صحافت پرایک اور حملہ

Published on April 22, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 253)      No Comments

SarGoshyan
ارسطو نے کہا’’ریاست نام ہے آزاد اشخاص پر مشتمل ایک خاندان کا ‘‘ ۔اسی کا نام جمہوریت ہے جو ہمارے ہاں مفقود ہے ۔ہم نے نام تو’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ رکھ دیا لیکن سچ تو یہی ہے کہ یہ خطۂ ارض اسلامی ہے نہ جمہوری ۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں’’ جمہور‘‘ کی آواز کو دبانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کون سی’’ شریعت ‘‘ ہے جو انسانی کھوپڑیوں سے فُٹ بال کھیلنے سے ہی وجود میں آ سکتی ہے ۔ انسانوں کے اِس جنگل ، اِس گلوبل ویلج کا کڑوا سچ تو یہی ہے کہ
اِس دَورِ منور میں سرِ ارض ہے جیسا
اِنسان کو ایسا کبھی خوں خو ار نہ دیکھا
محب الوطن باپ وارث میر کا دبنگ، نڈر اور بیباک بیٹا حامدمیرکراچی میں خون میں نہلا دیا گیا ۔اُس کے جسم میں چھ گولیاں اتار دی گئیں لیکن اُس نے موت کا بھی اُسی دلیری سے مقابلہ کیا جو اُسے وارث میر سے وراثت میں ملی تھی ۔ وہ اب بھی زندہ ہے اور معا لجین کے مطابق خطرے سے باہر۔ مر بھی کیسے سکتا تھا کہ ’’کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر مَر نہیں سکتا ، موت کا وقت تو لکھا ہوا ہے(ال عمران)‘‘۔ حامد میر پر قاتلانہ حملے کی وکلاء ، میڈیا ، سول سوسائٹی صحافیوں ، سیاستدانوں اور حکمرانوں ، سبھی نے بھر پور مذمت کی اور مختلف شہروں میں احتجاج بھی ہوا ۔جنابِ وزیرِ اعظم نے حملہ آوروں کے بارے میں اطلاع دینے والے کے لیے ایک کروڑ روپے انعام اور تحقیقات کے لیے تین رکنی جوڈیشل کمشن بنانے کا اعلان بھی کیا ۔سندھ حکومت نے بھی حملہ آوروں کی اطلاع دینے والے کے لیے پچاس لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ۔ اِن حکومتی اقدامات کی تحسین کے باوجود سوال یہ ہے کہ کیا جوڈیشل کمشن کسی نتیجے پر پہنچ پائے گا اور کیا جوڈیشل کمشن کی رپورٹ منظرِ عا م پر آ پائے گی ؟۔تاریخ تو یہی ہے کہ یہاں ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے ، گواہ مارے جاتے ہیں ، سیاست دانوں کا قتل ہوتا ہے ، علماء کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور کمشن بھی بنتے رہتے ہیں لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کہ ہم تو اُس دیس کے باسی ہیں جہاں دھرتی کی بے دَم مامتا کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ، جہاں ذہنوں میں چھپا زہر اب فضاؤں میں گھلنے لگا ہے ، جہاں صرف زور آور کی چنگھاڑ ہی سنائی دیتی ہے مجبور کی پکار نہیں ۔ جہاں دستِ طلب پر صرف محرومیاں ہی اُگتی ہیں اور کاسۂ امید ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے اور جہاں کسی کو ’’دستانے پہننے کی ضرورت ہی نہیں کہ زور آوروں کے ہاتھ پہ لگا لہو کسی کو دکھائی ہی نہیں دیتا۔
حامد میر پر قاتلانہ حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، کم ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ نڈر اور بے باک صحافی بہت جلد صحت یاب ہو کر اپنی صحافتی ذمہ داریاں سنبھال لے کہ قوم اُسے دیکھنا ، سُننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے لیکن جس طرح حامد میر کے بھائی ، عامر میرنے جذبات کی رو میں بہہ کر الزام تراشیاں شروع کیں، جس انداز سے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ نے اُن الزامات کو اچھالا اور کئی کئی گھنٹوں پر محیط ٹاک شوز میں آئی ایس آئی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ، وہ کسی بھی صورت میں لائقِ تحسین نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ‘‘(المائدہ)۔ہم یہ نہیں کہتے کہ آئی ایس آئی اِس قاتلانہ حملے میں ملوث نہیں۔یقیناََ ہماری ایجنسیوں میں کچھ مُنہ زور اور آمرانہ سوچ رکھنے والے بھی ہونگے کہ طاقت کا نشہ ہی ایسا ہے لیکن اِن ایجنسیوں کی قومی اور ملّی خدمات سے مفربھی ممکن نہیں ۔آئی ایس آئی تو دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے اورامریکہ اور انڈیا کی حکومتوں کا سارا زور ہی آئی ایس آئی پر الزام تراشیوں پر صرف ہوتا ہے ۔اگر ہم بھی ایسے بے باکانہ انداز میں اپنی ایجنسیوں کو موردِ الزام ٹھہرانے لگیں تو گویا ہم نے مخالفین کی باتوں پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ۔اِس کے باوجود بھی آئی ایس آئی کے اربابِ اختیار کو جواب دینا ہو گا کیونکہ عامر میر کے مطابق حامد میر کا تحریری بیان اور ویڈیو موجود ہے جس میں انہوں نے اپنے اوپر کسی بھی حملے کی صورت میں آئی ایس آئی کے چیف جنرل ظہیر الا سلام اور کچھ دیگر اصحاب کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے اِس لیے آئی ایس آئی کو اپنے دامن پر لگے اِس داغ کو دھونا ہی ہو گا اور حاکمانِ وقت کو بھی حضرت عمرؓ کا یہ فرمان یاد رکھنا ہو گا کہ ’’اگر کسی کی وجاہت کے خیال سے قانون کا پلڑا اُس کے حق میں جھک جائے تو اللہ کی بادشاہت اور قیصر و کسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہوا؟‘‘۔
