صفدر علی خاں
پاکستان بے شمار وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ترقی اور خوشحالی کی منزل سے بہت دور ہے۔سالانہ بجٹ پر ملک کے وزیر خزانہ اکثر مالیاتی جادوگر کا روپ دھار کر عوام کو اعداد وشمار کے عجیب ووسیع گورکھ دھندے میں الجھادیتے ہیں کہ انہیں تنزلی بھی ترقی دکھائی دینے لگتی ہے۔بجٹ اصلاحات کے مابعد اثرات کا سرکاری طور پر سب سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر وقت گزرنے پر حکومتی معاشی اصلاحات مہنگائی۔بے روزگاری اور بدحالی کی شکل میں عوام کے گلے کا طوق بن کر آزار بن جاتی ہیں۔تحریک انصاف نے بھی اقتدار میں آنے سے پہلے بہت بڑے دعوے کئے تھے اور عوام کے ساتھ حقیقی خوشحالی لانے کے وعدوں کی پاسداری کا عزم بڑے جنونی انداز میں کیا تھا کہ ان پر یقین لانے اور اعتماد کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔عوام کے تمام بنیادی مسائل کو حل کرنے کی 100دنوں کے ایجنڈے میں شامل کرنا بھی اس وقت ان کا کمال تھا مگر مختصر مدت میں کوئی چھوٹا بڑا وعدہ نبھانے سے موجودہ حکمران محروم رہے۔ اب پی ٹی آئی کے تین سال مکمل کرکے حکومت نے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کی ہے۔اس حوالے سے ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے عوامی مسائل حل نہ کرسکنے کی بے شمار
وجوہات بیان کرتے ہوئے یہ انکشاف کیاہے کہ اب حکومت ٹریک پر آگئی ہے۔ملک میں ترقی اور عوام کی خوشحالی کا آغاز ہوچکا ہے۔کرونا کی وجہ سے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اپوزیشن نے بھی عوامی فلاح اور ترقی کے منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا کیں۔وزیر اعظم اپوزیشن کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ خود کو ڈیموکریٹس کہنے والے فوج کے پیچھے پڑے ہیں کہ جمہوری حکومت کو گرا دیں۔ان کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے سے قبل میری 22سالہ جدوجہد بہت سخت تھی، ایسے وقت بھی آئے جب صرف پانچ سے چھ لوگ ساتھ رہ گئے تھے اور باقی لوگ گھروں میں بیٹھ گئے تھے۔حکومت ملی تو خزانہ خالی ملا۔ ہمارے تین سال بہت مشکل گزرے کیونکہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو یہ ملک کا دیوالیہ کر کے جا چکے تھے، ہمارے پاس قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے ہی نہیں تھے، ادائیگیوں کے حوالے سے دیوالیہ ہو رہے تھے کیونکہ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ہی نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کرنٹ اکا¶نٹ خسارہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا 20ارب ڈالر تھا اس کی وجہ سے اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین ہماری مدد نہ کرتے تو ہماری قوم جس مشکل وقت سے گزری وہ کچھ بھی نہیں کیونکہ روپیہ بہت بری طرح نیچے آتا۔
ہمیں مجبوراً آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا کیونکہ ہمارے پاس پیسے ہی نہیں تھے، پیسے لینے کے لیے انہوں نے شرائط عائد کردیں کہ بجلی مہنگی کرنی پڑے گی، روپے کی قدر گرانی پڑے گی، ٹیکس لگانے پڑیں گے اور جب ہم ان شرائط پر چلتے ہیں تو عوام کو مشکلات ہوتی ہیں۔ ہم ان مشکلات سے نکل ہی رہے تھے کہ کورونا آ گیا، کورونا سے پہلے پلوامہ آ گیا لیکن اس معاملے میں اللہ نے ہمیں کامیابی دی اور میں خاص طور پر فوج کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسی فوج اور فضائیہ ہے۔ جس وقت بھارت نے ہمارے ملک میں رات گئے آ کر بمباری کی تو مجھے احساس ہوا کہ اگر ہمارے پاس اس طرح کی فوج نہ ہو تو ہم سات گنا زیادہ بڑے ملک کے سامنے کیا کرتے، ایسے میں ہمیں اپنی فوج کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے تین سالہ دور کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جب ہم آئے تھے تو کرنٹ اکا¶نٹ کو 20ارب ڈالر کا خسارہ تھا اور آج یہ خسارہ 1.8ارب ڈالر رہ گیا تھا۔ ہمارے غیرملکی زرمبادلہ کے کُل ذخائر 16.4 ارب ڈالر تھے اور آج ہمارے 27ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔ جب ہم آئے تو 3ہزار 800ارب ٹیکس اکٹھا کیا جاتا تھا اور آج 4ہزار 700ارب ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کو ملک کا سب سے بڑا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم آئے تو ترسیلات زر 19.9ارب ڈالر تھیں اور آج ہماری ترسیلات زر 29.4ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہیں۔ ہماری صنعت میں 18فیصد سے زائد اضافہ ہوا اور یہ دس سال بعد ہماری صنعت اتنی تیزی سے اوپر جا رہی ہے جبکہ تعمیرات کے شعبے میں سیمنٹ کی 42فیصد فروخت بڑھی ہے، زراعت میں 1100ارب اضافی کسانوں کے پاس گیا ہے۔نیب اور اینٹی کرپشن کی کارکردگی میں بہتری
آئی ہے۔لوٹی گئی رقم کی برآمد کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری موٹر سائیکلیں ریکارڈ تعداد میں بکیں، ریکارڈ ٹریکٹر فروخت ہوئے جبکہ گاڑیوں کی فروخت 85فیصد بڑھ گئی اور ٹویوٹا نے اپنی تاریخ میں اتنی گاڑیاں نہیں فروخت کیں جتنی آج بیچی ہیں۔اپنجاب کی اینٹی کرپشن نے مسلم لیگ(ن) کے 10سالوں میں کُل ڈھائی ارب روپے برآمد کیے تھے جبکہ ہمارے تین سالوں میں وہی ادارہ ساڑھے چار سو ارب روپے برآمد کر چکا ہے۔ ہمارے آنے سے پہلے نیب نے 18سالوں میں 290ارب روپے برآمد کیے تھے جبکہ ہمارے 3سالوں میں 519 ارب روپے برآمد ہوچکے ہیں۔ ہمارے احساس پروگرام سے قبل 11ارب روپے نچلے طبقے کی مدد کے لیے دیا جاتا تھا اور ہم یہ رقم بڑھا کر 260 ارب روپے پر لے گئے۔ کورونا کے دنوں میں ہم نے احساس پروگرام کے تحت جو پیسہ خرچ کیا تو عالمی بینک نے کہا کہ اس پروگرام کی بدولت ساری دنیا میں پاکستان تیسرے نمبر پر تھا کیونکہ ہم نے انتہائی شفاف اور بہترین طریقے سے پیسے بانٹے۔ 40 ہیلتھ انشورنس دے رہے ہیں
صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیلتھ کارڈ دیے جا چکے ہیں جبکہ پنجاب میں بھی اس سال کام مکمل ہو جائیگا، یہ کام صوبوں کی سطح پر ہو رہا ہے لہٰذا جب سب جگہ یہ کام ہو جائے گا تو صوبہ سندھ پر بھی دبا¶ پڑے گا اور انہیں بھی ہیلتھ کارڈ دینے پڑیں گے۔غریبوں کو اقساط پر سستے گھر لے کر دیں گے۔پاکستان میں 10 ڈیم بن رہے ہیں جو اگلے 10سال میں مکمل ہو جائیں گے۔ خصوصی پیکیجز دیے ہیں، سندھ کے 14 اضلاع، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے 9 اضلاع کی ترقی کے لیے 1300 ارب روپے مختص کیے ہیں۔وزیداعظم نے اپنے 3سالہ دور اقتدار کی حسن کارکردگی بیان کرتے ہوئے روایتی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر والا ہی انداز اپنایا۔اعداد وشمار کے ہیر پھیر کی سمجھ سے نابلد عوام کو بڑی آسانی سے امید دلائی جاسکتی ہے۔سیاستدانوں کے سامنے اقتدار کی مدت پوری کرنا اہم ہوتا ہے جس کےلئے وہ کچھ ماضی کی چھوٹی موٹی کامیابیوں کوبڑھاچڑھاکر بیان کرکے مستقبل کیلئے امید کا چراغ روشن کرلیتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان نے بھی روایتی سیاستدانوں والا حربہ استعمال کرتے ہوئے بقیہ مدت اقتدار پوری کرنے کا راستہ ہموار کرنے کی کاوش کرڈالی ہے۔جس وزیر اعلیٰ کی حسن کارکردگی کی تعریفوں کے وزیر اعظم نے پل باندھے ہیں انکی گورننس کا مظاہرہ 14اگست کو ٹک ٹاکر کے واقعہ پر پوری قوم دیکھ چکی ہے۔انصاف کی سب کو بلاامتیاز فراہمی کے لئے کوئی کام ہوا ہے نہ قانون کی بالا دستی کے حوالے سے اصلاحات ہوسکیں۔نیب سمیت احتساب کے تمام قومی ادارے انتقامی کارروائیوں کے الزامات سے ہی پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ڈالر کی اڑان سے دوستوں کو نوانے اور ایف بی آر میں اصلاحات کی بجائے چھٹے چیف کی تبدیلی سے تو معاشی بہتر نہیں ہوگی ۔ باشعور عوام کو یاد ہے کہ الیکشن سے قبل عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا ایفا تو درکنار ان کا تذکرہ بھی نہیں کیا گیا۔عملی طور پر حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں۔ اور 50لاکھ گھر دینے سمیت کوئی بھی بڑا وعدہ پورا نہیں کی