یوم دفاع پاکستان کی عظمت اور پیغام 

Published on September 6, 2021 by    ·(TOTAL VIEWS 210)      No Comments

تحریر۔۔۔عباس ملک 
اپنی جان نذر کروں اپنی وفا پیش کروں 
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں 
ہم اکثر اس بات کو کوئی اہمیت دیتے ہی نہیں کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں، ہمارے شہر اور وہ تمام علاقے پُرامن ہیں جہاں جہاں ہم جاتے ہیں۔ یہ آزادی اور یہ امن فوج اور سیکیورٹی اداروں کی وجہ سے ممکن ہے جو 24 گھنٹے ہمارے ملک کو بیرونی اور داخلی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کا کردار ملکی دفاع اور سلامتی کے لیے سویلین حکومت کی رہنمائی میں کام کرنا ہے اور ان کے اہلکار ضرورت پڑنے پر فرض کی راہ میں بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔یومِ دفاع، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اُس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جس دن ہماری افواج نے 1965ء میں ہندوستانی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور اپنے ملک کا دفاع کیا تھا۔ اسے ہر سال 6 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ دشمن نے 6 ستمبر 1965ء کو ہمارے ملک پر حملہ کیا۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی افواج کی پیش قدمی روکنے کے لیے ردِعمل تھا۔ دشمن نے مرکزی طور پر لاہور، سیالکوٹ اور سندھ کے صحرائی علاقوں پر حملہ کیا تھا۔ 22 ستمبر 1965ء تک جنگ جاری رہی جس کے بعد فریقین نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام جنگ بندی کو قبول کرلیا۔ہماری افواج نے نہ صرف زیرِ حملہ علاقوں کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ ہزاروں شہریوں اور ان کے گھروں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا۔ چنانچہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کے ان تمام فوجی اہلکاروں کی عزت و تکریم کریں جنہوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ہمارے رشتے دار اور ہمارے ہم وطن چَین کی نیند سو سکیں۔ یہ عزت و تکریم ان فوجی اہلکاروں کو بھی ملنی چاہیے جنہوں نے ہمارے شہداء کی حمایت کی، اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا، اور یہ کہانی سنانے کے لیے زندہ رہے۔ 6 ستمبر! یہ دن قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی آتے ہیں۔ مگر زندہ قومیں ایسے دنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اس دن کا مقصد صرف ان شہیدوں کو یاد کرنا ہی نہیں ہوتا جنہوں نے اپنا کل ہماری آنے والی نسلوں اور ہمارے آج کے لیے قربان کر دیا۔ ستمبر کی جنگ پاکستانی قوم کے لیے وقار اور لازوال داستان کا درجہ رکھتی ہے۔ دفاع پاکستان قوم میں جہاں ایک نئی امنگ پیدا کرتا ہے دفاع جتنا مضبوط ہو قوم بھی اتنی ہی مضبوط اور فخر محسوس کرتی ہے۔ بھارت نے طاقت کے نشے میں ایک آزاد ملک کی آزادی سلب کرنے کی ناپاک جسارت کی جس کو پاکستانی افواج اور قوم نے مل کر دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور دنیا کو یہ ثابت کر دکھایا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں ہماری مسلح افواج دنیا کی کسی افواج سے کم نہیں۔ افواج پاکستان اور قوم اپنے ملک کا دفاع کرنا خوب جانتی ہے۔ بھارت کسی بھی خام و خیالی میں نہ رہے کہ ہم اپنے دفاع سے غافل ہیں۔ دشمن نے آئندہ جارحیت کی سوچ بھی پیدا کی تو اس کا ذمہ دار بھی وہ خود ہی ہو گا خاک کے ڈھیر کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ عبرت ناک سزا سے اسے کوئی بھی نہیں بچانے آئے گا۔ ملت پاکستان کے لیے 6 ستمبر شہیدوں اور غازیوں کو یاد کرنے کا دن ہی نہیں یہ دن ہماری عظمت کا نشان ہے۔ ان دنوں میں 23 مارچ 28 مئی 14 اگست اور 6 ستمبر اپنی نوعیت کے اعتبار سے قابل فخر اور یادگار دنوں کا درجہ رکھتے ہیں قوم اپنے جرآت مند فرزندوں، شہیدوں، مجاہدوں کی بہادری اور حب الوطنی پر کیوں ناز نہ کرے جنہوں نے اپنے ملک کی سالمیت و حفاظت کے لیے اپنی خوبصورت جان بلند حوصلہ کے ساتھ ہمارے آنے والے کل کے لیے قربان کر دی اس پر پوری پاکستانی قوم رہتی دنیا تک اپنے ان شہیدوں مجاہدوں کو سلام پیش کرتی رہے گی۔
