کبھی کسی نے سوچا کہ ہم رہتے تو ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اور ہم اپنے آپ کو مسلمان بهی کہتے ہے اور ہر طرح سے اسلامی تعلیمات میں بڑھ چڑھ حصہ بهی لیتے ہیں مگر کیا ہے اسلامی جمہوری مملکت کے مختلف علاقوں میں بارشیں ہو رہی ہے ہمیں بس ایک ہی فکر ہو رہی ہے اور ہم سب کی زبان پر اب ایک ہی دعا رہتی ہے یا اللہ ہمارے فصلیں تباہ برباد ہو رہی ہے اگر فصلیں تباہ ہو گئیں تو میرے کهانے کا کیا ہو گا ہمیں اپنے کهانے کی تو فکر رہتی ہے مگر مسلمان ہونے کے ناطے یہ نہیں سوچتے کہ جس پاک ذات نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم اس پاک ذات کے لیے کیا کر رہے ہیں ہم نے آخرت کے لئے کیا کیا ہے آج جس طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں کهانے پینے کی اشیا ءکی قلت پیدا ہوئی ہے کیا یہ سب اسلام سے دوری کا سبب نہیں ہے خوراک کی کمی کی وجہ سے آج لوگ غیر انسانی فعل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ایک طرف تو بڑے بڑے ہوٹلوں پر مزے دار کھانوں کی خوشبو سے غریب انسان کی عقل ہی دھنگ ہو جاتی ہے دوسری طرف ایک غریب انسان اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے نجانے کیا کیا محنت مزدوری کرتا ہے پهر بهی سکون سے رو وقت کی روٹی نہیں ملتی حالات اس قدر نا گزیر ہو چکے ہیں کہ لوگ فاقوں مر رہیں مگر اس کے ساتھ لوگ کیا کر رہیے ہیں یہ واقعہ کچھ دن پہلے پهر ایک بار رو نما ہوئے جب دو بهائی پهر ایک بار گرفتار ہوئے زندہ یا مردہ انسانوں کو کھانا پاکستان میں جرم نہیں ہے، مگر اسلامی تعلیمات جس میں ہم بڑھ چڑ کر حصہ لیتے رہتے ہیں مگر کیا اسلام میں انسانوں گھوڑوں گدھوں کا گوشت کھانا کہاں جائز ہے ایسی غیر اخلاقی ، غیرانسانی حرکات میں ملوث کسی بھی شخص کے خلاف صرف قبر کونقصان پہنچانے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کیاگیاجاتاہے اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال قید ہے ، مردہ انسان کا گوشت کهانے کے متعلق تعزیرات پاکستان سمیت ملک کے تمام قوانین آدم خوری پر خاموش ہیں۔ بھکر کے نواحی علاقے کہاوڑ کلاں میں مردہ انسانی گوشت کھانے کے جرم میں پہلے بهی گرفتار ہو چکے دو بھائیوں عارف عرف اپھل اور فرمان عرف بھاما کو ایک بار پھر سے مردہ خوری کے الزام میں گرفتار کر لیا ہےلیکن بدقسمتی سے ان ملزمان کے خلاف انسانوں کو کھانے کا مقدمہ درج کرنے کی بجائے قبرکو نقصان پہنچانے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے کیا اعلی حکام کو اس کے بارے میں معلوم نہیں سب معلوم ہونے کے اوجود اس پر یہ ردے عمل ہے ان لوگوں پر ایک چھوٹا سا مقدمہ بنایا جاتا ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا قانون موجود نہیں جو کسی انسان کو آدم خور بننے سے روک سکے۔ اور کوئی بھی قانون ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ملک میں زندہ یا مردہ انسانوں کو کھانا قانون کی نظر میں جرم ہے۔بھکر کے دونوں بھائیوں کے خلاف2011میں بھی مردہ انسانی گوشت کھانے کے الزام میں قبر کو نقصان پہنچانے کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ تو قانون ہے جس کے مطابق قبرکو نقصان پہنچانا قابل ضمانت جرم ہے جس کی سزا ایک سال قید یا جرمانہ یا مجرم کو دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ مقامی عدالت نے انسانی گوشت کھانے کا جرم ثابت ہونے کے باوجود دونوں بھائیوں کو سخت سزا دینے میں یقینی طورپر بے بسی محسوس کی اور انہیں محض قبر وں کو نقصان پہنچانے کے جرم میں 18 مئی 2012کومحض ایک سال قید کی سزا سنائی ۔ اور جیسے ہی ان کی قید کی مدت پوری ہوئی ان دونوں کو رہاکردیا گیا لیکن دونوں بھائیوں نے رہا ہونے کے بعد ایک بار پھر سے آدم خوری شروع کردی ہے۔حالیہ واقعات کے بعد ملک میں زندہ یا مردہ انسانی جسم کھانے کے ان ً شوقینوں ً کے خلاف قانون سازی وقت کی اہم ضرورت بن گئی ہے اس پر حکومت پاکستان کو جلد از جلد قانون سازی میں ایسی ترمیم کرنی چاہیے کہ ان اور ان جیسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیےتاکہ اب آنے والی نسلوں میں بھی کوئی ایسا واقعہ رونما نہ ہو سکے