تحریر۔۔۔ مہرسلطان محمود
مختاریہ گل ودھ گئی اے تے ہن گلاں باہر نکلن لگ پئیاں نیں جہڑی گل دا پہلے پتہ نہی سی لگدا ہن اووی گلاں اکھاں دے سامنے آں،ساڈے ملک دے موجودہ بوسیدہ وفرسودہ سسٹم ویچوں نکلن والی تعفن دی بدبو وی افسراں نوں راہ نہی پا سکی ۔ پنجابی منہ بولی زبان ویچ ایس گل دا تڑکا لان دی وجہ اے بنی اے کہ سندھ سرکارکے ایک پولیس اہلکار نے سب سچ بیان کر دیا ،پولیس کو کیس اخراجات گورنمنٹ خزانے سے ملنے چاہیں، کم تنخواہ میں کیس اخراجات پولیس اہلکار کی ذمہ داری نہیں اور پھر پولیس اہلکاروں پر کرپشن الزام لگانا جائز نہیں،پولیس اہلکار اگر قانون کے تحت کام کرے تواعلیٰ افسران فورا¿ تبادلہ کر دیتے ہیں یا سسپینڈ کر دیتے ہیں۔ پولیس اہلکار نہیں بلکہ اعلی پولیس افسران اس کرپٹ سسٹم کے ذمہ دار ہیں۔ پولیس اہلکاروں سے جبری کام لیا جاتا ہے۔ ایمرجنسی چھٹیاں نہیں دی جاتیں، چھٹیاں کر لو تو حکم عدولی کے الزام میں لاک اپ کر دیا جاتا ہے یا منشی اعلیٰ قسم کی بھاری رشوت کے عوض مصیبت خلاصی کرتا ہے ۔ ہمیشہ نفری کم ہونے کی وجہ پر رونا رویا جاتاہے ہزاروں پولیس اہلکار بھرتی ہوتے ہیںپر ڈیوٹی پر نہیں آتے ہیں۔ راز کھولو تو اپنی نوکری گنوا¶، اصل کرپٹ تو اعلیٰ پولیس افسران ہیں۔ ان اعلیٰ افسران کی باز پرس کرنے والا کون ہے؟۔ زمینوں کا قبضہ ، منشیات کا اڈا ، جوا کا اڈا، شراب کا اڈایاقحبہ خانہ ،پولیس کے اعلی افسران کی منشاءپر ہوتے ہیں۔ پولیس اہلکار کو قانون کے مطابق آزادانہ کام کرنے دیا جائے تو جرائم کی دنیا میںکبھی جرم کرنے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتاہے۔ پولیس سسٹم میں لاقانونیت ،سیاسی جماعتوں، وڈیرہ شاہی، مالداراورکرپٹ لوگوں کی مداخلت سے ہوتی ہے۔ پولیس افسران پولیس کلچر تبدیلی کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانا بند کریں اگر کچھ کرنا ہے تو تھانوں کی گاڑیوں کو فیول پورا کریں، تھانیدار اور باقی موبائلز اپنی جیب سے فیول ڈلواتے ہیں۔آپ 10 لیٹر روزانہ دے کر کہتے ہو کہ 2300 cc گاڑی 24 گھنٹے کام پر مامور رکھو، علاقہ گشت، پولیس انکوائری ، وی آئی پیز موومنٹ، ملزمان کی گرفتاریاں، ملزمان کے گھر پر چھاپے اور گرفتاریاں کرنے کئی کلو میٹر تک چلا¶ تو کیا یہ ممکن ہے دس لیٹر پیٹرول یا ڈیزل روزانہ 24 گھنٹے میں گاڑی چلانے کے لیے کافی ہوگا ؟بھئی آپ بھی کسی دن یہ کامیاب تجربہ کر کے ہمیں عملی نمونہ پیش کریں ۔شراب یا چرس پکڑ کر FIRدرج کر دی تو سمجھو ہو گیا کام ،تھانیدار پھنس گیاکیونکہ دوسرے دن ہی جانا ہو گا۔ فرانزک لیب، کرایہ، خرچہ سب تھانیدار کی جیب سے، آ¶ تو سہی ایک دن ہمارے ساتھ تھانے میں بطور تھانیدار، آپ کو پتہ چلے کہ مسئلہ وردی ہے یا جیب سے ہونے والے اخراجات ۔گاڑیوں کی مرمت تھانیدار کی جیب سے کروانا بند کرو۔