 یومِ دفاع پاکستان! ہر سال 6 ستمبر کو پاکستانی عوام سلطنت خداداد پاکستان میں بطور ایک قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ عظیم دن 1965ء میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ میں افواج پاکستان کی بہترین دفاعی کارکردگی اور جانثاروں،مجاہدوں؛غازیوں اور شہیدوں کی شجاعت و بہادری اور دلیرانہ،ولولہ انگیز بے پناہ قربانیوں کی یاد میں منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کا مقصد پاکستان کی آرمی بری بحری فضائی افواج کی دفاعی اور عسکری طاقت کو مضبوط کرنے کی یاد دہانی بھی ہے اور پاکستان کے بہادر اور دلیر ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے اور مستقبل کے معماروں کی حوصلہ افزائی کیلئے بھی منایا جاتا ہے تا کہ آنے والے وقت میں دشمن کے کسی بھی ناپاک عزائم اور حملے سے بطریق احسن نمٹا جا سکے۔ اس دن پاکستان میں سکول کالجز اور یونیورسٹیوں کے علاوہ سرکاری دفاتر میں 6ستمبر 1965کی پاک بھارت جنگ کے شہداء، غازیوں اور بہادروں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور بھارت کے اس حملے کی پسپائی کا تذکرہ کیا جاتا ہے جس میں دشمن کو شکست اور اقوام عالم کے سامنے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پاکستان کے بہادر فوجی جوانوں نے دشمن کے خوابوں کو چکنا چور کر کے ہمیشہ کیلئے نشان عبرت بنا دیا تھا، دوران جنگ ہر پاکستانی کو ایک ہی فکر تھی کہ اُسے دشمن کا سامنا کرنا اور کامیابی پانا ہے۔جنگ کے دوران نہ تو جوانوں کی نظریں دشمن کی نفری اور عسکریت طاقت پر تھی اور نہ پاکستانی عوام کا دشمن کو شکست دینے کے سوا کوئی اورمقصد تھا۔ تمام پاکستانی میدان جنگ میں کود پڑے تھے۔مذہبی حلقے خصوصاًعلماء جنہوں نے افواج پاکستان اور ملت اسلامیہ میں جذبہ جہاد اور ذوق شہادت کو بام عروج عطا کیا، علاوہ ازیں اساتذہ، طلبہ، شاعر، ادیب، فنکار، گلوکار، ڈاکٹرز، سول ڈیفنس کے رضا کار،مزدور،کسان اور ذرائع ابلاغ سب کی ایک ہی دھن اور آواز تھی کہ”اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“ستمبر 1965ء کی جنگ کا ہرطرف جائز ہ لینے سے ایک روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ وسائل نہ ہونے کے باوجود اتنے بڑے دشمن مُلک،فوج اسلحہ یعنی ہر لحاظ سے مضبوط ہندوستان کے مقابلے میں چھوٹے سے مُلک پاکستان میں وہ کون سا عنصر اورجذبہ تھا، جس نے پوری قوم کو ایک سیسہ پلائی ہوئی نا قابل عبور دیوار میں بدل دیا تھا۔ مثلاً ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ سرحد”رن آف کچھ“ پر طے شدہ قضیہ کو ہندوستان نے بلا جواز زندہ کیا۔ فوجی تصادم کے نتیجہ میں ہزیمت اٹھائی تو یہ اعلان کر دیا کہ آئندہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیے اپنی پسند کا محاذ منتخب کرے گا، اس کے باوجود پاکستان نے ہندوستان سے ملحقہ سرحدوں پر کوئی جارحانہ اقدام نہ کیے تھے۔ صرف اپنی مسلح افواج کومعمول سے زیادہ الرٹ کررکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چھ ستمبر کی صبح جب ہندوستان نے حملہ کیا تو آناً فاناً ساری قوم، فوجی جوان اور افسر سارے سرکاری ملازمین اُٹھ کر اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔جذبہ ایمانی اور جذبہ جہاد سے سرشار دلوں میں جذبہ شہادت کی تمنا رکھنے والی پاکستان آرمی نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اورپیشہ ورانہ مہارتوں سے روکا ہی نہیں بلکہ انہیں بہت بڑا جانی نقصان اُٹھانے کے ساتھ پسپا ہونے پر بھی مجبور کر دیا تھا۔ ہندوستانی فوج کے کمانڈر انچیف نے فوج اور اسلحے کی طاقت کے نشے میں اپنے فوجی ساتھیوں سے کہا تھا کہ وہ لاہور کے جم خانہ میں شام کو شراب کی محفل سجائیں گے۔ ہماری مسلح افواج نے جواب میں بھارتی کمانڈر انچیف کے منہ پر ایسے طمانچیرسید کیئے کہ وہ مرتے دم تک اپنا منہ چھپاتا رہا، لاہور کے سیکٹر کو میجر عزیز بھٹی جیسے بہادر سپوتوں نے سنبھالا، اپنی جان کو وطن عزیز کی خاطر قُربان کر دیا مگر پاک سرزمین اور وطن عزیز پر ناپاک دشمن کے قدم کو قبول نہ کیا، چونڈہ کے محاذ پر(ہندوستان کا پسندیدہ اور اہم محاذ تھا)کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ وبارود سے نہیں اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ہندوستانی فوج اور ٹینکوں کا قبرستان بنادیا۔ پاکستانی افواج کی کارکردگی بہادری اور دلیری کو دیکھ کر عالمی دنیا کے صحافی اور دانشور ششدر اور حیران رہ گئے ستمبر1965ء میں نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی دیگر دفاعی اداروں کی طرح قابل فخر اور قابل رشک رہیں۔ اعلان جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ کراچی بندرگاہ کے دفاع کے ساتھ ساتھ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کرائی گئی۔پاکستان کے بحری،تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاکستان بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامان تجارت لانے اور لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔اس کے علاوہ ہندوستانی بحریہ کو بندرگاہوں سے باہر تک نہ آنے دیا۔ پاکستان نیوی کی کامیابی کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کے تجارتی جہاز”سرسوتی“اوردیگر تو کتنے عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست وحفاظت کراچی کی بندرگاہ میں رہے۔ 7ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوزپی این ایس غازی بھی شامل تھی۔ ہندوستان کے ساحلی مستقر”دوارکا“پرحملہ کے لیے روانہ ہوئی۔اس قلعہ پر نصب ریڈار ہمارے پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک رکاوٹ تھی۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20منٹ تک اس دوار کا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوار کا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف ہندوستان کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ ہندوستانی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرات نہ کرسکا۔ ہندوستانی جہاز”تلوار“کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی”غازی“ کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔ائیر مارشل اصغر خان اور ائیر مارشل نور خان جیسے قابل فخرسپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی اور فوجی ضرورتوں کے پیش نظر تجویز کردہ نصاب کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف”ہوا باز گھوڑوں کو تیار کر رکھا تھا“جیسا کہ مسلمانوں کو اپنے دشمن کے خلاف تیاررہنے کا حکم ہے۔ یہ ہمارے ہوا باز7ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے عظیم سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کومار گرایا تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علاوالد ین جیسے شہیدوں نے بھی ثابت کر دیا کہ حرمت وطن کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے ہندوستان کے جنگی ہوائی اڈوں کو اس طرح تباہ و برباد کر دیا جس طرح ابراہا کے لشکر کو ابابیل نے تہس نہس کردیا تھا۔ 1965ء کی جنگ کا غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بڑے سرکش اورخونخوار شکار کوپاکستان نے چھوٹے سے جال میں آسانی سے قید کر لیا۔ سب کچھ قائد اعظم کے بتائے ہوئے اصول ایمان، اتحاد،تنظیم پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔کسی بھی زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہی اصول1965ء کی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کامرکز اور محور تھے۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی،نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ہر طرح کا فرق مٹا کر اختلاف بھلا کرمتحد ہو کر دشمن کوناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ تھا۔پاک فوج کے بہادر جوانو ں،غازیوں،مجاہدوں اور شہیدوں پاکستان کا ہر شہری بچہ بچہ،جوان، بوڑھا، مرد اور عورت تمہاری مُلک و قوم کے ساتھ حُبُ الوطنی سر فروشی اور عظمت کو سلام پیش کرتا ہے۔ 
 پاکستان پائندہ باد
Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

Free WordPress Themes