تحریر۔۔۔ مہرسلطان محمود
اسے ایک المیہ کہیے یا بدقسمتی کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی،ناانصافی،جبر،گھریلو تشدد، جنسی تشدد اورراہ چلتے سڑکوں پر گن پوائنٹ پر عالم بے بسی میں اجتماعی ریپ بڑھتے ہی جاررہے ہیں۔روک تھام بالکل نہیں ہے۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ حکومتی تمام تر کوششوں کے باوجود،زینب الرٹ بل اور اس سے ملتے جلتے بہت سے بل لانے کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے۔کنٹرول بالکل نہیں پایا جاسکا۔حکومتی گڈگورننس کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اس حوالے سے ٹھیک ہواکچھ بھی نہیں۔جدھر دیکھو،خواتین پر تشدد،جبر اور جنسی استحصال ہی نظرآتاہے۔ملک کے طول وعرض میں آئے روز کوئی نہ کوئی وڈیرہ،جاگیر دار،نواب،سردار،بااثر شخصیات اور کچھ کمینہ خصلت عادی مجرم ایسے قبیح اور گھناؤنے فعل میں کسی نہ کسی طرح ملوث پائے جاتے ہیں۔انٹرنیٹ کی سہولت ہر جگہ پہنچ جانے کے سبب موبائل پر فحش،لچر، بیہودہ تصاویر اور بلیو پرنٹ کی دستیابی نے اسے اب عام گھروں / افراد تک بھی پہنچادیا ہے۔اب تو ہمارے معاشرے کا عالم یہ ہے کہ یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔نہ کوئی بچہ،نہ کوئی عورت۔افسوس یہ صورتحال ہمارے لیے باعث شرم اور سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کہاں بھٹکے ہوئے چلے جاررہے ہیں۔ہمیں بحثیت معاشرہ کیا ہوگیا ہے کہ ہمیں کسی کی عزت عزت ہی نہیں لگتی ہے۔اس پر کیا کہوں،کیا بولوں۔بولنے کے لیے رکھا ہی کیا ہے۔ایک واقعہ پر لکھے کالم کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوتی کہ دوسرا واقعہ ہوجاتاہے۔واقعات ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔اب تو خود پر بھی شرم آتی ہے کہ ہم کیسے معاشرے میں رہ رہے ہیں کہ جہاں افراد کی نہ جان محفوظ،نہ مال محفوظ اور نہ ہی عزت کا کوئی تحفظ ہے۔لکھتے لکھتے قلم گھس جاتاہے مگر خواتین پر ظلم وستم،جبر،ناانصافی اور ان کے جنسی استحصال میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آتی ہے۔ویسے تو بہت سے ایشو ہیں جن پر میں قلم اٹھانا چاہتاہوں مگر آج میں اس ضلع قصور پر جس میں قصور کی ننھی زینب،حسین خانوالا ک بچوں سے زیادتی کے اور چونیاں میں چار سے پانچ کم سن بچوں سے زیادتی جیسے شرم ناک واقعات ہوئے،کی ایک تحصیل پتوکی بارے بات کرتاہوں،جہاں سانحہ موٹروے رنگ روڈ کی طرح کا ایک انتہائی افسوسناک رونماء ہوا جس کی رُوداد ابھی پوری طرح عوام کے سامنے نہیں آئی،جس پر ابھی قصور پولیس کی طرف سے تحقیقات جاری ہیں۔اس واقع کے متعلق متاثرہ فیملی کی طرف سے درج کروائی گئی ایف آئی آر 289/21 بتاریخ 19/20-07-2021 رات بوقت 11:30 کی روشنی میں کچھ کہنا چاہوں گا جس کا متن یہ ہے بخدمت جناب ایس ایچ او صاحب تھانہ صدر پتوکی جناب عالی گزارش ہے کہ میں جمشیر چک 24 کا رہائشی ہوں اور میں گزر بسر کے لیے جمشیر چک 24 اڈا پر بلڈنگ میٹریل کی دوکان بنارکھی ہے۔گزشتہ شام میں اپنی بیوی کے ہمراہ ذاتی موٹرسائیکل پر عید کی شاپنگ کے لیے سٹی پتوکی گئے اور شاپنگ کے بعد واپس اپنے گھر جاررہے تھے۔رات تقریباََ ساڑھے دس بجے جب ہم میگہ روڈ نزد زرعی رقبہ ارشد میو بحد رقبہ چک 24 جمشیر پہنچے تو اچانک سے ایک موٹرسائیکل 70 جس پر دونامعلوم افرادمسلح پسٹل آئے اور ہمیں اسلحہ کے زور پر روکا، ایک ملزم جس کا قد 06 فٹ اور قدرے بھاری جسم سفید شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا،نے میری کنپٹی پر پسٹل رکھا،شور کی صورت میں جان سے ماردینے کی دھمکی دی اور میری جیب سے زبردستی 10 ہزار روپے نقدی اور میرا موبائل فون نکال لیا، دوسرا ملزم جس کا قد تقریباََسواپانچ فٹ پھرتیلا جسم گہرے نیلے رنگ کا ٹراؤزر اور لال رنگ کی شرٹ پہنے ہوئے تھا، عمر تقریبا بیس تا بائیس سال نے میری بیوی کے کانوں سے طلائی زیورات اُتار لیے اور دونوں ملزمان نے ہمیں اسلحہ کے زور پر یرغمال بنالیا اور میگہ روڈ سے جانب جنوب ارشد میو کے زرعی رقبہ میں بنے کچے راستہ پر چل