اسلام آباد(یواین پی) وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کیلئے تقریباً8 ٹریلین روپے (8ہزار ارب روپے) کا نیا سالانہ بجٹ آج (جمعہ کو) پیش کر رہی ہے۔ وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات شوکت ترین بجٹ پیش کریں گے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں پندرہ فیصد اضافہ متوقع ہےتفصیلات کے مطابق مالی سال 2021-22 کا وفاقی بجٹ جمعہ کو پیش ہو گا۔ بجٹ کا مجموعی 8000 ارب روپے، خسارہ 3050 ارب ر وپے ہوگا۔ ٹیکس آمدن کا ہدف 5820 ارب اور نان ٹیکس آمدن کا ہدف 1420 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 15 فیصد اضافہ متوقع ہے۔دستاویز کے مطابق کابینہ ڈویژن کے لیے 33 ارب ،ایوی ایشن ڈویژن کیلئے 14 ارب ،وزارت تجارت کیلئے 17 ارب روپے ا ور وزرات مواصلات کے لیے 239 ارب مختص کیے جائیں گے۔وزارت تعلیم و تربیت کے لیے 22 ارب روپے جبکہ وزارت خارجہ کے لئے 22 ارب 78 کروڑ روپے مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ آئندہ مالی سال وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کیلئے 14 ارب، صنعت و پیداوار کے لیے 7 ارب، وزارت اطلاعات کے لئے 11 ارب اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لئے 14 ارب روپے رکھے جائیں گے۔وزارت داخلہ کو 160 ارب روپے، وزارت امور کشمیر ،شمالی علاقہ جات و گلگت بلتستان کو 199 ارب، وزارت قانون کو 18 ارب جبکہ وزارت غذائی تحفظ کو29 ارب روپے ملیں گے۔اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوگا جس میں بجلی مہنگی نہ کرنے، آٹا، گھی اور چینی پر 500 ارب روپے سے زائد کی سبسڈی دینے اور تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔اس سے قبل وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 21-2020 کا قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب معیشت کے استحکام کے بجائے نمو پر توجہ دینی ہے۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مالی سال 2021 کا آغاز عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ اس حکومت نے مؤثر پالیسی کی بدولت کووِڈ کے اثرات کو زائل کیا اور گزشتہ برس جولائی میں معاشی سرگرمیاں بحال ہونا شروع ہوگئیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے دور اندیش فیصلے کیے جس میں وزیراعظم کا اسمارٹ لاک ڈاؤن کا بڑا فیصلہ بھی شامل ہے اس کے علاوہ مانیٹری اور معاشی فیصلے ہوئے، اہم وزارتوں میں مراعات کے فیصلے کیے گئے جن میں تعمیرات کا شعبہ بھی شامل ہے اور وزیراعظم نے اس میں آئی ایم ایف سے خصوصی مراعات لیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس کے بعد تیزی سے ویکسینیشن کا سلسلہ شروع ہوا اور این سی او سی کا قیام اور ایک چھت تلے فیصلہ لینا بہت بڑا عمل تھا جس کی وجہ سے گزشتہ برس بھی کووِڈ پر قابو پایا گیا اور فروری مارچ میں تیسری لہر کے دوران بھی اسے کنٹرول کرلیا گیا۔شوکت ترین نے بتایا کہ جب کووِڈ 19 شروع ہوا اس وقت تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ افراد برسرِ روزگار تھے جن کی تعداد گر کر 3 کروڑ 50 لاکھ پر آگئی یعنی 2 کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے۔ان کا کہنا تھا کہ کووڈ سے متعلق وزیراعظم کی بڑی محتاط قسم کی پالیسیاں تھیں جس پر بہت سے ممالک نے عمل نہیں کیا بلکہ خود ہمارے ملک میں ابتدا میں اس پر شک و شبہ ظاہر کیا جاتا رہا۔انہوں نے کہا کہ ان پالیسیوں کی بدولت اکتوبر 2020 میں برسر روزگار افراد کی تعداد دوبارہ تقریباً کروڑ 30 لاکھ ہوگئی اس کا مطلب ساڑھے 5 کروڑ میں سے 25 لاکھ کے قریب لوگ باقی رہ گئے اور معیشت بھی بحالی کی جانب گامزن ہونا شروع ہوگئی۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت کا اپنا اندازہ 2.1 فیصد شرح نمو کا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا تخمینہ تو اس سے بھی کم تھا لیکن حکومت نے جو فیصلے لیے، جن میں مینوفیکچرنگ، ٹیکسٹائل، زراعت اور تعمیراتی شعبے کو گیس، بجلی اور دیگر مد میں مراعات دی گئیں اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ نے مثبت نمو کا مظاہرہ کیا جو تقریباً 9 فیصد تھی۔