اسمارٹ فون استعمال کرتے وقت بچے کھانا شروع کرتے ہیں تو بے دھیانی میں کھاتے چلے جاتے ہیں
سیئول (یواین پی)جنوبی کوریا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بچے روزانہ تین گھنٹے یا اس سے زیادہ دیر تک اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ان میں وزن بڑھنے اور موٹاپے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔اس تحقیق کے لیے جنوبی کوریا میں نوبالغ (10 سے 18 سال عمر والے) بچوں سے متعلق ایک جامع سروے سے استفادہ کیا گیا جس میں پورے جنوبی کوریا کے 53 ہزار سے زیادہ بچے شریک تھے۔مذکورہ سروے میں نوبالغ بچوں کی مختلف عادات اور صحت کے بارے میں معلومات جمع کی گئی تھیں۔ان معلومات کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون استعمال کرنے والے بچوں میں پھلوں اور سبزیوں کی جگہ فاسٹ فوڈ کھانے کا رجحان زیادہ تھا۔یہی نہیں بلکہ جو بچے روزانہ تین گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ اسمارٹ فون میں مگن رہتے تھے، ان کا وزن بھی ایسے بچوں کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ تھا جو روزانہ کم وقت کےلیے فون استعمال کرتے ہیں۔’’مجھے ان نتائج سے بالکل بھی حیرت نہیں ہوئی،‘‘ ڈاکٹر ریکھا کمار نے کہا، جو امریکن بورڈ آف اوبیسیٹی میڈیسن کی میڈیکل ڈائریکٹر ہیں۔ ’’اسمارٹ فون اسکرین کے سامنے، ایک ہی جگہ بیٹھے رہنے کی وجہ سے بچے کھیل کود اور دوسری جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے (جو انہیں موٹاپے سے بچانے میں مددگار ہوتی ہیں)،‘‘ ڈاکٹر ریکھا نے وضاحت کی۔جنوبی کوریائی مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بچے روزانہ کم از کم پانچ گھنٹے اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں ان میں سافٹ ڈرنکس سمیت، شکر سے بھرپور مشروبات، تلے ہوئے چپس اور انسنٹ نوڈلز جیسی چیزیں کھانے اور پینے کا رجحان بہت زیادہ تھا۔البتہ جو بچے معلومات حاصل کرنے کےلیے اسمارٹ فون استعمال کررہے تھے، ان میں کھانے پینے کی عادات بھی صحت بخش تھیں۔ان کے برعکس اسمارٹ فون پر گھنٹوں چیٹنگ اور میسیجنگ کرنے، گیمز کھیلنے، ویڈیوز دیکھنے، گانے سننے یا پھر سوشل میڈیا پر مٹرگشتی کرنے والے بچوں میں اس دوران اُلٹی سیدھی چیزیں کھانے کا رجحان بھی زیادہ دیکھا گیا۔اسمارٹ فون استعمال کرتے دوران اکثر بچوں کی پوری توجہ فون کی اسکرین پر ہوتی ہے لہذا وہ جب کھانا شروع کرتے ہیں تو بے دھیانی میں کھاتے ہی چلے جاتے ہیں؛ اور معمول سے بہت زیادہ کھا جاتے ہیں جس کا اثر ان کی مجموعی صحت پر پڑتا ہے اور ان میں موٹاپے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔جنوبی کوریائی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں وہ ادارے بھی قصور وار ہیں جو بچوں کےلیے کھانے پینے کی غیر صحت بخش مصنوعات فروخت کرنے کےلیے بھرپور مارکیٹنگ کرتے ہیں۔یہ اشتہارات سوشل میڈیا پر بھی خوب چلائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بچوں میں ان چیزوں کو کھانے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور اکثر وہ اپنے والدین سے ضد کرکے یہ چیزیں منگوا بھی لیتے ہیں۔یہ تحقیق ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کوئی بھی ایجاد تب تک مفید رہتی ہے کہ جب تک اسے اعتدال میں رہتے ہوئے، توازن کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ بصورتِ دیگر وہ ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو شدید متاثر بھی کرسکتی ہے۔