پڑے اور میگہ روڈ سے قریب ایک ایکڑ کے فاصلے پر ایک چارپائی پڑی دیکھی،لمبے قد والے نے میری بیوی دھکا دیکر چارپائی پر گرادیا،چھوٹے قد والا ملزم مجھے گن پوائنٹ پر مزید دورایک ایکڑ آگے لے گیا اور مجھے دھمکی دی کہ اگر اس جگہ سے ہلے تو جان سے مارے جاؤگے اور اپنے ساتھی ملزم اور میری بیوی کے پاس چلا گیا،قریب 20/25 منٹ تک میں اپنی بیوی کی چیخ و پکار سنتا رہا اور جب ملزمان اپنی موٹرسائیکل پر موقع سے فرار ہوئے،میں اپنی بیوی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ میری بیوی جو کہ برہنہ تھی اور میری بیوی نے بتایا کہ کہ ملزمان نے اسلحہ کے زور پر میرے کپڑے اُترواکر پانی والے کھال میں پھینک دیے اور لمبے قد والے نے میرے ساتھ زنا بالجبر کیا۔اس دوران چھوٹے قد والے ملزم نے میرے بازوپکڑے رکھے، میں نے کھال والے پانی سے اپنی بیوی کے بھیگے ہوئے کپڑے نکالے اور بیوی کو پہنائے،دونوں ملزمان کو میں اور میری بیوی نے موٹرسائیکلوں کی روشنی میں اچھی طرح دیکھ لیا تھا جن کو سامنے دوبارہ آنے پر پہچان سکتے ہیں۔ملزمان نے مجھ سے دس ہزار روپے موبائل فون اور میری بیوی سے طلائی بالیاں چھین کر زنا بالجبر کرکے سخت زیادتی کی ہے مقدمہ درج کرکے ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔اس کیس کے حوالے سے میں متاثرہ فیملی کا ریکارڈ جان بوجھ کر یہاں نہیں دے رہا،اس لیے کہ میرے کسی عمل سے اس کیس بارے تحقیقا ت میں اور متاثرہ فیملی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اس حوالے سے پولیس اور دیگر اداروں کی تحقیقات کیا کہتی ہیں ابھی تک متعلقہ اداروں نے خالی جمع خرچ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور یہ کہ اس حوالے سے ابھی تک عوامی سطح پر اس کیس میں کیا پیشرفت،کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی۔ اس حوالے سے ڈی پی قصور صاحب کا موقف لیا تو ان کا کہنا تھا کہ کیس درج کرلیا گیا ہے۔تمام تر ثبوت اکٹھے کر لیے گئے ہیں اور جائے وقوعہ کے قریب واقع بھٹہ خشت کے ملازمین کے ڈی این اے سیمپل لے لیے ہیں اور کچھ مقامات سے ملزمان کی نشاندہی کے لیے سی سی ٹی وی کلپ بھی حاصل کیے ہیں۔جائے وقوعہ کی جیو فینسنگ بھی کی جائے گی،ٹیم تشکیل دی جاچکی ہے جیسے ہی کوئی بات سامنے آئے گی،بتادیا جائے گا۔جب کہ ایس ایچ او اور تفتیشی افسران ابھی حتمی بتانے سے قاصر ہیں۔راقم الحروف کے مطابق یہ واقعہ متعلقہ ایس ایچ او پتوکی صدر کی بدترین نااہلی اور نکمے پن کاایک ثبوت ہے۔ شہر پتوکی جہاں ڈکیتی،راہزنی کی وارداتیں عام ہیں۔کنٹرول بالکل نہیں ہے۔اصل مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور بے گناہ،بے قصور افراد کی پکڑ دھکڑ کرکے جناب سرکار سے میڈل اور تعریفی سرٹیفیکیٹ ضرور بٹور لیے جاتے ہیں۔ اب صورتحال اتنی گھمبیر ہوچکی ہے کہ پتوکی میں سرراہ چلتے ہوئے دن اور رات کے اوقات میں کوئی محفوظ نہیں ہے۔یہی صورتحال پورے ضلع قصور کی ہے جہاں پر افسران پر افسران تو بڑی اُجلت اور بے دردی سے تبدیل کیے جاتے ہیں مگر کرائم کی شرح ویسی کی ویسی ہی رہتی ہے۔تھانوں کا عالم یہ ہے کہ کہ کسی سائل کا جائز کام بھی بغیر رشوت لیے نہیں ہوتاہے۔ایس ایچ اوز وارداتوں کے متاثرین کی رقم ہڑپ کرجاتے ہیں مگر پھر بھی ان کو من پسند تھانوں میں تعیناتی مل جاتی ہے۔ڈی پی او قصور کے گڈ گورننس کے دعوے محض ایک دھوکہ اور سراب اور محکمہ پولیس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے۔ان کی مجموعی کارکردگی سابقہ 02 ڈی پی او ز عبدالغفار قیصرانی اور زاہد نواز مروت کے مقابلے میں انتہائی مایوس کن ہے۔ راقم الحروف کے مطابق سانحہ پتوکی ہمارے بے حس معاشرے اور اداروں کے لیے لمحہ فکریہ اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اتنے دن ہوگئے ہیں مگر مجرمان پکڑے نہیں جاسکے ہیں۔متاثرہ فیملی انصاف کے حصول کے لیے دربدر پھر رہی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ متاثرہ فیملی کو فی الفور انصاف مہیاء کیاجائے اور ان کی عزت نفس کو مزید مجروح ہونے سے بچایاجائے۔