سولہ سے آٹھ تک کا سفر

Published on April 30, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 515)      No Comments

Junaid
تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کرسکتے ہیں پر ہماری آوازیں نہیں دبا سکتے‘‘ یہ وہ جملہ ہے جو 1886میں شکاگو میں شہید ہونے والے مزدوروں کے رہنماؤں کے ہیں جنہوں نے مزدوروں کے مطالبات کے دوران جاری احتجاج میں جام شہادت نوش کیا اور ایک تاریخ رقم کردی ۔جسے دنیا آج میں سنہری لفظوں میں یاد کرتی نظر آتی ہے
مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر اگر چہ ملک بھر میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے جبکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں محنت کشوں کے مسائل کو اجاگرکرنے کے لئے مختلف تقاریب‘سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں ۔ لیکن اس دن کی عفایت سے نا آشنانہ پاکستان کا مزدور طبقہ اس دن بھی روز گار کا متلاشی نظر آتا ہے ‘اور یہ مزدور سڑک کنارے اپنے اوزاروں سمیت کسی مسیحا ں کی تلاش میں بیٹھے رہتے ہیں ۔1886میں امریکہ کے شہرشکاگو میں مزدوروں نے اپنے حقوق کیلئے ایک شاندار مظاہرہ کرکے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبزول کروائی۔ یہی وجہ ہے پاکستان سمیت دنیا بھر میںیکم مئی مزدوروں کے عالمی دن مناسبت سے منایاجاتا ہے۔ پاکستان کے عالاوہ دنیا بھر میں اس دن کو مزدوروں کی جانب سے انتہائی قومی جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے ۔مزدروں کا خیال ہے کہ یکم مئی کی افادیت اپنی جگہ پر!
لیکن روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کیلئے یہ دن کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا ۔سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں اسی سلسلے میں کچھ مزدوروں سے گفتگو کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ دن ان لوگوں کیلئے معنٰی خیز ہے جن کی آمدنی اچھی ہو حکومت کی جانب سے کی جانے والی یکم مئی کی چھٹی بھی یہی لوگ اپنی فیملی کے ہمراہ وقت دیکرگزارتے ہیں ۔ پاکستانمیں مختلف تنظیموں احتجاجی مظاہرے کئے جاتے ہیں جب کہ ایوان میں موجود اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مزدوروں کی تنخواہوں میں آضافے کیلئیبل پیش کئے جاتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے اور آٹے میں نمک برابر تنخواہوں میں آضافہ بھی کیا جاتا ہے ۔اور ہر حسب سابق ہر بجٹ میں مزدوروں کی تنخواہوں میں 1000روپے اضافہ کیا جاتا ہے ۔
لیکن حکومتی اعلان سے ناخوش مزدروں کا کہناتھا کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ تنخواہ ایک سہنا سپنا سا لگتا ہے۔حکومت تنخواہ میں اضافہ کے اعلان کرکے اپنی ذمہ داری پوری سمجھتی ہے جبکہ ان پر عمل درآمد کروانا حکومت اپنا فرض نہیں سمجھتی !
مزدروں کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی کو دیکھ کر ہماری تنخواہوں میں آضافہ کرے بلکہ ان پر عملد آمد بھی کروائے ۔2012میں اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے مزدوروں کی تنخواہوں میں 1000روپے اضافے کا اعلان کیا تھا ۔ اعلان کے بعد مزدروں کی تنخواہیں 8000سے 9000تک پہنچ گئی ۔ مگر ہی اعلان اعلان ہی رہا اور اب بھی حیدرآباد میں مختلف جگہوں پر کام کرتے مزدورو کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ 7سے 6ہزار اور کم از تنخواہ3سے4ہزار دی جارہی ہے ۔جو کہ حکومتی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔
یکم مئی کے حوالے سے دنیا میں بڑے بڑی اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں لاکھوں کی تعداد میں مزدرو طبقہ شرکت کرتا ہے ۔
پاکستان میں ‘پی آئی اے ‘پورٹ ورکر ز ‘ینگ ڈاکٹرز ‘ہیلتھ ورکز ‘واپڈا‘ یونیورسٹیز ‘کالجز ااور اسکول کے اساتذہ کی تحریکیں موجودہ نظام کی مہنگائی ‘برطرفیوں اور نجکاری کے خلاف ہیں ‘حکمران طبقہ پھر بھی ہی ثابت کررہے ہیں کہ سرمایہ داری کا کوئی متبادل نہیں ۔محنت کشوں کے ساتھ طلبہ ‘نوجوان‘ہاری اور کسان یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ اس نظام میں کوئی مستقبل ہے ۔محنت کش عوام چاہتے ہیں کہ مزدرو طبقے کی اپنی جدوجہد سے ہی ممکن ہے جس کے پاس صلاحیت موجود ہے کہ وہ سماج کو تبدیل کرسکے کیونکہ سماج کی ترقی اور پیداوار کا انحصار محنت کش طبقے کی محنت پر انحصار کرتا ہے ۔آ ج دنیا میں جس شدت سے اس بحران کا شکار ہے پہلے کبھی نہ تھیں۔یہ صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ محنت کش طبقے کی عالمی سوشلسٹ انقلاب پارٹی تعمیر کی جائے تاکہ آزاد منڈی کے نظام کو شکست دیکرمحنت کش عوام کے جمہوری کنٹرول پر مشتمل منصوبہ بندی معیشت قائم کی جائے ۔جہاں اشیاء منافع کے بجائے انسانی ضرورت کیلئے بنائی جاسکیں۔
یاد رہے کہ! 1884کو امریکہ کے شہر شکاگومیں مزدوروں نے مطالبہ پیش کیاکہ انکے اوقات کار سولہ گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے کیے جائیں،مطالبہ مستردہونے کے بعد انہوں نے ہڑتال کا فیصلہ کیا،دوسال کی قلیل مدت میں یکم مئی 1886تک یہ تحریک اپنا مکمل زور پکڑچکی تھی۔تین مئی کو مقامی پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور چار مزدورہلاک ہوگئے جبکہ بہت سے زخمی بھی ہوئے۔اس واقعے کے بعد پولیس نے موقف اختیارکیاکہ مظاہرین کی طرف سے ایک دستی بم پھینکا گیاتھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس والا ہلاک ہو گیااور ایک مقدمہ بناکر آٹھ مزدور رہنماؤں کو پھانسی کی سزا سنادی گئی،جن میں سے چارافرادکو11نومبر1887کو پھانسی دے دی گئی ،ایک نے جیل میں خود کشی کر لی اور بقایا تین کو 1893میں معاف کر دیاگیا۔اس وقوع کے بعد 1899میں فیصلہ کیاگیاکہ ان ہلاک شدگان کی یاد کے طور پر ہر سال یکم مئی عالمی مزدوروں کے دن کے حوالے سے منایا جائے گا۔بہت جلد یہ دن پوری دنیامیں ایک بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گیا۔اور اسی وجہ سے یکم مئی مزدروں کے عالمی دن کے موقع پر منایا جاتا ہے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog