تحریر۔۔۔ زاہد عباس
کسی بھی چیز کے کھو جانے لیکن خاص طور پر کسی قریبی انسان کی موت کے بعد انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے یہ تمام مراحل اپنا وقت لیتے ہیں ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جا سکتاہم عموماً زیادہ دکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جسے ہم کچھ عرصے سے جانتے ہوں ایسی ہی ہستیاں میرے شہر کی تھی جن کو میں بہت قریب سے جانتا تھاان لوگوں نے شہر کے اندر محبت بھائی چارے کی اعلیٰ مثال قائم کر رکھی تھی نیک سیرت، عاجزی و انکساری، متقی پرہیزگار، عمدہ اخلاق، محفلوں کی رونق، میٹھی گفتگو، نرم مزاج،حق اور سچ کا پیکر تھی،جو آج ہم میں سے نہیں، قاضی ماسٹر عبد الکریم(مرحوم) جو ایک نیک انسان تھے، تہجد گذار متقی اور پرہیزگار صوم و صلوۃ کے پابندتھے، جب دنیاراتوں کو سوئی ہوئی ہوتی تھی تو قاضی ماسٹر عبدالکریم (مرحوم) خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتےتھے، قاضی ماسٹر عبدالکریم (مرحوم) نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گھر کی بجائے مسجد میں گزارا ان کی ایک بات ہر بندے کی زباں زد عام تھی جس نے ان سے ملاقات کرنی ہوتی وہ گھر کی بجائے مسجد کی طرف جاتا کیونکہ انہیں یقین ہوتا تھا کہ وہ مسجد میں ہی ملے گئے،ایسے ہی ایک اور ہستی ان کے بھائی قاضی فضل کریم جو خوش اخلاق نیک،انسان تھے صوم و صلوۃ کے پابند،اپنی زندگی کا ایک بڑا عرصہ روزی روٹی کے لئے دیارے غیر میں گزارنے کے بعد وطن واپس آگئے اور مسجد کو اپنا گھر بنا لیا،پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتے،سخت سردی اور ٹنھڈا پانی کبھی ان کی راہ میں روکاوٹ نہ بنتا وہ تہجد کے وقت اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہوتے،جسیے قاضی فضل کریم (مرحوم) عمدہ خوشبو لگانے میں اپنی پہچان رکھتے تھے ایسے ہی وہ دین کی محفل کروانہ اور محفلوں کی رونق ہوا کرتے تھے،ان کے تیسرے بھائی قاضی فاروق احمد (مرحوم)جو کھوئی رٹہ سٹی بازار میں ایک دوکاندار تھے اور انجمن تاجران کے دلوں کی دھڑکن تھے ہر تاجر کے ساتھ ان کا ایک ذاتی تعلق تھا اور تاجروں کے دکھ درد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور تاجر برادری بھی ان کی دل سے قدر کرتی تھی، شہر کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے کبھی بھی کوئی فیصلہ اپنی ذات کی پسند اور ناپسند کے لئے نہیں کیا بلکہ ہمیشہ تاجروں کے حقوق کے لیے برسرپیکار رہے تاجروں نے بھی ہمیشہ ان کی کال پر لبیک کہا قاضی قاروق احمد( مرحوم) ایک درد دل رکھنے والے انسان تھے پانچ وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے مذہبی تہوار ہوں یا دکھی انسانیت کے لیے فلائی خدمت ہمیشہ ایک قدم آگے بڑھ کر فرائض سرانجام دیئےاور آج ان کے جانشین اپنے والد کی طرح عوامی فلاحی کاموں میں پیش پیش نظر آتے ہیں قاضی فاروق احمد ( مرحوم) چھوٹے بچوں سے ہمیشہ محبت پیار اور شفقت سے پیش آتے تھے وہ اپنی فیملی میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے،کھوئی رٹہ سٹی میں ایک اور ایسی شخصیت تھی یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہےاس سے محروم رکھتا ہے اسلم مشتاق بھٹی(مرحوم) نہ صرف کھوئی رٹہ اپنی فیملی بلکہ کھوئی رٹہ سٹی بازار کے علاوہ پورے علاقے میں اپنی ایک پہچان رکھتے تھے انہوں نے اپنی پوری زندگی کھوئی رٹہ شہر میں تاجر کی حیثیت سے گزاری،اسلم مشتاق بھٹی( مرحوم) کوئی ماسٹر ڈگری ہولڈر نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہوئی تھی، لیکن رب کائنات نے انہیں خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہوا تھا سیاسی سوچ فکر میں ایک گہری نظر رکھنے والے ایک منجھے ہوئے سیاسی شخصیت کے مالک تھے، تھانہ کورٹ کچہری کے معاملات بخوبی جانتے تھے اکثر لوگ جن میں ہر خاص و عام مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد ان سے مشورہ کرنے ان کے غریب خانے میں تشریف لایا کرتے تھے ہما وقت ان کے گھر میں لوگوں کی چہل پہل رہتی اور لوگ قیمتی مشورے سے استفادہ ہوتے،ان کے ساتھ قاضی خورشید عالم (مرحوم )جو انتہائی نیک سیرت