تحریر۔۔۔جاوید مہر۔۔۔فلسطین کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں پر اسراٸیل کے حالیہ شب خون مارنے پر ہر دردِ دل رکھنے والی آنکھ اشکبار تھی۔ مغربی میڈیا کی اسراٸیل نواز کوریج کے مقابلہ میں سوشل میڈیا جیت گیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جو لمحوں میں پانسا پلٹ سکتا ہے اور مین سٹریم میڈیا اس کے سامنے بے بس ہے۔
دنیا کے 57 اسلامی ممالک میں سے چند ایک ہی سامنے آۓ اور فلسطین کے مظلومین کی آواز بنے ان میں سرِ فہرست پاکستان ہے۔ موجودہ حالات میں فلسطین پر پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ پاکستان نے نہ صرف فلسطین کے مقید اور محصور مسلمانوں کی امداد کا اعلان کیا بلکہ ہم خیال اسلامی ممالک کے ساتھ یہ مسٸلہ یو این او کے پلیٹ فارم پر بھی اٹھایا۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ کی باقی سیاست ایک طرف کر کے فلسطین کے مسٸلہ پر ان کا کردار دیکھیں تو دل عش عش کر اٹھتا ہے۔ یہی کردار اور ایسی ہی دبنگ آواز پورے عالمِ اسلام کی ہونی چاہیے۔
بقول مولانا ظفر علی خان:
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جاۓ
پاکستانی وزیرِ خارجہ نے 20 مٸی کو
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں فلسطین کے مظلوموں کا مقدمہ جس بیباکی سے لڑا وہ فلسطینیوں کی ڈوبتی ہوٸی امیدوں کو تنکے کا سہارا ثابت ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے ببانگِ دُہل فلسطین پر جو موقف پیش کیا اسکا خلاصہ کچھ یوں ہے:
” قوموں کی زندگی میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں جب ان کے فیصلے آنے والی نسلیں یاد رکھتی ہیں اور آج جو ہم کریں گے وہ تاریخ کا حصہ ہو گا۔ اسراٸیل اپنے تکبر اور رعونت میں فلسطین پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ بچوں اور عورتوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ سینکڑوں مسلمان شہید اور ہزاروں زخمی کر دیے گۓ ہیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ پانی، خوراک اور حفظانِ صحت کے گھمبیر مساٸل ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسراٸیل نے میڈیا کی زبان بندی کر دی ہے۔ عمارات زمین بوس کر دی گٸی ہیں۔ انہوں نے یہ باور کروایا کہ ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے سلامتی کونسل کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سلامتی کونسل عالمی امن قاٸم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ وہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جو عناصر سلامتی کونسل پر اثر انداز ہو رہے ہیں سلامتی کونسل کو انہیں روکنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو فلسطین کے مسلمانوں کو مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ وزریرِ خارجہ نے کہا کہ اسراٸیل کو اس ظلم سے روکا جاۓ اور سلامتی کونسل اسراٸیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرے۔ اگر سلامتی کونسل ایسا کرنے سے قاصر ہے تو جنرل اسمبلی عالمی برادری کی طرف سے یہ مطالبہ کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہتے اور محصور فلسطینی مسلمانوں کا اسراٸیل کی جنگی طاقت کے سامنے کوٸی موازنہ یا مقابلہ نہیں ہے۔ فلسطین کے پاس بحری، برّی یا فضاٸی فوج نہیں ہے جبکہ اسراٸیل دنیا کی طاقتور ترین فوجی قوت کا حامل ہے۔ یہ جنگ ظالم اور مظلوم، قابض اور مقبوضہ عوام کے درمیان ہے۔ وزیرِ خارجہ نے غزہ کی تمام انسانی امداد کی بحالی کی بات کی۔ انہوں نے جنرل اسمبلی کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوۓ عالمی محافظ فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اگر سلامتی کونسل ایسا نہیں چاہتی تو اس تجویز پر اتفاق کرنے والوں کا اتحاد قاٸم کیا جاسکتا ہے جو سویلین مبصرین کے ذریعے نگرانی کرے۔ انہوں نے جنرل اسمبلی میں زور دیتے ہوۓ کہا کہ الجراح سے یہودی آباد کاری کے لیے مسلمانوں کا انخلا روکا جاۓ۔ انہوں نے 1967 کی قرارداد نمبر 242 کا حوالہ دیتے ہوۓ کہا کہ اس پر غیر مشروط عمل درآمد یقینی بنایا جاۓ جس میں جنگ کے ذریعے علاقے کو اپنے قبضے میں لینا ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوۓ اسراٸیل سے مطالبہ کیا گیا کہ 1967 کی جنگ میں قبضہ کردہ علاقوں سے اپنی افواج کا انخلا کرے اور یہ کہ پاکستان فلسطینی صدر محمود عباس کے اس مطالبے کی حمایت کرتا ہے کہ اس مسٸلہ کے پُرامن حل کے لیے عالمی کانفرنس بلاٸی جاۓ”.