تفتیش کے اخراجات تفتیشی افسر کے بنک اکا¶نٹ میں FIR درج ہوتے ہی منتقل ہونے چاہیں، پاکستان بھر میں وہ کون سے فرشتے ہیں جو تفتیشی افسر کے یہ پیسے کھا کر ایماندار کہلواتے ہیں ۔اگر تفتیشی غلطی سے بھی ان پیسوں کی ڈیمانڈ کر لے تو ڈسمس یا پھر نوکری کرنا عذاب۔ تھانیدار کو سرکاری کام کروانے کیلئے جو کلرکوں، ریڈروں اور عدالتی عملے کو پیسے دینے پڑتے ہیں ان کی روک تھام کرو، تمام ادارے تھانیدار کو کھاتے ہیں۔ تھانیدار کو چالان پاس کرانے کیلئے پراسیکیوشن کے عملے کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ پراسیکیوٹر کی ذمہ داری نقائص نکالنے کی بجائے نقائص ٹھیک کرنا لگائی جائے۔پراسیکیوٹر کو تو کبھی کالی بھیڑ نہیں کہا حالانکہ وہ 90 فیصد تھانیداروں سے سینہ تان کے پیسے لیتے ہیں ۔تھانیدار ملزمان کو جیل میں بند کروانے کے لیے جیل لے کر جاتا ہے تو وہاں بھی پیسے دینا پڑتے ہیں۔ جیل حکام کا قبلہ کون درست کرے گا؟ یا پھر جیل حکام کی رشوت کے پیسے بھی برائے مہربانی اپنے سرکاری خزانہ سے دو، جیل حکام کو درست کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے تھانیدار کی نہیں ۔دیگر محکموں کی طرح پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی ٹائمنگ اور چھٹی کیلئے کوئی حقیقی اور مستقل میکنزم بنا¶، ہم بھی توانسان ہیں کوہلو میں چلنے والے بیل نہیں۔اگر آپ کچھ نہیں کر سکتے تو پلیز جتنی نوکری ہم نے کی ہے ہمیں ہمارا حساب دے دو ،کوئی گولڈن ہینڈ شیک دے دو، ہم گھر چلے جاتے ہیں کیونکہ اب آپ ہمیں باعزت طریقہ سے گھر بھی جانے نہیں دیتے۔ 25 سال کی سروس 50 سال میں پوری ہوتی ہے کیونکہ 25سال سروس کر کے دیکھو تو پتہ چلتا 22 سال نور سے بنے ہوئے افسران نے کاٹ لیے ہیں۔اب بس کر دو ،کوئی سسٹم بنا دو، پولیس کیا خاک انصاف کرنے میں مدعی کی مدد کرے گی جو خود انصاف کی تلاش میں ہے۔ذرا اِدھر بھی غور کریں!پاکستان میں محکمہ پولیس کرپشن کی وجہ سے نمبر 1 درجے پر ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ تفصیل کچھ یوں ہے کہ نمبر 1، پولیس کا راشن الا¶نس 681 ماہوار ہے۔ 7روپے یومیہ ہے۔ راشن الا¶نس 10سال سے کسی حکومت نے نہیں بڑھایاہے کیونکہ پولیس کا جوان مٹی کھا کر گزارہ کر لیتا ہے جس میں صبح کا ناشتہ اور 2 ٹائم روٹی دوپہر اور شام کی کھانی ہے اور میس خرچہ دوپہر اور شام صرف روٹی کا 3800 روپے ہے۔نمبر 2 ، پولیس محکمے کا میڈیکل الا¶نس 1500 روپے ماہوار ہے جس میں اپنا اور بیوی بچوں کا پورا مہینہ علاج کرنا ہے۔نمبر 3، ہا¶س رینٹ 1476 روپے ماہوارہے اس میں کرایہ کا گھر لینا ہے۔نمبر 4 ،کنوینس الا¶نس 2856 روپے ہے اپنے موٹر سائیکل پر سارا مہینہ ڈیوٹی پر آنا اور جانا ہے ایمر جنسی اور پولیو ڈیوٹیاں اضافی ہیں۔ نمبر 5، واشنگ الا¶نس 150 روپے جس میں پورا مہینہ کپڑے اور وردی دھلوانی ہے۔نمبر 6، جو موبائل گاڑی تھانے میں چلتی ہے اس کو یومیہ 10لیٹر ڈیزل ڈالا جاتا ہے اور 24 گھنٹے گشت کرنی پڑتی ہے۔ 