تحریر۔۔۔ میر افسر امان
بھارتی مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر کو۵/ اگست۹۱۰۲ء کو بھارت نے سارے مقامی اور بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کو توڑ کر بھارت میں ضم کر لیا۔بھارتی آئین کے مطابق نہ تو کشمیرکی پارلیمنٹ سے رائے لی گئی نہ ہی بھارتی آئین کا خیال رکھا گیا، جس میں دفعہ ۰۷۳/ اور ۵۳/ اے کے ذریعے ریاست جمو ں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن حاصل تھی۔نہ ہی بھارتی آئین میں درج ٹو تھرڈ مجارٹی کو سامنے رکھ کر قانون سازی کی گئی۔ بس ایک ایکٹ کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کو اپنے گورنر کے ایک خط پر داہمی قبضہ کر لیا گیا۔ کشمیریوں نے اس ظلم کے خلاف احتجاج شروع کیا۔بھارت نے لوگوں سزا دینے کے لیے کرفیوں لگا دیا۔یہ دن اور آج جموں و کشمیر میں محاصرے کیسالوں گزر گئے ہیں۔ کشمیری مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔اپنے شہیدوں کو پاکستان کے سرسبز ہلالی جھنڈے میں لپیٹ کر دفن کر رہے ہیں۔جگہ جگہ کریک ڈاؤن اور بستیوں میں محاصروں کے ذریعے سفاک بھارتی فوج اور آر ایس ایس کے غنڈوں کی مخبری کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو ۹ /لاکھ بھارتی سفاک فوج شہید کررہی ہے۔ کیا دنیا میں کہیں بھی ایسا ہوا ہے،جو مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے، جو ہٹلر کی جا نشین دہشت گرد مودی حکومت جوکر رہی ہے؟ مسلسل کرفیو سے زندگی اجیرن بنا دی گئی۔ کشمیری کسی طرح بھی بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ کشمیری پاکستان کی محبت میں اپنا آج پاکستان کے کل کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ کشمیری ہند کے متفقہ تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔وہ پاکستان کی تکمیل چاہتے ہیں۔
تاریخ کشمیر کے واقعات دیکھنے سے معلوم ہو تا کہ ہندو حکام تقسیم ہند کے بعد اسپین کئے تھے۔ وہاں انہوں حالات کا جائزہ لیا کہ جس ملک پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی تھی وہاں سے مسلمانوں کو کس طرح بے دخل کیا گیا تھا۔ اس پر عمل کرتے ہوئے بھارتی حکام نے کشمیریوں کو جموں کے علاقے سے ایک جگہ جمع کیا۔ لاتعداد کشمیری مسلمانوں کو بسوں میں سوار کیااور کہا کہ تمھیں پاکستان کی سرحد تک پہنچادیتے ہیں۔ سادہ لو کشمیری بسوں میں سوار ہوئے کہ پاکستان کی سرحد پہنچ کر آگے پاکستان میں داخل ہو جائیں گے۔ مگر سرحد سے پہلے کہ ایک جگہ انہیں بسوں سے اُتار کر مولی گاجر کی طرح کاٹ دیا۔ ان کی لاشیں ندی میں بہا دیں۔ کشمیر کے ۵ لاکھ مسلمانوں کو راجہ کے دور میں شہید کیا گیا۔۷۴۹۱ء سے لے کر آج تک ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مسلمان شہید کیے گئے۔اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بھارت کے ۵۲ کروڑ مسلمانوں کوآر ایس ایس کے سربراہ نے دھمکی دی ہے کہ ۰۲۰۲ء میں مسلمانوں کو بھارت سے نکال دیا جائے گا یہ وہ ہندو مذہب اختیار کر لیں گے۔
