بھی کئی ایسے ہی نایاب و نادر وڈیوز وائرل ہوئے. میری بہت خواہش تھی کہ میں بھی کسی ایسے سیل میں جاوں اور ریسلنگ کے ایسے اچھوتے مناظر کا براہ راست اپنی گناہ گار آنکھوں سے مشاہدہ کروں. مگر ہر بار ایسے وقت پر میں شہر میں نہیں ہوتی یا پھر کوئی نہ کوئی دوسرا مسئلہ درپیش ہوتا اور میری دیدہ بصارت ایسے مناظر دیکھنے سے محروم رہ جاتی. مگر جہاں چاہ وہاں راہ کے مصداق اللہ تعالی نے میرے دل کی یہ فریاد بھی سن لی. ایک دن میں دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ فرمارہی تھی کہ فون کی مسلسل بجتی گھنٹی سے آنکھ کھلی. نیند خراب ہونے کے باعث بے دلی سے فون اٹھایا. دوسری جانب لائن پر شوہر نامدار صاحب تھے اور پوچھ رہے تھے کہ ”کوئٹہ کے ایک نئے شاپنگ مال کا افتتاح ہونے جارہا ہے اور اسی سلسلے میں وہاں تین روزہ گرینڈ سیل لگی ہے وہ بھی ستر فیصد تک اور آج سیل کا آخری دن ہے چلنا ہے تو تیار ہوجاو میں لینے پہنچتا ہوں”۔ ذرہ سوچیں شاپنگ کی آفر اور وہ بھی شوہر کی طرف سے تو کون کافر بیوی ایسے نادر موقع سے انکار کرکے گناہ کی مرتکب ہوگی. مزے کی بات یہ کہ یہ ہمیں تو پہلی بار یہ نادر موقع مل رہا تھا کسی بڑے شاپنگ مال میں گرینڈ سیل سے فائدہ اٹھانے کا ورنہ تو زیادہ تر ونڈو شاپنگ سے ہی دل بہلاتے. اس لیے میں نے فورا حامی بھری. نیا شاپنگ مال, گرینڈ سیل اور دیرینہ خواہش کی تکمیل, تو کہاں کا قیلولہ, کہاں کی نیند ایک دم ہشاش بشاش ہوئی اور اٹھ کر تیار ہوگئی. حسب معمول سب کے لیے ماسک اٹھائے اور گاڑی میں سوار ہوگئی. ساتھ میں دس سالہ بیٹا میر جیند بھی تھا یہ اس کے لیے بھی نادر موقع تھا ٹیوش سے جان چھڑانے کا.
آہستہ آہستہ گاڑی منزل کی جانب بڑھنے لگی مگر کوئٹہ کے راستے حسب معمول یہاں کے صوبائی گورنمنٹ کے منصوبوں کی مانند جام ہی تھے, اور آج تو کچھ زیادہ ہی رش لگ رہا تھا اس کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی تھیں ایک تو شاید پورا کوئٹہ سیل کا سن کر شاپنگ کے لیے نکلا تھا یا پھر سرکاری ملازمین کی ہڑتال کے سلسلے میں راستے بند تھے خیر اللہ اللہ کرکے ہم شاپنگ مال پہنچ گئے. گاڑی کو پارکنگ میں کھڑا کرکے مارکیٹ کے اندر پہنچے تو عجب ہی منظر تھا. لوگوں کا ایک بے ہنگم ہجوم کورونا ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتا نظر آیا رش کا وہ عالم تھا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں سیل نہیں لگی بلکہ مفت چیزیں بانٹیں جارہی ہوں. شوہر تو شاپنگ مال پہنچتے ہی حسب معمول اپنے موبائل میں مگن ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ. میں نے بیٹے کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا کہ کہیں اس ہجوم بے کراں میں گم نہ ہوجائے.. ایسی افرا تفری اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی جیسے قیامت صغرہ کا سما ہو. لوگ ایک دوسرے سے بے نیاز ادھر سے ادھر دوڑے چلے جارہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں ٹرالی پر سامان ایسے لدھا ہوا تھا جیسے کہ سب کے ہاتھ قارون کا خزانہ لگ گیا ہو. یا پھر گورنمنٹ نے ساری عوام کو عیدی دینے کا اعلان کیا ہو کیونکہ مہنگائی سے ستائی ہوئی قوم تو یہ کہیں سے بھی نہیں لگ رہی تھی. خیر ہم نے بھی شاپنگ کے لیے کمر کس لی اور نظریں ادھر ادھر دوڑائیں کے کوئی ٹرالی نظر آئے مگر وہاں کوئی ٹرالی نہیں تھی. پورے سپر اسٹور میں سرگردان پھرے.