10لیٹر تیل 8 گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے ۔دوسری گشت والے کسی سے پیسے مانگ کر سرکاری گشت کرتے ہیںپھر تیسری گشت والے بھی دوسری گشت والوں کا طریقہ اپناتے ہیں۔نمبر 7، جو وردی سرکاری ملتی ہے اول تو اُس کا کپڑا انتہائی تھرڈ کلاس ہوتا ہے جو پہلی دفعہ دھوتے ہی ڈس کلر یا خراب ہو جاتا ہے اور وہ چھوٹی یا بڑی ہوتی ہے جو پہنے کے قابل نہیں ہوتی ،وردی کے تمام آئٹم جیب سے لینے پڑتے ہیں وردی، بوٹ ،جراب، جرسی ،ٹوپی، بیلٹ وغیرہ وغیرہ ،اس وردی سے اگر تنخواہ کے ساتھ وردی الا¶نس دیا جاتا تو بہتر ہو گا کیونکہ ٹھیکے پربننے والی وردی ٹھیک نہیں ہے ۔نمبر 8، پولیس والے بچوں کو تعلیم نہیں دے سکتے کیونکہ تنخواہ بہت کم ہے ۔کبھی ارباب اختیار نے پولیس کے الا¶نسز چیک کیے ہیںکہ کس صوبے میں کتنے الا¶نسز مل رہے ہیں۔ کے پی کے میں کانسٹیبل کی تنخواہ 30000 ہزار روپے ہے۔ 30 ہزار روپے ماہوار تنخواہ کے ساتھ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں 202 جوانوں نے شہادت قبول کی لیکن رشوت قبول نہیں کی ۔نمبر 9 ، پولیس والے کے بچے جوان ہو جائیں تو محکمہ بھرتی نہیں کرتا کیونکہ کوٹہ سسٹم محکمہ پولیس میں نہیں ہے ۔پولیس والے کے بچے میرٹ پر بھرتی ہو جائیں تو ٹھیک ہے ورنہ افسران اچھائی نہیں کرتے ۔پولیس والے اپنے بچیوں اور بچوں کی شادی نہیں کر سکتے کیونکہ وسائل کی کمی ہوتی ہے پہلے جوان، پنشن پر چلا جاتا تو بھی بیٹی کی شادی کے لیے جہیز فنڈ سے 30/35 ہزار امداد مل جاتی تھی لیکن اب وہ بھی بندہو گئی ہے اس طرح کوئی ریٹائر پولیس والا فوت ہو تا تو اس کو بریل چارجز ملتے یعنی کہ کفن دفن کے پیسے جو جوان کی تنخواہ سے ہی کاٹ گئے ہوتے ہیں لیکن اب وہ بھی بند ہو گئے ہیں۔نمبر 10، تھانے کا رنگ وروغن بھی اپنی جیب سے ،Fslلیبارٹری منشیات اور اسلحہ کی چیک اپ کے لیے آنے جانے کا خرچہ بھی اپنی جیب سے لیکن پولیس کا جوان اُف تک نہیں کرتا اس کو پتہ ہوتا ہے کہ میری کسی نے نہیں سننی، جو لوگ کرپشن میں پہلے نمبر پر ہیں ان کا سر ے سے کوئی نام ہی نہیں لیتا، جنھوں نے ملک کو لوٹا ہے ان کا کوئی نام نہیں لیتا صرف پولیس محکمہ گناہ گار ہے جو 24 گھنٹے ڈیوٹی کے لیے حاضر رہتے ہیں صرف 30 ہزار روپے کی خاطر وردی والے جان قربان کرتے ہیں۔ اس کرپشن میں محکمہ پولیس کا قصور نہیں ہے قصور حکومت وقت کی غلط پالیسیوں کا ہے۔ محکمہ پولیس ایک ہے لیکن پنجاب اور وفاق پولیس کے جوان کی تنخواہ اور کے پی کے پولیس کے جوان کی تنخواہ میں فرق کیوں ہے یہ فرق ختم کیا جائے، محکمہ پولیس کے جوانوں کو اس مہنگائی کے دورمیںمہنگائی کے تناسب سے وسائل دئیے جائیں اور پاکستان پولیس کی تنخواہ میں 100 فیصد اضافہ کیا جائے تاکہ کرپشن کا ناسورحقیقی معنوں میں ملک میںجڑ سے ختم کیا جائے، اس کے بعد اگر پولیس والے کرپشن کریں تو ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