تحریر۔۔ شیر افضل ملک
کتاب کی قدر و منزلت اور اہمیت و افادیت کبھی بھی کم نہیں ہو سکتی کیونکہ کتابیں علوم کے ذخائر ہیں اور علوم کے متلاشی ہمیشہ ان ذخائر کی تلاش میں محو جستجو رہتے ہیں۔ کتاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ کتاب کو کبھی مٹی کی تختیوں،پیپرس کے رول،ہڈیاں چمڑے یا جھلی کاغذ اور آ خر میں الیکڑانک فارمیٹ ای بکس میں لکھا گیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کتاب کی اہمیت اس وقت بھی کم نہ تھی جب کاغذ موجود نہ تھا۔ لہذا دور حاضر میں جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت کتاب کی چھپائی صرف کاغذ پر منحصر نہیں رہی بلکہ اب کتاب کوایک بک کرئیٹر انٹرنیٹ اور بک ریڈر کینڈل ڈیوائس کے ذریعے ڈیجیٹل فارمیٹ میں پڑھا جا سکتا ہے۔ لجدید ٹیکنالوجی نے علم کے ان خزانوں تک رسائی آسان سے آسان تر بنا دی ہے اور کتب کو گلوبل ویلیج سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ای بکس کا سمندر پیش کردیا ہے جس کی بدولت علم کے پیاسے کماحقہ سیراب ہوسکتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ جب کوئی شخص 10 کتابیں پڑھ لیتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ 10ہزار میل کا سفر طے کر لیتا ہے۔ائونس گیلیوس کہتے ہیں کتابیں خاموش استاد ہیں۔ فرانس کافکا کہتے ہیں کہ ایک کمرہ بغیر کتاب کے ایسا ہی ہے جیسے ایک جسم روح کے بغیر۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کرتا تو تیسرے دن اسکی گفتگو میں وہ لذت اور شیرینی باقی یعنی اس کا انداز تکلم تبدیل ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ کتاب کے مطالعہ سے ہمیں ٹھوس دلائل سے بات کرنے کا سلیقہ و طریقہ آ جاتاہے۔ دُنیا کے تقریباََ 100سے زائد ممالک میں 23اپریل کو کتاب کا عالمی دن اور حقوق ملکیت دانش کا دن منایا جاتا ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں یہ دن 4مارچ کو منایا جاتا ہے ۔کتابوں کے عالمی دن کا آغاز سپین میں 1616ءمیںہوا۔سپین کے شمال مشرق کے علاقہ کیٹو لینیا ہےاوراسکادار الحکومت بارسلونا داستانی شہر ہے اس میں ہر سال 23اپریل سے 25اپریل تک لوگ اپنی عزیز خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھُول پیش کرتے تھے اور اس کے جواب میں خواتین کتابیں پیش کرتی تھیں۔اس دوران جگہ جگہ مشہورناول ڈان کیہوٹی کے حصے ،شیکسپئر کے ڈرامے اوردوسرے مصنفین کی کتابوں کے ڈرامے پڑھے جاتے تھے۔ڈان کیہوٹی کے حصے عرصہ 1616ءسے ہی ملتا ہےاور یہ سلسلہ ڈان کیہوٹی کےمصنف میگوئیل سروا نیس کے انتقال سے ہی شروع ہوا۔اسی سال اسی تاریخ کو شیکسپئر اور بیروکے ناول نگار او رشاعر گاسلاسوڈالا ویگا کا بھی انتقال ہوا اور اس میں کچھ اور ادیبوں کے یوم پیدائش اور انتقال کو بھی شامل کر لیا گیا۔جس میں“لولیتا” کے مصنف نویو کوف بھی شامل ہیں۔شیکسپئر کے ڈرامے اور دوسرے مصنفین کے ڈرامے سنائے جاتے تھے اور رفتہ رفتہ یہ روایت دوسرے ممالک میں پھیلتی گئیں۔ اس میں ایک اضافہ کیا گیاکہ رواں صد ی کے آغاز سے کسی ایک شہر کو کتابوں کاعالمی دارالحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ابتداءمیں میڈرڈ تھااورپھر بالترتیب سکندریہ،نئی دہلی،مونٹر یال،ٹورن،بگوٹہ،ایمسٹرڈم اور بیروت دارلحکومت قرار دیئے گئے۔برطانیہ میں اس دن کے لیے مارچ کی پہلی جمعرات کا انتخاب کیا گیا اور اسے سکولوں کے بچوں میں کتابیں خریدنےکی عاد ت کو فروغ دیا گیا۔