فیصل آباد (یو این پی)وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ زرعی ترقی حکومت کی اولین ترجیح ہے زراعت کو نئی جدتوں سے ہمکنار کرتے ہوئے زرعی محقیقین کو کاشتکاروں کے مسائل کا سائنسی بنیادوں پر حل تلاش کرنا ہو گاتاکہ فوڈ سکیورٹی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے دورہ کے دوران وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں کے ساتھ ملاقات میں کیا۔ اس موقع پر فیڈرل سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر اختر نذیر، چیئرمین پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ(پی سی ایس آئی آر) ڈاکٹر سید حسین عابدی، پرووائس چانسلر ڈاکٹر انس سرور قریشی اور تمام ڈینز موجود تھے۔ سید شبلی فراز نے کہا کہ تحقیقات کو لائبریری کی زینت بننے کی بجائے کاشتکاروں کے مسائل کے حل اور زرعی ترقی کے لئے نئی ٹیکنالوجی متعارف کروانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ناقص بیج کی وجہ سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم زرعی یونیورسٹی کا مجوزہ تصدیق شدہ بیج کا منصوبہ اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کے لئے سنگ میل ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت زرعی یونیورسٹی کے پراجیکٹ کو کامیاب بنانے کے لئے بھرپور تعاون کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ برصغیر کی پہلی زرعی درس گاہ ہونے کی حیثیت سے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد بے پناہ خدمات سرانجام دے رہی ہے اور حکومت توقع کرتی ہے کہ زراعت کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے تحقیقات اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے صف اول کی درس گاہ ہونے کا اعزاز قائم رکھے گی۔ انہوں نے کہاکہ زرعی سائنسدانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد لیتے ہوئے جدید رحجانات کی ترویج کے لئے آئی ٹی ایپلی کیشن متعارف کروانی چاہئیں تاکہ کاشتکاروں کو فوری جدید معلومات دستیاب آ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اکیڈیمی، انڈسٹری اور حکومت کو مل کرمشترکہ کاوشیں بروئے کار لاتے ہوئے زرعی ترقی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت موجودہ حالات سے ہم آہنگ اور اپلائیڈ تحقیقات کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جدید رحجانات بشمول ہائیڈروپونک کے متعلق کاشتکاروں میں آگاہی پیدا کرنا ہو گی۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ ملکی سطح پر صرف 30 سے 35فیصد کاشتکار تصدیق شدہ بیج سے مستفید ہو پاتے ہیں اگر تصدیق شدہ بیج کی دستیابی کو زیادہ سے زیادہ کاشتکاروں تک پہنچایا جائے تو اس سے پیداوار میں اضافہ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے تحت زرعی یونیورسٹی میں بیجوں کے متعلق منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کو کم پیداواریت، زمین کی زرخیزی، سکڑتا ہوا زرعی رقبہ، پانی، تصدیق شدہ بیج کی عدم دستیابی سمیت بے بہا مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے مگر بدقسمتی سے ہم ان کا دانشمندانہ استعمال نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ غذائیت کی کمی کی وجہ سے صحت کے مسائل جنم لے رہے ہیں اگر ہم گندم اور مکئی کی آمیزش سے آٹا تیار کریں تو اس سے غذائی معیار میں بھی بہتری آئے گی۔ ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ پاکستان کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 31من ہے جبکہ ترقی پسند کاشتکار 60من تک حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کسان کے پاس وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اسے زرعی مداخل حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے مجموعی طور پر فی ایکڑ پیداوار میں کمی کا مسئلہ لاحق رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھادوں کے متناسب استعمال پیداواریت میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کی معاشی حالت کو بھی بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ ڈاکٹر اختر نذیر نے کہا کہ کاشتکاروں کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں اگر زراعت کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو اس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تخفیف غربت بھی ممکن ہو پائے گی۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنسدانوں کو زراعت کی ترقی کے لئے بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طریقہ کاشت کی وجہ سے ہماری فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہے اگر زرعی سائنسدانوں کی سفارشات پر عمل کیا جائے تو پیداوار میں بڑھوتری کی جا سکے گی۔ ڈاکٹر سید حسین عابدی نے کہا کہ دورحاضر میں تعلیم پر مبنی معیشت کی ترقی کی منازل حاصل کر رہی ہے اس لئے بہترین تحقیقات کے کلچر کو پروان چڑھانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی کو کاشتکاروں تک پہنچانے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