یہ امر اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ہائی پروفائل جرنلسٹ حامد میر اور ایجنسیوں کے مابین تلخی چلی آ رہی تھی اور ایجنسیاں خصوصاََ مسنگ پرسنز کے حوالے سے حامد میر سے نالاں بھی تھیں لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میر صاحب پر حملہ آئی ایس آئی ہی نے کیا ہو ۔یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی تیسری قوت نے حامد میر اور ایجنسیوں کے مابین تلخی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہو ۔جس کسی نے بھی یہ حملہ کیا وہ کامیاب رہا کہ پوری دنیا میں آئی ایس آئی پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں اور خصوصاََ انڈیا اور امریکہ کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تو اس پر دھمالیں ڈال رہا ہے ۔حامد میر پر قاتلانہ حملے سے جتنی بدنامی آئی ایس آئی کی ہوئی اور جس انداز سے ہم نے خود ہی اسے پوری دنیا میں بدنام کر دیا، اُس کی تحسین کیسے کی جا سکتی ہے ؟۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا آئی ایس آئی کو نہیں پتہ تھا کہ حامد میر پر قاتلانہ حملے کی صورت میں اُس پر انگلیاں اٹھیں گی؟۔اگر پتہ تھا تو پھر کیا آئی ایس آئی ایسا احمقانہ اقدام کر سکتی تھی؟۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا پاکستان میں کئی ایسی غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ کام نہیں کر رہے جن کی ذمہ داری ہی پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا اور سول اور ملٹری اداروں کو آپس میں لڑانا ہے؟۔کیا غیر ملکی ایجنسیاں ایسا نہیں کر سکتیں ؟۔کیا طالبان ایسا نہیں کر سکتے ؟۔آج تو طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے حامد میر پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیااور ہم نے اُسے قبول بھی کر لیا حالانکہ ٹویٹر پر پنجابی طالبان نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یہ لکھا کہ حامد میر کو طالبان مخالفت ، ملالہ یوسف زئی کی حمایت اور اُس کے سیکولر نظریات کی سزا دی گئی ہے، لیکن آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ صاحب کے مذمتی بیان کو در خورِ اعتنا ء نہ سمجھا ۔میجر جنرل عاصم باجوہ صاحب نے نہ صرف اِس حملے کی بھرپور مذمت کی بلکہ غیر جانب دار انہ انکوائری کا مطالبہ بھی کیا ۔حقیقت یہی ہے کہ حامد میر پر قاتلانہ حملہ ایسا ہشت پہلو ہے کہ اِس کے صرف کسی ایک پہلو کو مدِ نظر رکھ کر حقائق تک نہیں پہنچا جا سکتا ۔دبنگ حامد میر سے دشمنی کے سلسلے بہت دراز ہیں ۔اُنہیں کراچی میں ٹارگٹ کیا گیا اور کراچی ایسی جگہ ہے جہاں ہر روز ٹارگٹ کلنگ ہوتی ہے ۔صحافیوں کے قتل کے الزامات ایم کیو ایم پر بھی لگتے رہے ہیں اور یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم بھی حامد میر سے نالاں تھی ۔وہ طالبان کی ہِٹ لسٹ پر بھی تھے اور ایجنسیوں سے بھی اُن کے تعلقات بہتر نہیں تھے ۔اِن حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی غیر ملکی ہاتھ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے اُن پر حملہ کروا سکتا ہے ۔یہ کہنا بھی حقائق کے منافی ہے کہ صرف آئی ایس آئی ہی حامد میر کی موومنٹ سے واقف ہو سکتی ہے کیونکہ صرف اسی کے پاس صحافیوں کے فونز ٹیپ کرنے کا سسٹم موجود ہے ۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیا کراچی میں بہت سے علماء ، صحافیوں اور سیاستدانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی آئی ایس آئی ہی ملوث ہے ؟۔کیا ایس ایس پی چوہدری اسلم اور ایکسپریس نیوز کے تین ملازمین کے خون سے بھی آئی ایس آئی نے ہی ہاتھ رنگے؟۔اگر صرف آئی ایس آئی ہی بہت با خبر ہے تو پھر بہت سے حساس مقامات پر ہونے والے حملوں کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟۔حقیقت یہی ہے کہ با خبر اور بھی بہت ہیں اور شاید ہماری ایجنسیوں سے بھی زیادہ با خبر۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

Free WordPress Theme