شجر کاری کی اہمیت اور جدید سائنسی طریقے

Published on August 17, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 748)      No Comments


ڈاکٹر شمشاد اختر
شجر کاری کی اہمیت زمانہ قدیم سے ہے۔درختوں سے محبت کرنا اور ان کا خیال رکھنا ،کئی اقوام کی تاریخی ،تمدنی اور معاشرتی اقدار کا حصہ رہا ہے۔فراعنہ مصر کے ہاں رواج تھا کہ مرنے والا قبر کی دیوار پر اپنی نیکیو ں کی اچھائی فہرست درج کراتا ایک بادشاہ نے تحریر کیا : ” میں نے درخت نہیں کاٹے ہیں ،دریائے نیل کاپانی گندہ نہیں کیا ہے ۔“ آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ڈیڑھ ارب لوگ زہریلی فضا میں سانس لے رہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی اقدار کو خیر باد کہہ دیا ہے ۔ درختوں سے دوستی چھوڑ دی ۔ان پر بے دردی سے آریاں چلاتے ہیں ۔ اہل شام ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں تو تحفے کے طور پر پود لے جاتے ہیں، اہل دمشق گھروں کی چھتوں پر بھی پودے لگاتے ہیں ۔لندن میں ایک عمارت سکائی گارڈن کے نام سے مشہور ہے جس کی آخری چھت پرپودوں کے دلکش مناظر کو دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیں ۔دریائے ما سکو کے قریب کئی ” ڈاچے“ ( یعنی مضافات میں گھر ہو جہاں سرسبز درخت لگے ہوں ) موجود ہیں ۔لندن کے قریب ” کیو گارڈن“میں انواع و اقسام کے درخت محفوظ کیے گئے ہیں ۔ یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا ہے ۔
ہالینڈ میں ہر پیدا ہونے والے بچے کے نام کا درخت لگانا اور اس کی حفاظت کرنا اس خاندان کی قانوناََ ذمہ داری ہوتی ہے ۔لبنا ن میں درختوں کی بہت زیادہ حفاظت کی جاتی ہے وہاں چیڑ کے درخت ہیں جن کی عمریں ہزاروں سال ہیں ۔اسلام امن آشتی کا مذہب ہے ۔یہ زندگی کو تحفظ دیتا ہے ۔اس مذہب میں شجر کاری صدقہ جاریہ قرار دی گئی ہے ۔ موجودہ سائنس شجر کاری کی جس اہمیت وافادیت کی تحقیق کر رہی ہے،قرآن و حدیث نے چودہ سو سال پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا ۔ قرآن میںمختلف حوالے سے شجر ( درخت) کا ذکر آیا ہے ۔ فرمایا : ” وہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اتارا ، اس میں سے ( کچھ) پینے کا ہے اور اسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے ( جس سے نباتات ،سبزے،چراگاہیں شاداب ہوتی ہیں )جن میں تم ( اپنے مویشی) چراتے ہو ۔ اسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل ( اور میوے ) اگاتا ہے ، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لیے نشانی ہے ۔“(النحل ،۰۱،۱۱)ایک اور جگہ فرمایا” وہی ہے جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کردی جس سے تم یکا یک آگ سلگاتے ہو ۔“( یسین :۰۸)دوسری جگہ فرمایا:”وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جو درخت نہ مشرقی ہے نہ مغربی “۔ ( النور: ۴۲)اس وجہ سے اللہ تعالی نے کھیتی اور نسل انسانی تباہ کرنے والوں کی مذمت کی ہے : ” جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اورنسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے ( البقرہ : ۵۰۲)اسی طرح احادیث نبویہ میں شجر کاری کی صریح ہدایات ملتی ہیں ۔ایک روایت میں شجر کاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں پرندے ،انسان اور جانور کھا لیں تو وہ اس کے لیے صدقہ ہے “۔ ( مسلم )اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے جسمیں حضور ﷺ نے فرمایا قیامت قائم ہو رہی ہو اور کسی کو شجر کاری کا موقع ملے تو وہ موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دے ۔ آپ ﷺ نے تو حالت جنگ میں بھی قطع شجر کو ممنوع قرار دیا۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار میں باغبانی اور شجرکاری میں گہری دلچسپی لی،اسے علوم و فنون کی شکل دیاور دنیا میں فروغ دیا ۔ زندہ قومیں اپنے مشاہیر سے وابستہ درختوں کو یوں بھی محفوظ کرتی ہیں ۔جس درخت کے نیچے بیٹھے مشہور سائنس دان نیوٹن کے اوپر سیب گرا تھاجس کے مشاہدے سے اس نے کشش ثقل کا اصول دریافت کیا تھا۔ مرور زمانہ سے وہ درخت سوکھ گیالیکن کیمرج یونیورسٹی نے وہاں بھی ایک نیا درخت لگا کر نشانی کے طور پر محفوظ کرلیا ۔
شجرکاری قدیم زمانہ سے ہی ایک اہم شعبہ رہا لیکن جدید سائنس نے اس شعبہ میں حیران کن ترقی اور انکشافات کر دیئے ہیں ۔ جدید تحقیق کے مطابق جس زمین میں الکلی کی مقدار زیادہ ہو اس میں سفیدہ لگانے سے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ شجر کاری کا ایک طریقہ جو پوری دنیا میں مقبول ہے،وہ فارم ہاﺅس کی تعمیر ہے ۔ملک کے مختلف مقامات پر فارم ہاﺅس تعمیر کیے جاتے ہیں اور ایک طریقہ آرائشی پودوں کے ساتھ پارکوں کی تعمیر ہے ۔اس کمپیوٹرائزڈ دور میں شجر کاری کے لئے بہت ساری دلچسپ نئی ٹیکنالوجیز آگئی ہیں ۔ جیسے سلیکو کاشت کاری ،ڈرون کا استعمال ۔سلیکو ایک ایسی کمپیوٹر ایب ہے جس میں سائنس دان بہتر فصل اگانے کے لئے مختلف آب و ہوا اور عوامل میں فصل کے اگنے کا جائزہ لیتے ہیں ۔ کامیاب شجرکاری کا ایک جدید طریقہ پرماکلچر ہے جس میں سوراخ دار گھڑے کو گردن تک پانی سے بھر کرمٹی برابر کر کے دبا دیتے ہیں اور پھر گھڑے کے دائرے کے چار طرف (یا قطار میں ) چار پودے لگا دیتے ہیں ۔چالیس دن میں گھڑا صرف ایک بار بھرنا ہوتا ہے ۔یہ دیسی ڈرپ اور یگیشن سسٹم پودے کو اپنی ضرورت کا پانی اس کی جڑ تک دیتا رہتا ہے اور چھ مہینے کے عرصے میں یہ پودادرخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔
اب تو سائنس دانوں نے ڈرون کے ذریعے شجرکاری کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے ۔ اس سے قبل سری لنکا میں ہیلی کاپٹر سے شجر کاری کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا جو نہایت کامیاب رہا۔ اس ہیلی کاپٹر سے جاپانی کسانوں کے ایجاد کردہ طریقہ کار کے مطابق چکنی مٹی ،کھاداور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اُگ آئے۔ اب اسی خیال کو مزید جدید طریقے سے قابل عمل بنایا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے ایک برطانوی کمپنی ایسا ڈرون بنانے کی کوشش میں ہے جو شجر کاری کر سکے ۔اس طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے یہ ڈرون کسی مقام کا تھری ڈی نقشہ بنائے گا ۔اس کے بعد ماہرین ماحولیات اس نقشے کا جائزہ لے کر تعین کریں گے کہ اس مقام پر کس قسم کے درخت اگائے جانے چاہییں۔ اس کے بعد اس ڈرون کو بیجوں سے بھر دیا جائے گا اور وہ ڈرون اس مقام پر بیجوں کی بارش کر دے گا۔یہ ڈرون ایک سیکنڈ میں ایک بیج بوئے گا۔ گویا یہ ایک دن میں ا یک لاکھ جبکہ ایک سال میں ا یک ارب درخت اگا سکے گا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں رقم بھی بہت کم خرچ ہوگی ۔ہیلی کاپٹر اور ڈرون کے ساتھ ساتھ خود مختار فارم ٹریکٹر بغیر ڈرائیور کے فصلوں اور کھیتی کا معائنہ کرتا ہے اور کھاد اور بیجوں کو منتشر کرتا ہے۔ مستقبل کے ٹریکٹر میں کیمروں ،رڈار ،جی پی کے ساتھ لیس ہوں گے اور حفاظت کے لیے رکاوٹ پتہ لگانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں گے۔ اب تو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت بھی موجود ہے ۔اسی کے تحت ۶۱۰۲ءمیںپیرس میں ۵۹۱ ممالک کو ماحول دوست اقدامات کرنے کا پابند بنایا گیا ۔ تب پاکستان نے بھی اس معاہدے پردستخط کیے کیوں کہ پاکستان موسمی تغیرات سے متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے ورلڈ بنک نے ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشان دہی کی ہے ،جہاں اگر شجر کاری نہ کی گئی تو وہ ۰۵۰۲ ءتک ریگستان بن جائیں گے۔ پنجاب میں لاہور ، ملتان اور فیصل آباداور سندھ کے تین اضلاع میر پور خاص ، سکھر اور حیدرآباد اس میں شامل ہیں ۔
جدید تحقیق کے بعد ماہرین نے خبر دارکیا ہے کہ اگر فضا میں کاربن کے اخراج کی مقدار بڑھتی رہی تو غذاﺅںکی تاثیر تبدیل ہو جائے گی ۔پھلوں اور سبزیوں کی غذائیت کھوجائے گی ۔ کیونکہ ایک درخت ۶۳ ننھے بچوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے اور دو پورے خاندانوں کو ۰۱ درخت ایک ٹن ائیر کنڈیشنر جتنی ٹھنڈک مہیا کرتے ہیں ،یہ درجہ حرارت کو بھی اعتدال اور توازن بخشتے ہیں ۔ہمیں موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ماحول دوست سرمایہ کاری کرنا ہوگی ۔قومی اثاثے کی حیثیت سے جنگلات کی حفاظت کرنا ہوگی۔ سوشل میڈیا ، سیمیناروں اور ورکشاپوں کے ذریعے عوام میں آگہی کی مہم چلانا ہوگی اور ۸۱ اگست کو ہونے والے عالمی شجر کاری کے دن عہد کرنا ہے کہ گھروں میں بھی ہوا صاف کرنے والے پودے مثلاََایلوویرا، منی پلانٹ،اسپائڈ پلانٹ،گل داﺅدیاور پگمی ڈیٹ پام یعنی کھجور کے چھوٹے درخت لگائیں ۔۹۸۹۱ءمیں ہوا صاف کرنے والے ۹۲ پودوں کی لسٹ شائع کی گئی جس کو انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے ۔ موجودہ حکومت نے۰۲۰۲۔۱۲۰۲ءمیں دس بلین درخت لگانے کی شجر کاری مہم کا عندیہ دیا ہے ۔یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے ۔اس سلسلے میں ہر پاکستانی کو اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہے تبھی تو گرین کلین پاکستان کا خواب پورا ہو سکے گا ۔

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme