جماعت اسلامی کے اراکین کی بڑی تعداد نے صوبہ خیبر سے تعلق رکھنے والے سراج الحق کو جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کر لیا اور 9 اپریل کی شام سراج الحق کی تقریب حلف کے موقع پرمنصورہ کے گراونڈ میں جماعت اسلامی کی قیادت و کارکنان جہاں ہزاروں کی تعداد میں موجودتھے وہی دیگر جماعتوں کے رہنما وکارکنان کے علاوہ صوبہ خیبر کے وزراء ، صحافیوں ،کالم نگاروں کی ایک بڑی تعداد موجودتھی کیونکہ یہ منتقلی قیادت کا ایک اہم مرحلہ تھا۔جناب لیاقت بلوچ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے نومنتخب امیر سراج الحق سے حلف لیکر ان کو امیر جماعت اسلامی پاکستان بنا دیا اور خود سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان بن گئے ،اس موقع پر لیاقت بلوچ کی طرف سے سید منورحسن کو دعوت خطاب دیا سید منور حسن نے بہت ہی خوبصورت انداز سے امیر جماعت اسلامی پاکستان کو اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ میں بھی ایک کارکن ہی طرح آپ کے ساتھ چلتا رہونگا ۔ایسا کیوں نہ ہوتا سید منور حسن جو این ایس ایف کا لیڈر تھا ڈانس کلب کاکرتا دھرتاتھا۔جب ذہین بدلا این ایس ایف چھوڑی ڈانس کلب چھوڑا اور اسلامی جمیعت طلبہ میں شمولیت اختیار کی جوانی سے آج تک اسلامی تحریک ہی کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیادین اسلام کی خدمت کو ہی اپنا اولین کام سمجھا۔یہ وہ درویش جو نہ کبھی جھکا نہ کھبی ڈرا تحریک اسلامی کی خدمت کو ہی اپنا سب کچھ سمجھا۔لیاقت بلوچ نے بہت خوبصورت الفاظ کے ساتھ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کو امارت سنبھالنے کے بعد پہلے خطاب کی دعوت دی ۔پنڈال میں موجود ہزاروں لوگوں نے کھڑے ہوکر نئے امیر کا استقبال کیا۔سراج الحق نے اپنے خطاب میں سید منور حسن کی خدمات کو زبردست انداز میں سراہا اور سراج الحق کے ان الفاظ نے تو کارکنان کو رولا ڈالا۔جب انہوں نے کہا میں اس بار کے قابل نہیں کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ وزنی ہے اور اس قابل کہاں تھا میں تو سید منور حسن کے جوتوں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوں میرے لیے دعا کیجیے گا ۔اور صرف شریعت کے مطابق میرے ساتھ دیجئے گا ورنہ میرا احتساب کیجئے گا۔ سراج الحق ایک سکول ٹیچر کے بیٹے ہے اور سراج الحق نے ہمیشہ امانت دیانت ،خوش اخلاقی کی مثالیں پیش کی ہے عوام میں گھل مل جانا ان کاخاصہ ہے جب پنجاب کا ایک وزیر لاہور سے ساہیوال تک کے دورے پر تین کروڑ اڑا دیتا ہے تو دوسری طرف سراج الحق نے بھی انہی دنوں میں پشاور سے لاہور کا دورہ کیا جس پر صرف پندرہ سو خرچ آئے ۔اس طرح کے فرد کا ایک جماعت کا مرکزی صدر بن جانا بہت بڑی بات ہے ۔شائدہی ایسی مثال کوئی اور جماعت پاکستان کی اندر دے سکے ۔میاں نوزشریف اور میاں شہباز شریف کے ہوتے ہوئے خواجہ سعد رفیق مسلم لیگ کا صدر بنے ،بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی جگہہ جہانگیر بدرپی پی کی قیادت کرئے ،مولانا فضل الرحمان کی جگہ حافظ حسین احمد جے یو آئی کی قیادت کرئے، اور عمران خان کی جگہ کسی اورکوپارٹی کی صدارت اوراختیارات مل جائے یہ بات ممکن نہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی سوائے جماعت اسلامی کے جس میں سید مودودی ؒ کی زندگی میں میاں طفیل محمدؒ امیر بنے اور سید مودودی ؒ نے ان سے حلف لیا ۔قاضی حسین احمد ؒ میاں طفیل محمد کی زندگی میں ہی امیر منتخب ہوئے اور میاں طفیل محمدؒ نے ہی قاضی صاحبؒ سے حلف لیا اور سید منور حسن بھی قاضی حسین احمد ؒ کی زندگی میں ہی امیر منتخب ہوئے اورقاضی صاحب ؒ نے سید منور حسن سے حلف لیا۔اب بھی سید منور حسن کے ہوتے ہوئے ہی سراج الحق امیر بنے اور سید منور حسن نے ہی سراج الحق سے حلف لیا۔ جماعت اسلامی نصف صدی گزرنے پر بھی اپنی روایات پر سختی کے ساتھ کاربند ہے۔نئے امیر سراج الحق سے بھی عوام کو بہت سی توقعات ہیں ۔ویسے تو جماعت کی مرکزی شوریٰ ہی تمام فیصلوں اختیار رکھتی ہے لیکن بہت سے معملات میں امیر جماعت بھی خود مختار ہوتا ہے ۔ابھی چند دنوں میں مرکزی شوریٰ کا اجلاس ہوگا جس میں مرکزی جنرل سیکرٹری اور دیگر عہدران کا تقرر ہوگا ۔سید منور حسن نے اپنے دور میں ،،گوامریکہ گو ،،تحریک چلائی عوام میں بھر پور کامیاب ہوئی اور انہوں نے طالبان کے ساتھ مزاکرات کے لیے حکومت پر اپنا دباو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اس موقف پر سختی سے قائم رہیے ۔اب دیکھنا یہ ہے جماعت اسلامی کی آنے والی قیادت کیسے جماعت اسلامی کو آگے لیکر بڑھتی ہے ۔اور طالبان اور دیگر امور پر کیا موقف اپناتی ہے