غریب انسانوں کی آوازیں بلند ہونے دو ورنہ اِن کی تلواریں بلند ہوں گیں ‘‘اُن چاروں میں سے ایک جِس کا نام اسپائر تھا اُس کے یہی الفاظ تھے ۔جبکہ اینجل نے کہا تھا کہ ’’تم ہمیں مار سکتے ہو مگر ہماری تحریک ختم نہیں کر سکتے ‘‘ اور فیشر جو کہ اِن کا تیسرا ساتھی تھا اُس نے کہا ’’ ہم خوش ہیں کہ ایک اچھے مقصد کیلئے جان دے رہے ہیں ‘‘چوتھے اور آخری ساتھی پوسٹر نے پھانسی کے پھندے کے عین سامنے جو آخری الفاظ منہ سے نکالے وہ یہ تھے ’’ تم اِس آواز کو بند کر سکتے ہو لیکن وقت بتائے گا کہ ہماری خاموشی ہماری آواز سے زیادہ طاقتور ہوگی ‘‘ اور اِن لفظوں نے تاریخ کا حصہ بنتے ہوئے حقیقت کا روپ دھار لیا ۔یہ اپنی جانوں کا نظرانہ پیش نہ کرتے تو آج مزدو ر نہ صرف دِن رات ظلم کی چکی میں پِستابلکہ معاوضہ بھی اپنی محنت سے کئی گناہ کم لے رہا ہوتا ۔
امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں نے 1884ء میں مطالبہ پیش کیا کہ انکے کام کے اوقات کار سولہ گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے کیے جائیں مگر سرمایہ داروں کی جانب سے کوئی مثبت ردِ عمل دیکھنے کو نہیں مِلا اور یہ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا ۔یکم مئی1886ء تک محنت کشوں کا یہ مطالبہ مکمل طور پر ایک تحریک بن چکی تھی اور مزدوروں نے مکمل ہڑتا ل کا اعلان کر دیا ۔تین مئی 1886ء کو پولیس کی جانب سے نہتے محنت کشوں کے احتجاجی مظاہرے پر گولیاں چلائی گئیں جِس کے نتیجے میں متعدد زخمی ، کئی معزور اور چار جاں بحق ہو گئے ۔مگر محنت کشوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے موقف پر ڈٹے پولیس کے تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔پھر پولیس والوں نے سرمایہ داروں کے کہنے پر محنت کشوں کے احتجاجی جلسے پر ایک دستی بم حملہ کیا جِس کے نتیجے میں پولیس والوں کا اپنا ہی ایک پیٹی بند بھائی ہلاک ہو گیا ۔اب پولیس نے مزدوروں پر اِس بم دھماکے کا الزام عائد کرتے ہوئے اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جِس کے نتیجے میں اَن گنت مزدور شہید اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ہوئے ۔سکے والوں نے مزدور تحریک کے لئے شہادت دے کر سرمایہ دار انہ نظام کا انصاف اور بربریت واضع کردی۔اِس کے بعد ایک مقدمہ بنا کر آٹھ مزدور راہنماؤں کو پھانسی کی سزا سنادی گئی حالانکہ اِن کے خلاف کوئی ثبوت نہ تھا کہ وہ اِس واقعے میں ملوث ہیں۔اِن آٹھوں میں سے چار افراد 1۔ڈی فیشر،2۔اینجل،3۔اسپائراور 4۔پوسٹر کو11نومبر1887ء کو تختہ دار سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔ایک نے جیل میں خود کشی کر لی جبکہ باقی تین کو 1893میں معاف کر دیا گیا ۔
اِس واقع کے بعد 1899ء میں فیصلہ کیا گیا کہ مزدوروں کی اِس قربانی کومدِ نظر رکھتے ہوئے یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دِن منایا جا ئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اِس دِن نے پوری دنیا میں بین الاقوامی حیثیت اختیارکر لی ۔اِس جدو جہد کے نتیجے میں دنیا بھر میں محنت کشوں نے آٹھ گھنٹے کے اوقات کا رحاصل کر لیے مگر باوجود اِس کے مزدور طبقے کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور سرمایہ دار کو آج بھی صرف اپنی تجوری بھرنے کی فکر ہے ۔سرمایہ دار یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ مزدور طبقہ ہی تو ہے جِس کی بدولت اُن کی بڑی بڑی ملیں ، کارخانے اور فیکتریاں چل رہی ہیں ۔
کچھ مورخین کی نظر میں یکم مئی کو بین الاقوامی سطح پر منانے کی اہم وجہ کوئی اور ہے ،اور وہ پوشیدہ حقیقت یہ بتاتے ہیں کہ یہ دِن سیکولر یورپی تہذیب میں ’’فلورا ‘‘ نامی یونانی دیوی کی یاد میں منایا جاتا ہے ۔اور یہ دِن یورپی تہذیب میں مزدوروں کے عالمی دِن سے بھی بہت پہلے کا چلتا آرہا ہے۔اور اِس دن کو منانے کی خاص وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یکم مئی کو پھولوں کی دیوی ’’ فلورا‘‘کی شادی ہوا کے دیوتا کے ساتھ ہوئی تھی ۔کہتے ہیں کہ قدم یونان میں مئی کے شروع میں بہار کے میلے کا آغاز بھی کیا جاتا اور اِس میلے کو ’’ فلورا ‘‘ کے نام سے ہی منسوب کیا گیا تھا ۔ یہ میلہ یورپ کے متعدد علاقوں میں آج بھی منایا جاتا ہے ۔ڈاکٹر محمد ساجد خاکوانی کے مطابق مذہب عیسائیت کے لٹریچر میں پھولوں کی اِس ملکہ کو ’’ ملکہ مئی ‘‘ بھی کہا گیا ہے اور یونان کی قدیم کہانیوں میں پھولوں کی اِس دیوی ’’فلورا‘‘ کو ہرکولیس کا دوست بھی بتایا گیا ہے ۔
اصل راز کیا ہے یہ ایک لمبی بحث ہے ۔مگر یہ حقیقت تو سب پر عیاں ہے کہ مئی کے مہینے میں معصوم محنت کش سرمایہ داروں کی انّا اور خودغرضی کی بھینٹ چڑھے۔تشدد کیا گیا، بعد میں انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا ۔ہم سب کو مزدور طبقے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔محنت کش کِسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مزدوروں کے ساتھ مِل کر اُن کا عالمی دن منائیں مگر ہماری سوچ کا پہلو مثبت ہونا چاہیے نہ کہ منفی۔آج بھی حکمراں ،صنعت کار اور سرمایہ دارمزدوروں کی خون پسینے کی کمائی سے محل تعمیر کر رہے ہیں جبکہ محنت کشوں کے پاس سر چھپانے کیلئے چھت اور تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا تک نہیں ۔مزدور دِن رات محنت کے باوجود تنگدستی اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ محنت کشوں کیلئے ایسی پالیسیاں بنائے جِن کے تحت مزدور طبقے کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہو سکے بلکہ وہ بہتر طریقے سے اپنے گھر والوں کے اخراجات بھی اُٹھا سکیں۔
قیامِ پاکستان سے لیکر اب تک چھ لیبر پالیسیاں تشکیل پا چکی ہیں۔ذولفقار علی بھٹو کے دور میں مزدور کی حالت قدرے بہتر ہوئی ،مزدوروں کی بہبود و رہائش کیلئے ورکرز ویلفیئر فنڈز قائم کیا گیا ،لیبر کورٹ قائم کی گئیں تھیں اور مزدوروں کو انتظامیہ میں 20%تک نمائندگی کا موقع دیا گیاتھا۔ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت 1972ء میں بنائی گئی لیبر پالیسی کے علاوہ باقی سب پالیسیاں صرف کاغذی کاروائی تک ہی محدود رہیں اور کِسی پالیسی پر عملدراآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔
سرمایہ دار ، صنعت کار، جاگیر دار اور سیاستدانوں کی طرح مزدور محنت کشوں کے بھی معصوم بچے ہوتے ہیں انہیں بھی پڑھنے اور تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا حق ہے ۔مزدوروں کا لہو نچوڑ کر اپنے محلوں کی راہداریوں میں دیے جلانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سب کچھ یہی رہ جانا ہے سوائے چند گز کفن کے ٹکڑے’ اگر وہ بھی نصیب ہوا تو ‘اور وہ نیک اعمال جو زندگی میں کیے ان کے سوا اور کچھ ساتھ نہیں جانا۔سرمایہ دار ہوس کے پجاریوں کی حالت تو مجھے اُس بھکارن سے بھی بدتر لگ رہی ہے جِس کا سو سال کی عمر میں ابھی حال ہی میں انتقال ہوا۔
یہ خاتون بھکارن اپنے پیچھے دس کروڑ روپے سے زائد کے اثاثے چھوڑ گئی ہے۔ عائشہ نامی یہ خاتون بھکاری پچھلے پچاس سال سے جدہ کی گلیوں میں بھیک مانگ رہی تھی۔ اِس بھکارن نے چار عمارتیں ، زیوارت اورسو نے کے سکوں سمیت ڈالروں میں اثاثے چھوڑے ہیں ۔اِس بھکارن نے اپنی ساری دولت اپنے ہمسایہ جو کہ اِس کا قریبی عزیز بھی تھا کے پاس یہ کہہ کر رکھوا چھوڑی تھی کہ وقت پڑنے پر لے لوں گی مگر وہ وقت کبھی نہ آسکا ۔یہ بات سرمایہ داروں کیلئے لمحہِ فکریہ ہونی چاہے۔ یہ ہوس انسان کو انسان کہاں رہنے دیتی ہے۔پنجاب حکومت کی جانب سے یہ اعلان مسحور کن ہے کہ یکم مئی مزدوروں کے عالمی دِن پر محنت کشوں کے حق میں اہم اعلانات کیے جائیں گے اور مزدوروں کے حق میں نئی پالیسیاں بنائی جائیں گیں۔ کاش مزدوروں کے حق میں ایسے اعلانات کی آواز یکم مئی کو ہر صوبے سے بلند ہوتی سنائی دے ۔کوئی تو ہو جو صرف یہ بات حکمرانوں کے کان میں ڈال دے کہ کرائے کے مکان،نہ آنے والی بجلی اور گیس کے بِل ،کچن کے اخراجات، دو بچوں کی تعلیم و تربیت اور خود میاں، بیوی کا خرچہ آج اِس مہنگائی کے دور میں 25ہزار ماہوار میں بھی مشکل سے چلتا ہے۔ضروریاتِ زندگی کا باقی سامان کپڑا ،جوتی وغیرہ پیسے والوں کی طرح محنت کش کے بچوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