۔’’ بیٹی ! تم سے کہا ہے نہ کہ بس صبر کرو وقت سے پہلے اور قسمت سے زیادہ نہ کبھی کِسی کو مِلا ہے اور نہ ہی کبھی مِل سکتا ہے۔آزمائش کے سمندر میں ہر کسِی کو غوطہ لگانا ہی پڑتا ہے خواہ وہ جِن ہو یا اِنس ‘‘ مجذوب نے جمیلہ سے نظریں مِلا ئے بنا ہی کہا۔
’’مگر بابا جی ! میں جِس امتحان سے گزر رہی ہوںیہ کب ختم ہوگا ‘‘؟جمیلہ کے چہرے پر اُداسی برقرار تھی۔
’’تمہارا امتحان ابھی شروع ہی کہا ہوا ہے بیٹی جو ختم ہوگا مگر ایک بات یاد رکھناامتحان کا وقت آن پہنچے تو بڑے بڑے قد آور اور دیو صفت بھی لڑکھڑا جاتے ہیں ۔بیٹی ! اللہ پاک کے امتحان کا سامنا زندگی میں سب کو کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے نبیوں کا امتحان بھی لیا ‘‘اتنا کہہ کر مجذوب نے دونوں آنکھیں بند کر لیں اور ہلکے ہلکے سر کو ہلانے لگا ۔
جمیلہ سمجھ گئی کہ بابا اب کِسی اور جہاں میں جانے لگے ہیں مگر پھر بھی جلدی سے بڑے موآدب انداز سے پوچھا۔’’ با با یہ تو بتائیں میرا امتحان کب شروع ہوگا ؟ اورکیا ہوگا؟‘‘ جمیلہ کے یہ سوال پوچھنے کے بعد کچھ لمحوں تک سناٹا چھا گیا اور جمیلہ بھی جواب سننے کے انتظار میں نظریں جھکائیں وہی بیٹھی رہی ۔کچھ دیر میں مجذوب نے اچانک آنکھیں کھولیں تو آنکھوں میں انگارے تھے وہی خوبصورت اور بڑی بڑی آنکھیں جو چند لمحے قبل براؤن تھیں اب اُن میں سُرخی تھی مگر فوراً پلک جھپکتے ہی بزرگ کی آنکھیں پھر سے اپنی اصل حالت میں آگئیں۔
’’ امتحان کب شروع ہوگا اور کیا ہوگا اِس کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا امتحان کی کوئی مخصوص صورت نہیں ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ رب جِس کے قبضے میں ہماری جانیں ہیں وہ اپنے پیارے بندوں جنہیں وہ ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہے پر اُس سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا جتنا کہ وہ اُٹھا نہ سکیں ۔بے شک اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے تم بس صبر کا دامن تھامے رکھو اور وقت کا انتظار کرو اگر تمہارا ایمان پختہ اور رب کی ذات پر یقین کامل ہوگا تو عین امتحان کے موقع پر تمہارے قدم ڈگمگائیں گے نہیں اور تم فوراً امتحان کے اُن لمحات کو پہچان لوگی۔جا ؤ اب جا کرنماز پڑھو اورچھوٹی موٹی آزمائشوں کی تمام سیڑھیاں عبور کرتی ہوئی اللہ کے قرب کو حاصل کرو، جب تمہیں اللہ کا قرب حاصل ہوگیا تو امتحان کی گھڑی بھی آن پہنچے گی پھر اِس امتحان میں سرخروئی کے بعد راحت ہی راحت ہوگی ۔۔۔ سب دکھ ، درد، تکلیفیں ،پریشانیاں سب ختم ہو جائیں گی ۔صرف راحت ہی راحت ، سکون ہی سکون ہوگا بس سکون ہی سکون ‘‘۔جمیلہ وہاں سے اُٹھی اور تھکے تھکے قدموں سے واپس لوٹ آئی ۔