مسلمان ہندوستان میں محمد بن قاسمؒ کے دور سے آباد ہیں۔مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال زاہد حکومت کی ہے۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں امن امان تھا۔ہندوستان ترقی کر رہا تھا۔ مغلوں کے دور میں دنیا کی کل آمدنی کا ۵۲ فی صد حصہ ہندوستان کا تھا۔آج بھارت کا شمار غریب ملکوں میں ہوتا ہے۔ بھارت کی انتہا پسند موددی دہشت گرد حکومت نے پارلیمنٹ میں مردم شماری کا امتیازی قانون پاس کیا ہے۔اس قانون کے خلاف پورے بھارت میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔بھارت کی کئی ریاستوں نے اس بل کو اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے نامنظور کر دیا ہے۔مسلمانوں سے پوچھا جا رہے کہ دستاویزات دکھاؤ کہ کب سے بھارت میں رہائش پذیر ہو۔ جبکہ مسلمان ہندوستان کے ہزار بارہ سو سال سے باشندے ہیں۔ مسلمانوں کی نسلوں کی نسلیں ہندوستان میں آباد ہیں۔ آر ایس ایس کی موجودہ بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں اجنبی بنا رہی ہے۔اس مردم شماری کو پورے ہندوستان نے رد کر دیا ہے۔لیکن بھارت میں قائم دہشت گرد آر ایس ایس حمایت یافتہ بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت نے بھارت میں مسلمانوں کا جینادو بھر کر دیا ہے۔ بھارت کے دوسری مرتبہ منتخب ہونے والے نرنیدر داس موددی آر ایس ایس کے بنیادی رکن ہے۔ ہٹلر کی سوچ، یعنی ہندو قومی برتری کی بنیاد پر قائم آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت کسی دوسری قوم کو بھارت میں دوسرے درجے کی قوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
بھارت کے ۵۲ کروڑ مسلمانوں کو یہ منظورنہیں۔مسلمانوں کو غلام بنانے کے لیے ہٹلر کی جانشین وہی پرانا طریقہ استعمال کر رہے جو براہمن سامراج نے اختیا ر کیا تھا۔برہمنوں نے وسط ایشیا سے آکر ہند پر قبضہ کیا۔ ہندکے قدیم باشندے دراوڑوں کو مار مار کر ذبردستی شودر بنا دیا تھا۔ دراوڑوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا۔پھر ڈرا دھمکا کر ذات پات کی سب سے نیچی قوم شودر بنا دیا گیا تھا۔ہندو برتری قومی کے فلسفہ کے تحت وہ کشمیر سمیت بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی پرتاؤ کرنا چاہتے ہیں۔اس سے بڑھ کر بھارت کے
آئین میں اکھنڈ بھارت کا نظریہ وجود رکھتا ہے۔ اس کے لیے نقشہ بھی تیار ہے۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، برما، نیپال، انڈونیشیا، ملیشیا اور کابل اکھنڈ بھارت کے نقشے میں شامل ہے۔قومی برتری والے ہندو کہتے ہیں قائداعظمؒ نے ہماری گاؤ ماتا کے ٹکڑے کر کے پاکستان بنایا تھا۔ہم نے پاکستان کو توڑ کر بھارت میں شامل کرنا ہے۔ اسی ڈاکڑائین پر عمل کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو قومیت کی بنیاد پر بنگلہ دیش بنایا۔ موددی نے بنگلہ دیش میں اعلانیہ بات کہی تھی۔ اندرا گاندھی نے تاریخی بیان بھی دیا تھا کہ قائد اعظم ؒ کا دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ مسلمانوں سے ایک ہزار ہندوؤں پر حکومت کا بدلہ بھی لیے لیا ہے۔ بھارت کے حکمران کہتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے دو ٹکڑے کیے تھے اب اس کے دس ٹکڑے کریں گے۔موددی نے پاکستان کو سبق سکھانے کے نام پر الیکشن جیتا ہے۔بھارت کا آرمی چیف کہتا کہ حکومت اجازت دے میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کر لوں گا۔پاکستانی حکمرانوں اور عوام، کیا باقی رہ گیا ہے جو ہٹلر کی جا نشین بھارتی حکومت سے آپ سننا چاہتے ہیں؟
کشمیر مسئلہ کا حل کیا ہے؟ اس پر پاکستان کے حکمرانوں نے سوچنا ہے کہ کیا طریقہ اختیارکریں جس سے بھارت کے ڈاکٹرائین کا توڑ ہو سکے۔ عمران خان نے بلا شبہ اقوام متحدہ میں پہلی بار زور دار تقریر کی۔ جس میں اقوام متحدہ اور بڑی حکومتوں کی بے انصافی پر انہیں جنجوڑا۔ہماری بہادر مسلح افواج نے بھارتی ہوائی حملہ کا بھی منہ توڑ جواب بھی دیا۔ مگر بھارت کی اعلانیہ جارحیت کے لیے یہ جواب ہر گز کافی نہیں۔بھارت کو پاکستا ن توڑ کر اپنے ملک میں شامل کرنے کے ڈاکٹرائین کا سخت جواب دینا ضروری ہے۔مگر معلوم ہوا ہے کہ عمران خان حکومت کی سیکورٹی پلان میں بھارت سے سو سال جنگ نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ کشمیریوں کے ساتھ ظلم ہے۔
بھارت کی ہندوتوا کا جواب صرف اور صرف پاکستان کی مدینہ کی جہادی اورفلاحی ریاست ہی دے سکتی ہے۔جب بھارت پاکستان کو ختم کرنے کا اعلانیہ کہہ رہا ہے تو ہمیں بھی اعلانیہ جواب دینا چاہیے۔ہم کئی بار اپنے کالموں میں مقتدر حلقوں سے گزارش کر چکے ہیں۔ اب پھر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے حکمران فوراً پاکستان میں مدینے کی فلاحی جہادی ریاست کا اعلان کر دیں۔کشمیریوں کی عملی مدد کریں۔ کشمیریوں کے ساتھ ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے پاکستان کے عوام مظفر آباد سے چکوٹی تک ہرہفتے مارچ کریں۔ ملک کے کونے کونے سے عوام آزاد کشمیر آ کر کشمیریوں سے یکجہتی مارچ کریں۔ پاکستان کو بچانے کے لیے عوام سے تحصیل لیول پر بیعت لینی چاہیے۔ جب پورے ملک میں بیعت مکمل ہو جائے۔ علماء سے مشاوارت سے پاکستان بچانے کے جہاد فی سبیل اللہ کا مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اعلان کرے۔سفارتی محاذ پر ایک نائب وزیر خارجہ برائے کشمیر مقرر کرے۔ بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈسک بنائے جائیں۔ پوری دنیا میں کشمیری مسئلہ کشمیر کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکومت ان کی ہر طرح سے مدد کرے۔بھارت کے ڈاکٹرائین کی توڑ کے لے ایٹمی اور میزائیل قوت، مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان بھارت کو اعلانیہ کہہ دے کہ”زندہ رہو اور زندہ رہنے دو“ اگر پاکستان نہیں، تو پھر بھارت بھی نہیں۔ اپنے پرانے ڈاکٹرائین پر قائم رہتے ہوئے بھارت پر حملہ نہ کریں۔ مگر جب بھارت پہل کرے تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ہم تاریخ اسلام کے طالب علم ہونے کے ناتے کہتے ہیں کہ بھارت کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہنددؤں کا مایا کی پوجا کرنے اور یہودیوں کی طرح ہزار ہزار سال زندگی کی تمنا رکھنے والا معاشرہ سر نگوں ہو جائے۔ پھر بھارت پاکستان توڑنے کے ڈاکٹرائین سے باز آ جائے گا۔اس کے علاوہ بھارت کے امن پسند دانشور بھارت کو پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ یہی۵ فروری یوم یکجہتی کشمیر کا پیغام ہے۔ کشمیر ی جو اپنا آج پاکستان کے کل کے لیے قربان کر رہیں کو یہی پیغام ہے۔ کشمیرکو آزاد کرانے، پاکستان میں شامل کرنے اور تکمیل پاکستان یہی کا ر گر نسخہ ہے۔ اللہ پاکستان کی مدد فرمائے۔آمین