انسان تھے خوبصورت انداز اور دھیمے لہجے میں گفتگو کرنا، عاجزی اور انکساری سے ہر ایک کے ساتھ پیش آنا اپنی زندگی کا معمول بنایا ہوا تھا قاضی خورشید عالم (مرحوم) ایک بہت پرانے تاجر تھے اور پوری وادی بناہ کی ایک جانی اور پہچانی شخصیت تھے مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرنے کے بعد کھوئی رٹہ شہر میں جوانی سے لے کر بڑھاپے تک ٹیلر کی دوکان سے منسلک رہے اور اپنی اولاد کے لئے رزق حلال کمایا وہ چلتے تو عاجزی کے ساتھ کسی کی بات سنتے تو عاجزی کے ساتھ شہر کے اندر کام کرتے ہوئے کبھی بھی کسی تاجر کے ساتھ آپ ناراض نہیں ہوئے یہی وجہ ہے کہ تاجر آپ کی دل و جان سے قدر کرتے تھے کیونکہ قاضی خورشید عالم (مرحوم) ایک سچے ایماندار دار تاجر تھے،میرے سٹی کی ایک جانی پہچانی شخصیت سیکرٹری بشیر الحق(مرحوم) جو انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے جہاں وہ بیٹھ جاتے شام ادھر ہی ہو جاتی ہر ایک بندے کی یہ خواہش ہوتی کہ میں( پاپا، پیار اور محبت سے کہا کرتے تھے) سیکرٹری بشیر الحق (مرحوم) کے پاس بیٹھ کر قیمتی باتیں سنو بڑے بڑے ماہر قانون ان سے قانونی رائے لینے کے لئے آیا کرتے تھے پوری زندگی حتکہ دوران سروس وہ کبھی کسی کے ساتھ غصے میں نہیں ہوئے تمام سٹاف آپ کی قدر کرتا تھا، بڑے پیار سے دوسرے کی بات سنتے اور انتہائی ادب و احترام اور دھیمے لہجے میں اس کا جواب دیتے تھے ساری زندگی شہر میں گزاری مگر کبھی کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کیا،کھوئی رٹہ انارکلی کی پہچان نوجوان محمد عجائب (مرحوم) نے ساری زندگی غربت میں گزاری, دل کے بادشاہ تھے ہر آنے جانے والے کے ساتھ ہمیشہ مسکرا کر ملتے ،تھے آج نہیں تو کل حالات بہتر ہونے کا جذبہ دل میں سمائے رکھتے تھےاور صبح و شام مزدوری کرکے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھےمحمد عجائب (مرحوم) شریف انسان تھے کبھی کسی کے آگے غربت کا رونا نہیں رویا جو مل جاتا کم یا زیادہ اسی پر اتفاق کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا،محمد عجائب (مرحوم) کے بڑے بھائی محمد شبیر (مرحوم) کا تعلق بھی اسی گھرانے سے تھاانہوں نے اپنی زندگی سادگی میں گزاری گھر چھوٹا اور فیملی ممبر زیادہ ہونے کی وجہ سے کرائے کے مکان میں رہتے تھے چال چلن اور گفتگو کا لہجہ انتہائی خوبصورت تھا، جب بھی کوئی بات کرتے تو اللہ کی مرضی شامل حال رکھتے اور ہر وقت اپنے بیوی بچوں کی سوچ و فکر میں رہتے،میرے انتہائی قابل احترام بزرگ حاجی منظور حسین کھوکھر (مرحوم )جو عرصہ دیارے غیر میں رہے حاجی منظورحسین کھوکھر (مرحوم) انتہائی خوش اخلاق، اعلی کردار، اور اصول پرست انسان تھے حق پر ڈٹ جانے والے تھے ناحق کبھی کسی کو کھانے نہیں دیا اور کسی کا حق کبھی اپنے پاس نہیں رکھا آپ کے اصول اور حق پرستی سے اکثر لوگ آپ سے کبھی کبھی نالاں ہوتے تھے مگر آپ ہمیشہ جیت جایا کرتے تھے کیونکہ آپ حق کے راستے کا چناؤ کرتے تھے حاجی منظور حسین کھوکھر( مرحوم) درد دل رکھنے والے انسان تھے غریبوں یتیموں، مسکینوں،کی ایسے مدد کرتے جس طرح اسلام نے ہمیں درس دیا کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے حاجی منظور حسین کھوکھر (مرحوم) بے شمار خوبیوں کے مالک تھے،میرے شہر، (محلے) کی یہ خوبصورت شخصیات قاضی ماسٹر عبدالکریم (مرحوم) قاضی فضل کریم( مرحوم)قاضی فاروق احمد( مرحوم)،اسلم مشتاق بھٹی( مرحوم)،قاضی خورشید عالم( مرحوم)، سیکرٹری بشیر الحق( مرحوم )محمد عجائب (مرحوم) محمد شبیر بھٹی (مرحوم) حاجی منظور حسین کھوکھر (مرحوم) جو آج ہم میں سے نہیں یہ میرے شہر کی قدآور شخصیات تھی، محبتیں بکھیرنا، ادب و احترام حسن اخلاق محبت بھائی چارہ، عاجزی و انکساری، میٹھی گفتگو نرم لہجہ ، دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش، یہی وجہ ہے کہ ان خوبصورت شخصیت کا دنیا سے چلے جانے کے بعد آج بھی سیکڑوں لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں اللہ تعالی سے دعا گو ہیںاللہ پاک اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سب کے درجات بلند کریں اور جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے،