تحریروتبصرہ:اویس خالد
سید عدید دور حاضرکے اتنے ہی بڑے شاعر ہیں جتنے اگلے زمانوں کے وہ شعرا جن کا کلام کتابوں میں پڑھ پڑھ کر لوگ سوچتے ہیں کہ وہ کیسے انسان ہوں گے اور کہاں بیٹھ کر لکھتے ہوں گے۔ ان کو سننے کے بعد سامعین کا ذوق سخن اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ پھر کسی خاص خاص شاعرکا کلام ہی پسند آتا ہے۔وہ ایسے انداز میں شعر کہہ جاتے ہیں کہ سننے والا اس خیال سے واقفیت کے باوجود ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ اس انداز سے بھی اس خیال کوشعر میں ڈھالا جا سکتا تھا اور ان کے اسلوب نے ایک عام سی بات کولفظوں کا وہ لباس پہنایا ہے کہ اسے ہی اتنا خاص بنا دیا ہے۔ عام طور پر سامعین شعر سن سن کراتنے ماہر ہو جاتے ہیں کہ آدھے مصرعے سے ہی اگلے حصے کا اندازہ لگا لیتے ہیں اور خیال کی سمت دیکھ کرہی قافیہ پہچان لیتے ہیں مگر سید عدید کے حوالے سے کوئی ایسا سوچ ہی نہیں سکتا۔ان کی ادائیگی میں خیالات کا ایسا گھماؤ پایا جاتا ہے جو ان کے سنانے سے پہلے کسی سامع کے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا۔ذرا یہ شعر دیکھیں۔
ہم کو پردیس میں یاد اس کی ستاتی ہے بہت
اور جب لوٹ کے آتے ہیں تو گھر کاٹتے ہیں
اور پھر وہ ہر لفظ کے معانی و مفہوم کے مطابق بر محل استعمال سے بھی اس طرح واقف ہیں کہ اچھے سے اچھا شعر کہنے والا بھی لفظوں کی اتنی باریک واقفیت نہیں رکھتا۔کمال روانی سے ایسے شاندار اور جاندار مطلعے کہتے ہیں کہ پوری غزل پڑھے بغیر کوئی رہ نہیں سکتا۔
چین سے رہنے نہ دیتا تھا یہ ہارا ہوا دل
اس نے مانگا تو کہا میں نے تمھارا ہوا دل
ان کے شعر اردو ادب کی زندگی کے ساتھ ساتھ ہی زندہ رہنے کے لیے تخلیق ہوئے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ ان کے اشعارلوگوں میں زندہ رہنے کا ہنر رکھتے ہیں۔دس سے زائد شعری مجموعوں کے خالق سید عدید ایک استاد شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں۔کئی نئے سیکھنے والوں کے لیے وہ کسی نعمت سے کم نہیں۔اوپر سے مزاج ایسا عاجزانہ ہے کہ کسی طالبِ سخن کو اس فن سے روشناس کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے جیساکہ عام رواج پایا جاتاہے۔میں نے کئی بڑے اور نامور شعرا کو بھی ان سے اصلاح لیتے سنا ہے۔بندہ ناچیز بھی شاعری کے اوزان و بحور سیکھنے میں سید عدید کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے ہوئے ہے۔راقم نے علم تقطیع میں اتنی پکڑ کسی شاعر کی نہیں دیکھی جتنی سید عدید کی ہے۔پھر ان کے تخیل کی بلند پروازی کا تو جواب ہی نہیں۔ان کو پڑھ کرسوچنا مجبوری بن جاتا ہے کہ وہ تخیلات کے کس فلک سے لفظوں کے تارے توڑ کر لاتے ہیں اوراہلِ زمیں کے اذہان کو روشن کرتے ہیں۔ان کے ذہنِ رسا میں خیالات کی جتنی فراوانی پائی جاتی ہے ایسا زرخیز اور روشن دماغ بھی کسی خوش بخت کے ہی حصے میں آتا ہے۔شعر دیکھیے:
جیسے غربت میں مسافر کو مکاں کھینچتا ہے
ایسے اک شخص مرے جسم سے جاں کھینچتا ہے
اہلِ بیت اطہارؑ سے جو انھیں نسبت ہے اس نسبت کا رنگ بھی کیا خوب نظر آتا ہے۔ان کے اشعار میں جہاں نعت آجائے، وہاں بھی اپنی عقیدتوں کا خوب خراج پیش کرتے ہیں اور جہاں منقبت امام عالی مقام ؑوغمِ کربل کا تذکرہ کریں تو بھی ان کے اشعار خود اشکوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غم دوراں ہو یا غم جاناں،ان کے بیان کرنے کاانداز اتنا اچھوتا اور نرالاہے کہ انسان بیان کردہ غم بھول کر لفظوں کی صناعی اور کاری گری میں کھو جاتا ہے۔ اگروہ امید کی بات کریں توان کے اشعارجینے کاوہ حوصلہ فراہم کرتے ہیں کہانسان غم کے آگے ڈٹنے لگتا ہے۔ان کا عشق اتنا معتبر ہے کہ ان کے محبوب سے ایک والہانہ سی عقیدت محسوس ہونے لگتی ہے۔ان کا نیا شعری مجموعہ “محبت وفا نہیں ہوتی”جو حال ہی میں منظر عام پر آ یا ہے اور غالبا ان کا گیارہواں شعری مجموعہ ہے۔میں اس شعری مجموعے سے چن کرکافی اشعار یہاں لکھ سکتا تھا مگر چند ایک کے علاوہ اس لیے نہیں لکھے کہ جو لطف ان کی کتاب کو ہاتھ میں لے کر مکمل انہماک کے ساتھ مکمل غزل پڑھنے میں آئے گا وہ یہاں ایسے آنا مشکل ہے اورمیں کسی قاری کے ذوق سخن کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہتا۔یقینا ان کا یہ شعری مجموعہ اردو ادب کا ایک لازوال سرمایہ ہے۔جو اردو ادب کے ساتھ ساتھ ہمیشہ پرانا ہوتا رہے گا اور اتنا ہی سدا بہار بھی۔ان کی ایک غزل کے مطلع کا مصرعہ ثانی ہے کہ “یعنی وہ شخص ہمارا نہیں ہونے والا”۔اسی ایک مصرع سے بخوبی ان کی پوری غزل کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح ہر غزل کا ہر مصرع بڑا جاندار ہے۔کہیں بھی کسی شعر میں بھی خانہ پوری کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔سید عدید کی تمام شاعری” آمد” کا ایک حسین نظارہ ہے۔عام طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی شاعر کے اِکا دُکا اشعارہی ان کی پہچان ہوتے ہیں اور باقی سارا کلام انہی اشعار کی بنا پر داد بٹورتا رہتا ہے۔لیکن سید عدید کا ایک ایک شعر مقبول و معروف ہونے کے قابل ہے۔ یاد کرنے کے اور دوسروں کو سنانے کے قابل ہے۔میں سید عدید کو ان کے اس انمول اور نایاب شعری مجموعے کی اشاعت پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ وہ اسی طرح آفاق ادب پر ماہِ چہار دہم بن کر چمکتے رہیں۔آمین