اس خطاب کے نکات کا تفصیلی جاٸزہ لیا جاۓ تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے اس خصوصی اور ہنگامی اجلاس میں فلسطین کا مقدمہ حقاٸق پر مبنی دلاٸل کے ساتھ لڑا ہے۔ خود فلسطین کے مسلمان اس کو سراہ رہے ہیں۔
ایک اور اہم واقعہ جو پیش آیا وہ شاہ محمود قریشی کا سی این این کو دیا گیا انٹرویو تھا جو ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا اور جسے دنیا بھر کے سوشل میڈیا صارفین نے داد دی۔ جس فراست، دلیل اور بیباکی سے سی این این کی خاتون صحافی کو جوابات دیے گۓ وہ مغربی میڈیا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ انہوں نے اسے بھی شاید ماضی کے پاکستانی سیاستدانوں کے انٹرویوز کی طرح سمجھا تھا مگر اس بار مغربی میڈیا کو منہ کی کھانا پڑی کہ خاتون صحافی خود اتنی پریشان ہوٸی کہ وزیرِ خارجہ کو سفیر سفیر کہہ کر پکارتی رہی اور یاد دلانے پر سوری کرتی رہی۔ شاہ محمود قریشی نے مغربی میڈیا کو مغرب کے ہوم گراٶنڈ پر پچھاڑ کے رکھ دیا اور حاضر جوابی سے مغربی میڈیا کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیا۔ مغربی میڈیا کو آٸینہ دکھایا گیا اور وزیرِ خارجہ نے ڈیپ پاکٹس کی اصطلاح استعمال کی کہ کس طرح اسراٸیل میڈیا پر اثر انداز ہوتا ہے جس پر سی این این کی صحافی ششدر رہ گٸی جب کچھ اور نہ سوجھا تو اسراٸیل مخالف کا ٹیگ لگا دیا۔
ایک فلسطینی صحافی اور تجزیہ کار جلال الفراء نے پاکستانی نجی ٹی وی پر کھل کر عمران خان کی تعریف کی اور کہا کہ عمران خان موجودہ دور کا عالمِ اسلام کا ارتغرل غازی ہے اور شاہ محمود قریشی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوۓ کہا کہ وہ صدام حسین جیسی جرات کے مالک ہیں۔ مزید براں جلال الفراء نے یہ بھی کہا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں بہت کم اسلامی ممالک سامنے آۓ اور پاکستان ان میں سرِ فہرست رہا۔ اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ شاہ محمود قریشی نے جب خطاب میں یہ کہا کہ ” اے ارضِ فلسطین! ہم آپ کے ساتھ ہیں” تو یہ فقرہ ایسے ہی تھا جیسے کسی بھوکے پیاسے کو پانی کا گھونٹ دے دیا گیا ہو۔ اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ ایسا ماضی میں کسی نے بھی نہیں کہا اور فلسطینی مسلمان پاکستان کی فلسطین کے لیے کوششوں کو دل سے سراہتے ہیں۔
اقبال کا ایک شعر ہے کہ:
آٸینِ جواں مرداں حق گوٸی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی۔