تحریر۔۔۔ مہر سلطان محمود
چند روزقبل نائب تحصیلدار وسپیشل مجسٹریٹ حافظ محمدجہانگیر نے گراں فروشی پر ایک کھاد ڈیلر کو جرمانہ عائد کیا جو کہ اُن کی ذمہ داری بھی بنتی اور فرض بھی ٹھہرتاتھا ۔جرمانہ کاکیا جانا ہی تھا کہ کچھ ناجائز منافع خورتاجروں میں ایک سراسمیگی پھیل گئی اور وہ اِس عمل سے خاصے ہلکان نظرآئے اور بطورِاحتجاج تمام تر حدود وقیود ،قاعدے کلیے، اخلاقیات کو یکسر بھلائے احتجاج پر اُتر آئے اور اے سی آفس کا ناجائز گھیراﺅ کرلیا ،اِن کے ارادوں سے صاف لگتاتھا کہ آج خیر نہیں ،کچھ نہ کچھ کرہی جائیں گے ،یہ خطرہ بدرجہ اتم موجود تھا کہ کچھ غلط نہ ہوجائے ،ابھی یہ خدشات وتحفظات ذہن و دل میں وسوسہ بنے جگہ پاہی رہے تھے کہ یہ تاجر اے سی آفس میں جاپہنچے اور وہ اُدھم مچایا کہ خدا پناہ ۔اسسٹنٹ کمشنر ماہین فاطمہ آفس میں موجود نہ تھیں کہ اِن کی جگہ پر موجود نائب تحصیلدار حافظ جہانگیر نے تاجروفد سے ملاقات کی ،اُن کی مکمل بات سنی ،اِس پرتاجروں کے سامنے اپنا موقف بھی ٹھیک طرح سے بیان کردیا،اتنا کچھ ہواہی تھا کہ تاجروں کی موجودگی میں ہی ملک غلام محی الدین اجمل نامی تاجرنے بھی آکرنائب تحصیلدار سے انتہائی بدتمیزی سے بولنا شروع کردیا ،اپنے منہ سے جھاگ اُڑتی حالت میں اِنہیں کرپٹ اورنجانے کیا کیا بولا، یہاں تک کہ میز پر پڑاپانی کاگلاس بھی تحصیلدار پر اُچھال دیا ، تاجرملک غلام محی الدین اجمل کے اِس جاہلانہ ورزیلانہ ،مبنی برجہالت و حماقت طرز ِعمل کے سبب دفتری حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ،جواب میں سپیشل مجسٹریٹ سے بھی نہ رہاگیا،اپنے آپ کواِس تاجرکی طرف سے ناحق ”کرپٹ “کہنے پراِس تاجر کو ”دلال“ کہہ بیٹھے ،جس پرمزید گرماگرمی ہوگئی اوربات گالیوں تک جاپہنچی ،جس کا اختتام اسپیشل مجسٹریٹ ونائب تحصیلدارحافظ جہانگیر نے تاجرملک غلام محی الدین اجمل کو ایک تھپڑجڑکے کیا۔ ملک غلام محی الدین اجمل میں اتنی جرات ہے ہی کہاں تھی کہ وہ بھی تھپڑ کے جواب میں تھپڑ دے مارتے۔ اگر ملک غلام محی الدین اجمل میں اتنی ہمت ہوتی تو معاملہ کچھ اور ہی ہوتا ۔افسوس اِس موقع پر جن تاجروں کے لیے یہ ”صاحب “آئے تھے وہ تاجراِس لڑائی کے موقع پر وضو ہی کرتے رہے ،تھپڑ کے جواب میں بالکل بھی اِن” صاحب “کا ساتھ نہ دے سکے اور اِس موقع پر اِن ”صاحب “کے دوستوںکا معاملہ بھی کچھ اِس لطیفے جیسا ہی رہا ”ایک لڑکا سڑک پر بھاگا بھاگا جا رہاتھا، سانس چڑھا ہوا تھا ،کسی نے رُوک کر پوچھا کہ کیا بات ہے یوں بھاگے بھاگے جارہے ہو ،خیریت ہے اور اتنا سانس کیوں پھولا ہواہے تو اُس لڑکے نے کہا کہ پچھلے چوک میں ابا جی کو چھتر پڑرہے ہیں اور میں اپنی عزت بچا کر بھاگ آیا ہوں“ ۔ایسا ہی معاملہ اِس کے دوستوں کا رہا کہ جواب میں کچھ نہ کرسکے، احتجاج احتجاج ہی کھیلتے رہے ،اُوپر سے ستم ظریفی دیکھئے کہ اپنے اُن دوستوں کے ساتھ مل کر”احتجاج گیم“ کھیلتے رہے ،جو ا س سانحہ کے اصل روح رواں تھے ۔اِس تھپڑ کے جواب میں تھپڑ تو دور کی بات، ککھ بھی نہ مارسکے،جہاں تک بات حافظ جہانگیر کے تبادلے کی ہے تو وہ معمول کے کاموں کا حصہ ہوتے ،کسی کا اِس میں کوئی کردار نہیں ہوتا،ایڈمنسٹریٹر کی مرضی پر ہوتاہے کہ وہ جومرضی فیصلہ کرے، کسی کا اِس سے کیا لینا دینا ۔