تالا کھولا گھر کے اندر گئی سبزی اور سودا سلف ایک طرف رکھا سبزی کاٹ کر ہنڈیاچولہلے پر چڑھائی ،روٹی پکائی پھر خاوند کو سہارا دیکر رفع حاجت کیلئے لے کر گئی اُس کا ہاتھ منہ دھلوایا اُسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا ،ایک طرف کھیلتے ہوئے بچوں کے کپڑے بدلے انہیں بھی کچھ کھانے کو دیا ،برتن دھوئے اور پھر کپڑے سینے کیلئے بیٹھ گئی ۔جمیلہ پڑھی لکھی تھی مگر گھر میں بچوں کو پڑھا نہیں سکتی تھی کیونکہ اُس کیلئے ایک مخصوص وقت نکالنا پڑتا اور ویسے بھی ثاقب کو آرام کی ضرورت تھی وہ اتنے سارے بچوں کا شور برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
جمیلہ کی عمر26سال تھی۔19سال کی عمر میں جب وہ زمیندار چوہدری غلام رسول کے گھر اُس کے اِک لوتے بیٹے ثاقب کی دلہن بن کر آئی تو محلے کی ساری عورتیں اُسے دیکھ کر پتھر کی سی بن گئیں تھی ہر زبان پر بس یہی تھا کہ چاند زمین پر اُتر آیا ہے اور پھر چند ہی دِنوں میں یتیم اور مسکین جمیلہ کے حسن کا تزکرہ تمام علاقے کی خواتین کا اہم موضوع تھا۔شادی کے دوسرے سال ہی باپ بیٹے میں جھگڑا ہو گیا اور چوہدری غلام رسول نے اپنے لخت جگرِ ثاقب کو تمام جائیداد سے بے دخل کر کے حور جیسی بہو سمیت گھر سے نکال دیا اور پھر کبھی پلٹ کر خبر تک نہ لی ۔یہ لوگ کہی دور جا بسے جمیلہ کاخاوند ثاقب ہوزری کی کِسی کمپنی میں پہلے لائن چیکر رہا اور پھر جلد ہی کام سیکھ کرفلیٹ لاک مشین پر آپریٹر کا کام کرنے لگاگھر کا نظام بہت اچھا چل رہا تھا۔ اللہ پاک نے جمیلہ کو پریوں ایسی ایک بیٹی اور چاند سا ایک بیٹا عطا کیا ۔ ایک سال قبل ثاقب پر اچانک فالج کا حملہ ہوا اور اُس کا ایک ہاتھ اور ٹانگ بالکل نکارہ ہوکر رہ گئی رفتہ رفتہ وہ چارپائی کے ساتھ جا لگا۔گھر میں جو جمع پونجی تھی سب اُس کی دوائیوں اور دیکھ بھال میں خرچ ہو چکی تھی۔ مہنگائی دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی مگر آمدنی کچھ نہ تھی بچوں کی تعلیم و تربیت کا خرچ ،بجلی ،پانی، گیس کے بِل ،مکان کا کرایہ ،کچن کے اخراجات،گھر اور بچوں کے ساتھ ساتھ شوہر کی دیکھ بھال مگر آفرین ہے جمیلہ پر کہ کبھی زبان پر شکوہ نہیں لائی ۔ بس جب کبھی حالات سے بہت زیادہ پریشان ہو جاتی تو مجذوب بابا کی چوکھٹ پر پہنچ جاتی اور دِل کا بوجھ ہلکا کر لیتی اور اُسے وہاں سے بھی ہر دفعہ نماز پڑھنے اور صبر سے کام لینے کا درس ہی مِلتا ۔
اُس روز گھر میں کچھ نہ تھا ۔پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا مگر جمیلہ کے پاس کوئی کپڑا سلنے کیلئے نہیں آیا ۔چھوٹا تین سالہ معصوم بیٹا بھوک سے تڑپنے لگا بیٹی چھ برس کی تھی وہ بھی ماں کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور سوال وہی پیٹ کی بھوک کو مٹانے کا تھا۔ثاقب کی دوائیاں ختم ہو چکی تھیں وہ تکلیف سے تڑپ رہا تھا ۔شوہر اور بچوں کی حالت دیکھ کر اُس کا دِل بھر آیا اور آنکھیں نم ہو گئیں اُسے فوراًمجذوب کی بات یاد آئی کہ صرف صبر اور نماز کے ذریعے اللہ پاک کی مدد حاصل ہو سکتی ہے جمیلہ نے فوراً آنسو صاف کر کے وضو کیا دو رکعت نفل ادا کیے دعا مانگ کر فارغ ہوئی تو ذہن میں کچھ خیال پیدا ہوا۔بیٹی جو کچھ سمجھ دار تھی معصوم بیٹے کوروز کی طرح اُس کے حوالے کیا اور بڑی سی چادر اُڑھ کر باہر نکل گئی ۔