مگر کوئی ٹرالی نظر نہیں آئی. وہاں کے ملازمین اور سیکیورٹی گارڈ والوں سے درخواست کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا. ہماری طرح اور بہت سے لوگ ٹرالی کے لیے ایسے سرگردان نظر آئے جیسے اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کو ڈھونڈھ رہے ہوں. اب تو پریشانی لاحق ہوئی کہ کیا کریں. کیا شاپنگ کیے بغیر واپس لوٹ جائیں کہ اچانک میر جیند کے دماغ میں ایک آئڈیا آیا.اس کا ذہن تو بچپن سے ہی آئیڈیاز سے بھرا ہوا تھا جو وقتاً فوقتاً وہ ہمارے گوش گزار کرتا رہتا تھا. اس نے کہا کہ امی جو بھی خریداری ختم کرے اس سے ٹرالی لیتے ہیں. اپنے اس عظیم مقصد کو پایائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے باہر نکلنے والے راستے پر کھڑے ہوگئے. مگر یہ کیا یہاں بھی ٹرالی کے حصول کے لبے پناہ ہجوم تھا. پھر جیند خود ایک شخص کے ساتھ اس کی گاڑی تک گیا جو شاپنگ مکمل کرچکا تھا تاکہ یقینی طور پر ٹرالی لے کر ہی واپس آئے.اللہ اللہ کرکے وہ ٹرالی سمیت واپس آیا تو اس کے چہرے پر خوشی ایسے جھلک رہی تھی جیسے کہ سلطنت عثمانیہ ہاتھ لگا ہو. لوگوں کے دیکھا دیکھا ہم بھی سامان پر ایسے ٹوٹ پڑے جیسے کسی طویل قحط کے بعد آب و گیاہ میں کسی کو آب و دانہ نصیب ہوتا ہے. ایک گھنٹہ تک اشیائے خورد و نوش کے علاوہ روزمرہ کی ضروریات زندگی کی کچھ اشیا لینے کے بعد ایک اور بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا اور وہ تھا کاونٹر تک پہنچ کر پیسے ادا کرنے کا. اس کے لیے ہر کاونٹر پر لمبی لمبی قطاریں لگی تھی. یہاں بھی بہت سے لوگ اپنی قومی عادت کے باعث لائن توڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے. انتظار کے دوران ایک دم سے ذہن میں خیال آیا کہ یہ کیا؟ یہاں تو کوئی لڑائی بھی نہیں ہوئی, کیسی سیل تھی یہ؟ ورنہ تو سیل کے نام پر ملک کے بڑے شہروں اور بیرون ملک بھی مزے مزے کی لڑائیاں وائرل ہوتی ہیں. انہی سوچوں میں غلطان تھی کہ سامنے والے کاوٹر سے لڑنے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں. دو فیملیز ایک دوسرے سے لڑ رہی تھیں اور وجہ یہ تھی کہ ایک لڑکی نے پھرتی دکھاتے ہوئے دوسری جانب سے گھس کر کائنٹر تک پہلے رسائی حاصل کی. یہ لڑائی جلد ہی ختم ہوگئی. مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کوئٹہ والوں کو اردو کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے دوسرے شہریوں کی طرح اچھے سے لڑنا بھی نہیں آتا. خیر طویل انتظار کے بعد کاونٹر پر ہماری باری بھی آگئی. بل کو دیکھ کر کہیں سے نہیں لگا کہ یہ سیل زدہ بل ہے. خیر بوجھل دل سے پیسے ادا کیے اور اپنی ٹرالی لے کر گاڑی تک آگئے مگر ہمارے پیچھے پیچھے ایک شخص آیا تاکہ ٹرالی پر بروقت قبضہ کرسکے.
اس تمام عرصے کے دوران دو بار جیند گم ہوا مگر پھر اس کی عقلمندی یا آئیڈیاز کی پوٹلی کہیں کہ وہ جس جگہ مجھ سے بچھڑتا تو وہاں سے بالکل نہیں ہلتا تھا اس لیے ملنے میں مسئلہ نہیں ہوا.
ٹریفک کے بے ہنگم ہجوم کو جھیل کر آخر کار ہم گھر پہنچ گئے. گھر آکر رسید کو غور سے دیکھا کہ کتنی بچت کرکے آئے ہیں. مگر ساٹھ اشیاءمیں سے صرف پندرہ چیزوں پر ڈسکاونٹ تھا اور وہ بھی بمشکل دس فیصد اور مزے کی بات یہ کہ ان اشیاہ کی قیمتیں زیادہ کرکے ڈسکائنٹ میں کمی پوری کی گئی تھی. تقریبا ہر سیل کے پیچھے یہی داستان ہوتی ہے. اس لیے میں نے تو آئندہ کے لیے کسی بھی سیل کی آفر پر نا جانے کی توبہ کی.اب دیکھتے ہیں یہ توبہ کب تک برقرار رہتی ہے