سخت سزا

Published on April 20, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 385)      No Comments

Za
کبھی کسی نے سوچا کہ ہم رہتے تو ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور ہم اپنے آپ کو مسلمان بهی کہتے ہے اور ہر طرح سے اسلامی تعلیمات میں بڑھ چڑھ حصہ بهی لیتے ہیں مگر کیا ہے اسلامی جمہوری مملکت کے مختلف علاقوں میں بارشیں ہو رہی ہے ہمیں بس ایک ہی فکر ہو رہی ہے اور ہم سب کی زبان پر اب ایک ہی دعا رہتی ہے یا اللہ ہمارے فصلیں تباہ برباد ہو رہی ہے اگر فصلیں تباہ ہو گئیں تو میرے کهانے کا کیا ہو گا ہمیں اپنے کهانے کی تو فکر رہتی ہے مگر مسلمان ہونے کے ناطے یہ نہیں سوچتے کہ جس پاک ذات نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم اس پاک ذات کے لیے کیا کر رہے ہیں ہم نے آخرت کے لئے کیا کیا ہے آج جس طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں کهانے پینے کی اشیا ءکی قلت پیدا ہوئی ہے کیا یہ سب اسلام سے دوری کا سبب نہیں ہے خوراک کی کمی کی وجہ سے آج لوگ غیر انسانی فعل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ایک طرف تو بڑے بڑے ہوٹلوں پر مزے دار کھانوں کی خوشبو سے غریب انسان کی عقل ہی دھنگ ہو جاتی ہے دوسری طرف ایک غریب انسان اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے نجانے کیا کیا محنت مزدوری کرتا ہے پهر بهی سکون سے رو وقت کی روٹی نہیں ملتی حالات اس قدر نا گزیر ہو چکے ہیں کہ لوگ فاقوں مر رہیں مگر اس کے ساتھ لوگ کیا کر رہیے ہیں یہ واقعہ کچھ دن پہلے پهر ایک بار رو نما ہوئے جب دو بهائی پهر ایک بار گرفتار ہوئے زندہ یا مردہ انسانوں کو کھانا پاکستان میں جرم نہیں ہے، مگر اسلامی تعلیمات جس میں ہم بڑھ چڑ کر حصہ لیتے رہتے ہیں مگر کیا اسلام میں انسانوں گھوڑوں گدھوں کا گوشت کھانا کہاں جائز ہے ایسی غیر اخلاقی ، غیرانسانی حرکات میں ملوث کسی بھی شخص کے خلاف صرف قبر کونقصان پہنچانے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کیاگیاجاتاہے اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال قید ہے ، مردہ انسان کا گوشت کهانے کے متعلق تعزیرات پاکستان سمیت ملک کے تمام قوانین آدم خوری پر خاموش ہیں۔ بھکر کے نواحی علاقے کہاوڑ کلاں میں مردہ انسانی گوشت کھانے کے جرم میں پہلے بهی گرفتار ہو چکے دو بھائیوں عارف عرف اپھل اور فرمان عرف بھاما کو ایک بار پھر سے مردہ خوری کے الزام میں گرفتار کر لیا ہےلیکن بدقسمتی سے ان ملزمان کے خلاف انسانوں کو کھانے کا مقدمہ درج کرنے کی بجائے قبرکو نقصان پہنچانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے کیا اعلی حکام کو اس کے بارے میں معلوم نہیں سب معلوم ہونے کے اوجود اس پر یہ ردے عمل ہے ان لوگوں پر ایک چھوٹا سا مقدمہ بنایا جاتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون موجود نہیں جو کسی انسان کو آدم خور بننے سے روک سکے۔ اور کوئی بھی قانون ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں زندہ یا مردہ انسانوں کو کھانا قانون کی نظر میں جرم ہے۔بھکر کے دونوں بھائیوں کے خلاف2011میں بھی مردہ انسانی گوشت کھانے کے الزام میں قبر کو نقصان پہنچانے کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ تو قانون ہے جس کے مطابق قبرکو نقصان پہنچانا قابل ضمانت جرم ہے جس کی سزا ایک سال قید یا جرمانہ یا مجرم کو دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ مقامی عدالت نے انسانی گوشت کھانے کا جرم ثابت ہونے کے باوجود دونوں بھائیوں کو سخت سزا دینے میں یقینی طورپر بے بسی محسوس کی اور انہیں محض قبر وں کو نقصان پہنچانے کے جرم میں 18 مئی 2012کومحض ایک سال قید کی سزا سنائی ۔ اور جیسے ہی ان کی قید کی مدت پوری ہوئی ان دونوں کو رہاکردیا گیا لیکن دونوں بھائیوں نے رہا ہونے کے بعد ایک بار پھر سے آدم خوری شروع کردی ہے۔حالیہ واقعات کے بعد ملک میں زندہ یا مردہ انسانی جسم کھانے کے ان ً شوقینوں ً کے خلاف قانون سازی وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے اس پر حکومت پاکستان کو جلد از جلد قانون سازی میں ایسی ترمیم کرنی چاہیے کہ ان اور ان جیسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیےتاکہ اب آنے والی نسلوں میں بھی کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہو سکے

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

WordPress Themes