اسلام آباد (یواین پی) وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ نائن الیون کے حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینا ایک غلط فیصلہ تھا،اور عمران خان کی طرح پرویز مشرف کو امریکی فیصلے کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تھا۔ایک انٹرویومیں شیخ رشید نے کہا کہ وزیر اعظم کو امریکی صدر جو بائیڈن کی کال کا انتظار نہیں اور اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افغانستان کا ہے، 20سال کے عرصے میں امریکا نے 2 کھرب ڈالر خرچ کیے اور وہاں تین لاکھ فوج کو تربیت فراہم کی۔انہوں نے کہاکہ جس تیزی سے افغانستان میں طالبان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا لیکن ہم نے مذاکرات کی کوشش کرنی ہے اور ان کو مذاکرات کی میز تک لانا ہے۔افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لیے دوحہ لے کر گئے تلاہم اب ہم طالبان کا انگوٹھا تو نہیں لگوا سکتے، ہمارا یہی موقف ہے کہ ہم افغانستان کی سرزمین میں مداخلت کرتے ہیں اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی سرزمین سے کوئی ہمارے کام میں مداخلت کرے۔انہوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ کوئی ہمیں طعنہ نہ دے، عمران خان نے کہا ہے کہ ہم اپنے اڈے کسی کو نہیں دیں گے اور کسی بھی قیمت پر افغانستان کی سرزمین پر کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ہمارے معاشی حالات ایسے نہیں کہ ہم مہاجرین کی آمد کو برداشت کر سکیں، پہلے سے ہی ہمارے پاس 40 لاکھ مہاجرین موجود ہیں لہٰذا ہمیں کسی ایسی چیز میں نہیں پھنسنا جس کا ملبہ ہمارے سر پر گر جائے۔انہوں نے کہاکہ داسو ڈیم کے حملے میں ہم سے غلطی ہو گئی، ہم نے ملزمان کو پکڑ لیا ہے لیکن اس میں ہمیں بہت مشکل ہوئی کیونکہ گاڑی انہوں نے چھ ماہ تک کھڑی رکھی اور پھر کسی طرح سے لوگوں کو لا کر یہ حملے انجام دیا، پہلے انہوں نے کسی اور جگہ پر حملہ کرنے کی کوشش لیکن ناکامی پر ایک سال کی تیاری کے بعد داسو ڈیم کو نشانہ بنایا۔پرویز مشرف کے دور میں افغانستان پر امریکی حملے کی حمایت کے بارے میں بات کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ اس وقت جتنے بھی ماسٹر مائنڈ تھے انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پاس کوئی گنجائش نہیں لیکن وہ ایک غلط فیصلہ تھا اور ہمیں ایک فیصلہ لینا چاہیے تھا جیسے آج ہم نے اسٹینڈ لیا ہے۔انہوں نے کہاکہ جس طرح سے آج عمران خان نے موقف اختیار کیا، اس وقت مشرف صاحب کو بھی امریکا کے خلاف اسٹینڈ لینا چاہیے تھا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز تک لے کر گئے تو ایسا نہیں کہ ہمارے طالبان سے تعلقات ہیں لیکن ان سے کسی قسم کا لڑائی جھگڑا بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کے تمام ادارے ایک پیج پر ہیں اور پاکستان کی ضرورت بھی یہی ہے کہ ادارے ایک پیج پر ہوں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے میرے سامنے اپوزیشن سے بھی یہی کہا کہ جو بھی حکومت منتخب ہو گی، فوج اس کے پیچھے کھڑی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ دھرنا اس دنیا کا سب سے مشکل کام ہے، 126 دن میں عمران خان کے ساتھ دھرنے میں تھا لیکن میری حالت غیر ہوچکی تھی کہ کب اس سے جان چھوٹے گی، فضل الرحمن نے بہت بڑا دھرنا دیا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کراچی میں جلسے کے اعلان کے حوالے سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ میرے خیال میں اتنے طاقتور میڈیا کی موجودگی میں جلسہ کرنا اپنا اور میڈیا کا وقت ضائع کرنا ہیانہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان کے خلاف میڈیا وار کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی کارروائیوں میں ملوث ہے، داسو کے حملے میں بھی بھارت کا ہاتھ تھا اور پاکستان میں اگلے 120 دن بہت اہم ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ عمران خان ایک منفرد سوچ کا حامل سیاستدان ہے جو کرپٹ، بددیانت اور ملک کو نقصان پہنچانے والے لوگوں سے ہاتھ ملانا بھی گناہ سمجھتا ہے اور وہ ان لوگوں سے کبھی ہاتھ ملائیں گے بھی نہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ پہلے میرا خیال تھا کہ اگلے الیکشن میں اپوزیشن سے سخت مقابلہ ہو گا لیکن اب ایسا نہیں لگتا، اس اپوزیشن سے مجھے امید نہیں ورنہ اب تک تو ہمارا کام ہو چکا ہوتا۔مسلم لیگ(ن) کے بیانیے کے بارے میں سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ انہیں حکمرانی چاہیے، چاہے انہیں اپنا بیانیہ ہی کیوں نہ بدلنا پڑے، شہباز شریف کا مقدمہ بہت سنگین نوعیت کا ہے اور آئندہ دو سال میں کئی بڑے سیاستدانوں کو نیب سے سزا ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ بلاول مجھے پسند ہے لیکن وہ روز تحریک عدم اعتماد لے کر نکل جاتے ہیں، انہیں خود پر ہی اعتماد نہیں تو وہ عمران خان کے خلاف کیا تحریک عدم اعتماد لائے گا۔