جرم

Published on April 30, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 487)      No Comments

shahid
تحریر۔۔۔ شاہد شکیل ۔۔۔ جرمنی
پاکستان میں سفاک قاتلوں کو ثبوت ہونے کے باوجود باعزت بَری کر دیا جاتا جب کہ مغربی ممالک میں کوئی کتنا ہی اَثر رُسوخ والا ہو اُسے جُرم ثابِت ہونے پر سزا دی جاتی ہے۔ تازہ رِپورٹ کے مطابق جرمنی کے صوبے بائیرن کی ایک عدالت نے بائیرن کے فُٹ بال کلب ایف سی بائیرن کے پریذیڈنٹ اُولی ہونیس کوساڑھے تین سال کی سزا سنا دی کیوں کہ اُس نے ٹیکس کے معاملات میں خورد بُرد کی اور تمام پیسہ سوئس بنکوں میں ڈال دیا، کافی عرصہ تک عدالتی کارروائی چلتی رہی اور آخرکار عدالت نے جرم ثابت ہونے پر اسے جیل بھیج دیا ، اس سزا کے بارے میں عوام کی ایک ہی رائے تھی کہ وہ کوئی بھی ہو ہم عدالت کے فیصلے کو مانتے ہیں اور کریمینل کو سزا ملنی چاہئے تا کہ دوسرے لوگ عبرت حاصِل کریں۔
جُرم و سزا سے مُماثلت رکھتے چند واقعات پر ایک نظر ۔
۔جنوری کے اوائل میں ایک روسی شرابی نے عین اُس وقت نشے میں غُل غَپاڑہ شروع کیا جب طیارہ بارہ ہزار میٹر کی بلندی پر محو پرواز تھا یہ طیارہ ماسکو سے مصر کے چھٹیاں گزارنے والے ایک شہر کی طرف رواں تھا ، پہلے اس مسافر نے سموکنگ شروع کی جو کہ ممنوع ہے جب فلائٹ کریوز نے منع کیا تو وہ ان سے جھگڑ پڑا اور ایک کو تھپڑ جڑ دیا اسی اثنا میں ایک مسافرنے اسے روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس شرابی نے ایک مکا اس کی ناک پر مارا اور ناک توڑ دی ۔استغاثہ نے ساڑھے آٹھ سال کا مطالبہ کیا لیکن ماسکو کی ایک عدالت نے اس روؤڈی کوچھتیس ماہ کی سزا سنائی ۔
۔دسمبر دوہزار گیا رہ میں جرمنی کے شہر ڈارمسڈیڈٹ کی ایک عدالت نے دو بھائیوں کو تین سال کی سزا اس لئے سنائی کیوں کہ انہوں نے اوکتوبر دو ہزاردس سے مارچ دوہزار گیارہ تک ویڈیو کی دوکان ، ایک سیکنڈ ہینڈ الیکٹرونک سٹور اور ایک لائیبریری میں چوری اور ڈاکے ڈالے ، دونوں بھائیوں کا موقف تھا کہ حکومت ہمیں جوب مہیا نہیں کر سکی ہم وظیفے نہیں لینا چاہتے اور نہ کسی سے بھیک چاہئے ،اس کے برعکس سرکاری وکیل نے ثبوت عدالت میں پیش کئے کہ دونوں بھائی اِن لیگل کام کرتے ہیں اور حکومت سے وظیفہ بھی لیتے ہیں جو کہ ناقابلِ تلافی جرم ہے، جج نے ثبوت دیکھنے کے بعد ان دونوں کی تین سال کی سزا سنادی۔
۔فَالُن گونگ چین میں جسم اور دماغ کی کاشت کے لئے ایک مذہبی تحریک قائم ہے ، لیکن حکومت کی طرف سے ممانعت اور پابندی ہے ۔ ایک لائیبریرین نے تمام مواد جمع کرنے کے بعد اس تحریک کا بذریعہ انٹر نیٹ پرچار شروع کیا بلکہ اس تحریک سے متعلق بروشر بھی پرنٹ کئے جس پر اسے گرفتار کر لیا اور عدالت نے لوگوں کو بھڑکانے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے پر تین سال کی سزا سنائی۔
۔ہیمبرگ میں ایک افغانی نژاد جرمن پر اِلزام عائد کیا گیا کہ وہ دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کا کارکن ہے فردِ جرم کے مطابق ستائیس سالہ افغانی سن دو ہزار کے ابتدا میں مقدس جنگ میں ملوث تھا اور عسکریت پسند اسلامی تحریک اور القاعدہ کے لئے پاکستان جا کر تربیت حاصل کی ۔ بلغاریہ پرواز کرتے وقت اسے گرفتار کیا گیا اور ساڑھے تین سال کی سزا ہوئی ۔
۔جرمنی کے شہر آخن میں ایک چوبیس سالہ نوجوان پر الزام تھا کہ وہ کھیل کے میدان میں منشیات فروخت کرتا تھا ، اس پر چار سو سے زائد مقدمات درج ہیں ، اس کے گاہک چودہ سے اٹھارہ سال کے بچے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ڈیلر پہلے سے سزا یافتہ ہے اس بار جج کو رحم نہیں آیا اور اسے چار سا ل کی سزا ٹھوک دی ۔
۔اولی ہونیس کی طرح ہمسایہ ملک آسٹریا میں ایک سنسنی خیز مقدمے کی سماعت ہوئی جس میں یورپین پارلیمنٹ کے ایک سابقہ ممبر کو رشوت اور ٹیکس چوری کے الزام میں ساڑھے تین سال کی سزا سنائی گئی ، لیکن وہ اس سزا کے خلاف ویانا کی علاقائی فوجداری عدالت میں اپیل کریں گے ۔
۔دادی اور نانی کی عمروں والی عورتوں کے ہینڈ بیگ چھین کر فرار ہونے والے کو تین سال کی سزا دی گئی رپورٹ کے مطابق ایک آدمی سابقہ ایسٹ جرمنی کے شہر ہالے میں چودہ مرتبہ ستر اور پچاسی سال کی درمیانی عمروں والی بوڑھی عورتوں سے بیگ چھین کر فرار ہوا یہ چھینا جھپٹی وہ دوہزار سات سے کر رہا تھا ایک بار بیگ چھیننے کی کوشش میں ایک عورت کی انگلی بھی توڑ ڈالی ۔ جج نے اس کی تمام رحم کی اپیلیں رد کیں اور تین سال کے لئے جیل بھیج دیا ۔
۔ایک ڈوکٹر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خواتین کی عریاں تصاویر اس وقت بنائے جب وہ اس کے پاس علاج کی غرض سے آئیں ۔ گائکانولجسٹ نے دوہزار تیرہ میں ہزاروں کی تعداد میں اپنی مریض کواتین کی تصاویر بنائیں اور انہیں خبر نہ ہوئی ، ڈوکٹر پر الزام ہے کہ اس نے چودہ سو سے زائد خواتین کی تصاویر اس وقت ایک سپائی کیمرے سے بنائیں جب وہ انہیں خاص موقع پر چیک کرتا تھا۔ڈوکٹر کی اسسٹنٹ کو علم ہوتے ہی پولیس کو فون کیا اور انہوں نے تمام تصاویر اور کیمرا قبضے میں لینے ،دیگر ثبوت اور شواہد عدالت میں پیش کئے جس پر عدالت نے اسے تین سال کی سزا سنائی ۔
ابتدا میں تحریر کیا ہے کہ پاکستان میں چھوٹے موٹے جرائم کو از سرِ نو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا حتیٰ کہ سفاک قاتل کو بھی رشوت اور کرپشن کے بل بوتے پر باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھلے عریانیت ، فحاشی اور ان گنت جرائم کی بھر مار ہے لیکن قانون کی اجارہ داری بھی ہے بڑے سے بڑا طرم خان بھی جرم میں ملوث پایا جائے تو اسے بھی جیل کی ہوا کھانا پڑتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان میں کب ایسا قانون لاگو ہو گا اور کب اس پر عمل درامد بھی کیا جائے گا ۔ کہ ۔ قانون قانون ہوتا ہے وہ کسی کی جاگیر یا ملکیت نہیں کہ جو جب جی چاہے اسے اپنی مرضی سے استعمال کرے ۔
کسی سیاست دان ، فوجی ، یا پولیس والے کو سزا دینا کافی نہیں بلکہ ایک عام انسان کو انصاف کی اشد ضرورت ہے ناکہ وہ نا کردہ گناہ کی پاداش میں تمام عمر جیل میں سڑے یا پھانسی کی سزا پائے اور ثبوت
ہونے کے باوجود قاتل کو باعزت بری کیا جائے تاکہ وہ اپنا پسندیدہ پروفیشن جاری رکھ سکے ۔۔۔؟

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题