تحریر : شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ دنوں مختلف میڈیا اداروں میں چین کے ایک مصنوعی جنگل سائی ہان با کا تذکرہ کیا گیا جسے دنیا کے سب سے بڑے مصنوعی جنگل کا درجہ حاصل ہے ۔جی ہاں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے آج موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کے تناظر میں مزید سمجھنے کی ضرورت ہے ۔یہ جنگل دنیا کو بتاتا ہے کہ چین جسے اپنی مصنوعات کی وسیع پیداوار کے لحاظ سے دنیا کی فیکٹری کہا جاتا ہے ،نہ صرف صنعتکاری پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے بلکہ فطرت سے ہم آہنگ گرین ترقی کے اعتبار سے بھی ٹھوس اقدامات پر عمل پیرا ہے۔
سائی ہان با کو اگر مختلف نسلوں کی ایک بے مثال اور عظیم جدوجہد سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ تقریباً 93 ہزار ہیکٹر رقبے پر محیط سائی ہان با 1950 کی دہائی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے بنجر زمین میں بدل چکا تھا۔انیس سو ساٹھ کے عشرے میں سائی ہان با میں چاروں جانب ریت ہی ریت تھی اور یہاں سے صرف 180 کلومیٹر دور واقع دارالحکومت بیجنگ کو تقریباً ہر سال ریت کے طوفانوں کا سامنا رہتا تھا۔سنہ 1962 میں سائی ہان با میں ایک مصنوعی جنگل قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیااور آج نصف صدی کے بعد تین نسلوں کی سخت کوششوں سے یہاں جنگل کا رقبہ 11.4 فیصد سے بڑھ کر 82 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔یوں سائی ہان با دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل بن چکا ہے۔ یہاں سے دارالحکومت بیجنگ کو تقریباً 137 ملین مکعب میٹر صاف پانی بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس وقت سائی ہان با نہ صرف چین بلکہ دنیا میں بھی ماحولیاتی تحفظ کی ایک عظیم مثال تصور کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کو عالمی سطح پر بھی بے حد سراہا گیا ہے ،سائی ہان با کو 2017 میں” چیمپئنز آف دی ارتھ ایوارڈ” بھی دیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کی جانب سے اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین کی اعلیٰ قیادت بھی اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں نظر آتی ہے اور اسی ماڈل کی بنیاد پر ملک کے دیگر علاقوں میں گرین ترقیاتی فلسفے کو فروغ دے رہی ہے۔
ابھی حال ہی میں چینی صدر شی جن پھنگ نے سائی ہان با مصنوعی جنگل کا دورہ کیا ۔ انہوں نے جنگل کے قدرتی حالات کا جائزہ لیا اور صوبہ حہ بئی میں قدرتی نظام کے تحفظ اور جنگل کی دیکھ بھال کے حوالے سے تفصیلات کی سماعت کی۔انہوں نے اس موقع پر جنگلات کے تحفظ پر مامور اہلکاروں سے بھی بات چیت کی ، درختوں کی افزائش کا معائنہ کیا ، اور “سائی ہان با روح” کو آگے بڑھانے اور اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔شی جن پھںگ نے سائی ہان با کو ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ماحولیاتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے چین کی کوششوں کو مزید تحریک دے گا اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک بنجر زمین سے لے کر درختوں کے سمندر تک ، سائی ہان با کی معجزانہ تبدیلی نے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے چین کی کوششوں کو ایک نئی تقویت بخشی ہے اور ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے لیے اس کے پختہ عزم کو ظاہر کیا ہے۔اس جنگل کی ماحولیاتی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چائنیز اکیڈمی آف فارسٹری کے مطابق ، یہ جنگل 8 لاکھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرسکتا ہے ، تقریباً 6 لاکھ ٹن آکسیجن خارج کرسکتا ہے ، جبکہ سالانہ مختلف نوعیت کی ماحولیاتی خدمات کا تخمینہ لگ بھگ 16 بلین یوآن (تقریباً 2.47 بلین امریکی ڈالر) تک پہنچ چکا ہے۔اسی باعث سائی ہان با کا گرین معجزہ ماحولیاتی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے ملک کے دیگر حصوں کے لیے ایک مثال قرار دیا جاتا ہے۔
چین نے اپنی دانش اور مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی دہائیوں تک سبز ترقی کے لیے بے پناہ کوششیں کی ہیں ، اس ضمن میں 1980 کی دہائی میں ماحولیاتی تحفظ کو بنیادی قومی پالیسی کے طور پر شامل کیا گیا اور 1990 کی دہائی میں پائیدار ترقیاتی حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے اس پر موئثر عمل درآمد کیا گیا۔ ماحولیاتی تہذیب کی ترقی کو 2012 کے بعد سے صدر شی جن پھنگ کے ایک نئے تصور “صاف پانی اور سرسبز پہاڑ انمول اثاثے ہیں” کی روشنی میں انتہائی تیز رفتاری سے آگے بڑھایا گیا اور سبز انقلاب کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کی گئی۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین نے اپنے جنگلات کے رقبے کو 1980 کی دہائی کے اوائل میں 12 فیصد کے مقابلے میں2020 تک 23.04 فیصد بڑھا دیا ہے ۔آج چین کے جنگلات کا ذخیرہ 17.56 بلین مکعب میٹر ہو چکا ہے۔چین کی کوشش ہے کہ ملک میں قدرتی ماحول کو بنیادی طور پر بہتر بنانے کے لیے شجرکاری کی کوششوں کو سائنسی پیمانے پر آگے بڑھایا جائے تاکہ ماحولیاتی استحکام کی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔اس مقصد کی خاطر جنگلات کے فروغ اور جنگل کے وسائل کے تحفظ کے لیے مزید کوششوں پر زور دیا جا رہا ہے تاکہ ایک گرین چین کے تحت ترقیاتی سفر جاری رکھا جا سکے اور دنیا کے لیے بھی ایک مثال قائم کی جا سکے۔