جمیلہ اپنے محلے سے نکل کر مین شاہراہ پر جا پہنچی ’’ اللہ کے نام پر بھیا میری کچھ مالی مدد کردیں‘‘ کالی مرسڈیز سے نکلتے ہوئے ایک نوجوان کی جانب جمیلہ نے خالی ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔
نوجوان نے خوبصورت نسوانی آواز سنی تو ٹھٹک کر رک گیا اُس نے سر سے پاؤں تک جمیلہ کے وجود کا طواف کیا اور بولا ’’آپ کو بھیک مانگنے کی کیا ضرورت ہے آپ تو کروڑ پتی ہیں آپ بھکاریوں کی طرح بھیک کیوں مانگ رہی ہیں آپ تو حکم کریں یہ جان بھی حاضر ہے اور یہ گاڑی بھی ‘‘ نوجوان نے اپنا داھنا ہاتھ سینے پر رکھا اور اپنی کار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ایک لمحے کے ہزاروے حصے میں جمیلہ نے زندگی کے سینکڑوں مناظر پر نظر دوڑالی اب اُس کے سامنے ایک جانب دولت تھی اور دوسری جانب بھوک ننگ ۔جمیلہ نے اپنا چہرہ اُٹھا کر انگاروں میں دھکتی آنکھیں اُس نوجوان کے چہرے پر گاڑیں اور بائیں ہاتھ کا ایک زور دار تماچہ اُس کے دائیں گال پر مارا جمیلہ کی پانچوں انگلیاں انگوٹھی سمیت اُس آوارہ بھنورے کی گال پر جم سی گئیں ۔جمیلہ اندر سے ٹوٹ کر رہ گئی پھر بھی زبان پر شکوہ تک نہ آیا ۔جمیلہ سہمی ہوئی آنکھوں میں آنسو جزب کیے واپس گھر پہنچی تو اُس کا سُسرچوہدری غلام رسول اور ساس بلقیس بیگم کئی اقسام کے فروٹ ،کپڑوں اور دیگر اشیاء کے ہمراہ پہلے سے گھر میں اپنے بیٹے کے پاس بیٹھے اپنی غلطی کا اعتراف کر ہے تھے اور کل کے بھوکے بچے موسمی پھلوں کو بڑی رغبت سے کھانے میں مصروف تھے۔ چوہدری غلام رسول نے بیٹے کو گود میں لٹا رکھا تھا جب اُس نے بہو کو گھر کے اندر آتے دیکھا تو فوراً بولا ’’ بیٹی میں بہت شرمندہ ہوں مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے اِس فانی دنیا میں اُولاد سے بڑھ کراور کوئی نعمت نہیں اور اب تم بھی ہماری اُولاد ہی تو ہوجلدی کرو سامان پیک کرو اور واپس اپنے گھر چلو ہم سب کل ہی ثاقب کو علاج کیلئے بیرونِ ملک لے کر جا رہے ہیں ایک اسپیشلسٹ سے میری بات ہو گئی ہے ثاقب اب انشا اللہ چند ہی دِنوں میں اچھا ہو جائے گا ‘‘ سُسر کی بات سُن کر جمیلہ کے چہرے پر مسکراہٹ سج گئی وہ آگے بڑھی اور ساس کے گلے سے لگ گئی جو پہلے سے بانہیں کھولے مجسمہِ حسرت بنی کھڑی تھی۔جمیلہ کے ذہن میں مجذوب کی بات گونجنے لگی ’’امتحان میں سرخروئی کے بعد راحت ہی راحت ۔۔۔ سکون ہی سکون ‘‘۔