تحریر۔۔۔ جاوید مہر
میڈیا فریمنگ کے تناظر میں
مغربی میڈیا کا تیسری دنیا کے میڈیا پر ہمیشہ تسلّط قاٸم رہا ہے۔ اپنا پاپی پیٹ پالنے کے لیے تیسری دنیا کا مغرب زدہ میڈیا مغرب اور اس کی نیوز ایجنسیز پر ہمیشہ سے انحصار کرتا آیا ہے جس سے ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان رہا ہے۔
میڈیا ہمیں معلومات اور تعلیم کے ساتھ ساتھ محظوظ بھی کرتا ہے۔ گلوبلاٸزیشن کی وجہ سے آج کے میڈیا اور اس کے وارداتی ہتھیاروں پر موجودہ نسلِ انسانی کا انحصار بہت حد تک بڑھ چکا ہے کیونکہ موجودہ دور میں یہ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔ کمرشلاٸزیشن نے میڈیا کی مقصدیت اور معروضیت کی عجیب سی کھچڑی بنا دی ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا والی بات سچی لگتی ہے۔
آج کی تحریر کا مرکز فلسطین پر صیہونی طاقت کے روا ظلم و جَوَر کی اندھیری رات اور ان کی مغربی میڈیا کے زریعے فریمنگ یعنی تصویر کشی کا پردہ چاک کرنا ہے۔ فریمنگ میڈیاٸی زبان کا ایک ایسا آلہ یا اصطلاح ہے جس سے مراد خبروں کا ایسا ڈھانچہ بنانا ہے کہ جس سے حقیقت کو سامعین، قارٸین اور ناظرین تک پہنچانا ہے کہ عوام وہی سوچیں جیسا میڈیا چاہتا ہے۔ یعنی وہی جانو جیسا ہم (میڈیا) جانتے ہیں۔ مغربی میڈیا اپنے آقاٶں کی خوشنودی اور پھینکی گٸ ہڈی پر حقِ نمک ادا کرنا خوب جانتا ہے اس لیے فلسطین کے مظلوموں پر ہونے والے مظالم کی دنیا کے سامنے یوں منظر کشی کرتا ہے کہ کُل عالم کو اسراٸیل حق پر کھڑا اور مجبورومقہور نظر آۓ جبکہ مقابلے میں نہتے مسلمان جو اسراٸیلی سنگینوں کے ساۓ میں مسجدِ اقصیٰ میں عبادت میں مشغول ہیں دہشت گرد نظر آٸیں۔
میڈیا فریمنگ بنیادی طور پر ایجنڈا سیٹنگ کی دوسری سٹیج ہے جس کے ذریعہ مغربی میڈیا حقیقت کو توڑ مروڑ کر الفاظ اور مضامین میں یوں رنگ بھرتا ہے کہ عالمی دنیا بھی اسے اسی طرح اپنے اندر جذب کرتی ہے جیسے یہ نام نہاد لبرل میڈیا چاہتا ہے۔ یہ فریمنگ ہی ہے جس کے ذریعہ میڈیا اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے کہ سچ وہی ہے جو میڈیا پیش کرتا ہے اور اسی طرح سے اسے حقیقت بھی مانا جاۓ کیونکہ میڈیا اتنا متاثر کرتا ہے کہ لوگوں کے سوچنے کا زاویہ بھی میڈیا ہی فراہم کرتا ہے۔ دنیا چونکہ مغربی میڈیا پر تکیہ کرتے ہوۓ اس کو مقصدیت پر مبنی سمجھتی ہے اس لیے فلسطین کے مسلمانوں پر اسراٸیل کے مظالم کو دیکھنے سے قاصر ہے۔ دنیا میں چلنے والی سماجی تحریکیں بشمول میرا جسم میری مرضی میڈیا فریمنگ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ فریمنگ ہی ہے جس کی مدد سے نیوز سٹوریز کا گورکھ دھندہ یوں تیار کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی خودکار طریقے سے رہنماٸی ہو جاتی ہے کہ کون سے مسٸلے کو کب، کتنی اور کیسے اہمیت دینی ہے اور کیا ردِعمل دینا ہے؟ اب چاہے یہ مسٸلہ بولا ہوا ہو، لکھا ہوا ہو، اشاروں کی زبان میں ہو یا تصویری۔ اس طرح سے دکھاٸی جانے والی خبر ایک ہی وقت میں ایک فریق کے لیے مثبت تو دوسرے کے لیے منفی ثابت ہوتی ہے۔ دیکھا جاۓ تو لوگوں کی فیصلہ سازی کی قوت بھی میڈیا فریمنگ کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔
آج کی تحریر میں فلسطین اور اسراٸیل کے تناظر میں مغربی میڈیا کی کوریج کےدوران پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر استعمال ہونے والے کچھ فریم ہیں جن سے قارٸین کی رہنماٸی ممکن ہو سکے گی کہ کیسے ایک ہی مسٸلے کے دو رُخ پیش کر کے مغربی میڈیا اپنی دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے؟
پراپرٹی ڈسپیوٹ یا جاٸیداد کا تنازع
ہم سب جانتے ہیں کہ اسراٸیل مغرب سے ساز باز کر کے فلسطین پر قابض ہے اور فلسطین کے مسلمانوں کو نکال کر یہودیوں کو آباد کیا جا رہا ہے مگر مغربی میڈیا دنیا کو دو فریقین کے درمیان جاٸیداد یا زمین کا جھگڑا بیان کرتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
سلاٹر ، وحشیانہ حملے
یہ اور اس طرح کے کٸ اور الفاظ مثلاً “لنچنگ” یعنی موت کے گھاٹ اتارنا وغیرہ وحشیانہ طرزِ عمل کو ظاہر کرتے ہیں مگر مغربی میڈیا نے ہمیشہ یہ الفاظ فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے لیے استعمال کیے ہیں اور اسراٸیل کے لیے “ڈیفنس” یعنی دفاع جیسے فریم کا استعمال کیا ہے جس سے دنیا کو یہ تاثر دینےکی کوشش کی گٸ ہے کہ فلسطین کی طرف سے اسراٸیل پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور اس سے دنیا اسراٸیل کو مظلوم سمجھے۔
خداٸی فوجدار یا دہشت گرد
مغربی میڈیا ہاتھوں میں پتھر اور غلیلیں لیے معصوم فلسطینی مسلمانوں کےلیے میڈیا کوریج میں “ٹیررسٹ” یعنی دہشت گرد کا فریم استعمال کرتا ہے جبکہ جدید ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بوٹوں کے ٹھڈوں پر مظلوم مسلمانوں کو رکھے ہوۓ صیہونی فوجیوں کے لیے “وجیلانٹ” یعنی خداٸی فوجدار کا فریم استعمال کرتا دکھاٸی دیتا ہے۔
شیخ جرّاح کے قصبے سے مسلمانوں کو زبردستی نکال کر کھلے آسمان تلے بےیارومددگار چھوڑ دیا گیا لیکن میڈیا میں وہی “پراپرٹی ڈسپیوٹ” یعنی جاٸداد کے تنازعے کا فریم لگا کر دنیا کو میٹھی گولی دے کر لوری دے دی گٸ۔
حملہ یا جوابی کاررواٸی
فلسطینی مسلمانوں کی طرف سے کوٸی پیش قدمی ہو تو اسے “اٹیک” یعنی حملہ اور اسراٸیل کی پیش قدمی کو “ریٹیلی ایٹ” یعنی جوابی کاررواٸی کا فریم دیا جاتا ہے۔
ایک اور فریم “کلیش” یا “کنفلکٹ” بھی ہے۔ ان دونوں الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ دو ہم پلّہ فریقین کے درمیان لڑاٸی ہے۔ دونوں میں طاقت کا توازن ہونا ضروری ہے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اسراٸیل اور فلسطین طاقت میں برابر ہیں؟ جواب لازمی طور پر نہیں میں ہے۔ ایک دنیا کے جدید اور بھاری ہتھیاروں سے مزیّن جبکہ دوسرا معمولی ڈنڈوں، پتھروں اور غلیلوں سے لیس۔ لیکن مغربی میڈیا اپنے آقاٶں کی ڈُگڈگی پربہترین ناچ پیش کر رہا ہے۔
گرفتاری یا اغوا
دوہزار چھ میں فلسطینی مسلمانوں نے ایک صیہونی کارندے کو پکڑ لیا تو میڈیا میں اسکے لیے اغوا کا لفظ استعمال ہوا جبکہ اسراٸیل نے 60 فلسطینی مسلمان پکڑ لیے جن میں 30 ارکانِ پارلیمنٹ بھی تھے اور میڈیا نے ان کے لیے جو لفظ استعمال کیا وہ گرفتاری تھا۔ اب اغوا اور گرفتاری کے الفاظ معانی اور منبع کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ایک زور زبردستی اور دھونس جبکہ دوسرا قانونی عمل کا اظہار کر رہا ہے جس سے اسراٸیل کی کارِرواٸی کو ہی قانونی عمل دکھایا گیا۔
اسراٸیل کی ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنے کے لیے خونی کھیل کو “دفاع” اور “جہدِ مسلسل” جیسے الفاظ جبکہ فلسطینی مسلمانوں کے لیے “لڑاٸی” اور “جھگڑے” جیسے الفاظ کا استعمال کر کے ان کو ظالم و جابر دکھانا۔ اسی طرح اسراٸیل کے لیے “رزسٹ” یعنی مزاحمت اور فلسطینی مظلوم اور نہتے مسلمانوں کے لیے اسراٸیلی کافروں کو طاقت کے زور پر دبانا یعنی “سپریس” کے فریم کا استعمال کیا جاتا ہے۔
آپ کچھ دن کے لیے بی بی سی یا سی این این کے ساتھ باقی یورپین میڈیا کی فلسطین پر کوریج بھی دیکھ لیں تو آپ کو مغربی میڈیا کی جانبداری یا غیر جانبداری کا اندازہ لگانے میں چنداں دیر نہیں لگے گی۔ کہنے اور دیکھنے کو تو یہ عام الفاظ ہوں گے مگر درحقیقت یہ ایسے جادوٸی گولے ہیں جو کسی بھی طرح ایٹم بم سے کم طاقتور نہیں ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
مگر میرا ماننا ہے کہ یہ میڈیاٸی الفاظ پَر اور طاقتِ پرواز دونوں ہی رکھتے ہیں جو لمحوں میں اپنا راستہ کھوجتے ہوۓ قوموں کی تقدیر کو بگاڑ یا بنا سکتے ہیں۔