اِس حل شدہ معاملے کو، جس کو ”تاجر اتحاد“ نے بخوبی احسن حل کروادیا تھا مگر بعدازاں اِس میں بگاڑ کا اصل موجب یہی موصوف تاجر ملک غلام محی الدین اجمل ہی بنے ،جو اپنے آپ کو بہت افلاطون چیز سمجھتے ہیں ۔”تاجر اتحاد “کی کروائی گئی صلح کو سبوتاژ کرتے” جناب “اپنا لچ تلنا چاہتے تھے اور انتظامیہ کو اپنے زیر نگیں دیکھنے کے خواہشمند تھے جسے نائب تحصیلداراسپیشل مجسٹریٹ حافظ جہانگیر کے لگائے گئے ایک تھپڑ نے ناکام بنادیا۔تاجرانہ غنڈہ گردی اور منہ زوری کے جواب میں انتظامی عزت و وقار کو مسلسل بحال رکھا جو کہ شہر کوٹ رادھاکشن کی موجودہ فضاءمیں ایک اچھا قدم ہے ۔اِس عمل سے محکمے کا وقار مجروع ہونے سے بچ گیا ،خوامخواہ کی سیاسی مداخلت اورچوہدراہٹ کا بھی سارا کیا کرم ہوگیا اور محکماتی رٹ میں بھی جان پڑی رہی ۔اِسی طرح ایک اور واقعہ جو سرکاری ہسپتال میں ہوا ، میں بھی ایک وکیل شہبازورک جو ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ہدایت ”ماسک پہنو “پر غصے میں آگیا اور پھوں پھوں کرتا ہسپتال سے باہر چلا گیا،بعد ازاں ایک غنڈوں کی ٹیم لیکر ہسپتال میں ڈاکٹر پر حملہ آور ہوا ،جس پر اُس کے خلاف ایف آئی آردرج ہوئی اور اب تک معاملہ چل رہاہے ۔اِس میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی قصور نہیں ،وکیل صاحب کی حد سے بڑھی ہوئی خراب وبدنیت طبیعت کاہی شاخسانہ ہے۔ موصوف اپنے آپ کو نجانے کیا سمجھ بیٹھے تھے کہ اب تک حال و بے حال پھر رہے ہیں۔ یہ معاملہ بھی صریحاََ وکیل صاحب کی ظالمانہ واحمقانہ سوچ کے سبب شدت اختیار کرگیاہے۔وکلاءبرادری نے اِس کیس کو میرٹ پر لیاہے اورسچ کا ساتھ دیاہے جو کہ لائق تحسین عمل ہے ۔ضرورت بھی ہے کہ محکموںاور محکمانہ عزت کو شرپسندوں ،فسادیوں اور خوا مخواہ کے چوہدریوںسے محفوظ رکھا جائے۔اِن واقعات میں حافظ جہانگیر اور ڈاکٹر آصف نے محکمانہ عزت و وقار کو سربلند رکھنے میںہر طرح سے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ایم ایس تحصیل ہیڈ کوارٹرہسپتال ڈاکٹرعدنان مسعود کا کردار بھی اِس میں مثالی رہاہے۔ہسپتال کے معاملات میںاِن کے آنے سے پہلے سے کافی بہتری آئی ہے۔اُلجھاﺅ کم ،کام زیادہ اورمریضوں کے ساتھ تعاون زیادہ کیاجارہاہے۔ ایسے میں اِن دو واقعات میں اے سی تحصیل کوٹ رادھاکشن ماہین فاطمہ کا کردار بھی اِن کی محکمانہ معاملات میں مضبوط اورمبنی برانصاف،ذہانت ودیانت پر مشتمل کارکردگی کاایک منہ بولتا ثبوت ہے ۔ایسے میں اے سی صاحبہ سے گزارش ہے کہ جیسے تاجرکشیدگی کیس میں حافظ جہانگیر اورملک محی الدین اجمل کی صلح کروائی ہے اور ایک صلح جو خاتون آفیسرکا کردار ادا کیاہے اِسی طرح ہسپتال کے معاملہ پر بھی ایک بھرپور نظرڈالتے ہوئے اِس واقعہ میں بھی ڈاکٹر اور وکیل کے درمیان صلح کروانے میں ایک پل کاکردار اداکریں ۔ پر امن شہر اور مضبوط پاکستان کے لئے صلح صفائی کا عمل بے حد ضروری ہے۔ امید ہے کہ اس مسئلے پر بھی ہمدردانہ غور کرتے ہوئے اچھا اوربہترکردار اداکریں گی جو کہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ۔