ایک دور تھاجب اندلس اور بخارا،علم وادب کی تہذیب کے مرکز تھے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں عظیم سائنسدان پیدا کیے اور دُنیا پر حکومت کی لیکن جب ہم نے کتاب سے رُخ موڑا اور ہماری کتابوں سے یورپ نے ترجمے کروا کر علم حاصل کیا تو ہم پستی میں چلے گئے اور اب ہم یورپ کے تعلیمی غلام ہیں۔ہرچھپنے والی اچھی کتُب سائنسی و فنی علوم یورپ اور امریکہ سے ہی پرنٹ ہوتی ہے اور ہم خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔شاید اسی موقع کے لیے حکیم الامت علا مہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا۔مگر وہ علم کے موتی ،کتابیں اپنے آباءکی جو دیکھیں اِن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا۔کتاب کا تعلق انسان سے کافی پُرانا ہے کتاب نہ صرف انسان کی بہترین دوست ہے بلکہ یہ انسان کے علم وہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہے۔انسانی زندگی کتاب کے بغیر ادھوری ہے کیونکہ کتاب اسی وقت چھپ گئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ سے بذریعہ وحی فرمایا تھا اَقراء بسم ربک الذی خلق پڑھ اللہ کے نام سے اور اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے تمام علوم کو اس میں سمودیا ۔تمام دُنیاوی کتابیں اور علوم اس قرآن مجید کا جزو ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انسان کی زندگی میں اس کتاب کی وجہ سے مذہبی، معاشرتی، اخلاقی انقلاب برپا ہوا۔یہ وہ کتاب ہے جو سمجھے بغیر دُنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اورچھاپی جاتی ہے۔سب سے بڑی بات کہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے قیامت تک اس میں ردوبدل نہیں ہو سکتی اور میں یہاں لائبریرین کو بھی خوش نصیب ہی کہوں گا کیونکہ لائبریرین بھی اس کتاب کا بھی محافظ ہے۔کتاب کا عالمی دن منانے کا مقصد معاشرہ میں اس کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہے۔پاکستان میں اس دن پر نہ صرف معلوماتی سیمنار منعقد کروانے کی اشد ضرورت ہے بلکہ اسے حکومتی سطح اور نجی سطح پر عوام میں کتاب پڑھنے کے شعور کو بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے اندر ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسرے کتاب کے مطالعہ کو انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی کافی نقصان اُٹھانا پڑاہے۔لیکن اس کے باوجود لائبریری میں کتاب پڑھنے والوں کی تعداد کم نہ ہوئی ۔قائداعظم لائبریری پاکستان کے دل لاہور میں واقع ہے جسے کتابوں کا وائیٹ ہاوس بھی کہا جاتا ہے ۔اپنے خوبصورت ماحول اور بہترین خدمات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اور اس میں کتاب دوست اتنے لوگ آتے ہیں کہ اتنی بڑی عمارت ہونے کے باوجود قارئین کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ڈاکٹر عائشہ سعید ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب کی خصوصی کاوش سے قارئین کے لیے آن کی دلچسپی اور ضروریات کے مطابق لائبریری کے لیے خریدیں یہی وجہ ہے ہے کہ آپ اگر قائد اعظم لائبریری لاہور کا وزٹ کریں تو صوبہ سندھ،بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پورے پنجاب سے قارئین موجود ملیں گے اور بعض اوقات تو لائبریری میں قارئین کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔قائداعظم لائبریری کی ایک خاصیت ہے کہ یہ ایک ریسرچ اینڈ ریفرنس لائبریری ہونے کے ساتھ ساتھ پبلک لائبریری ہونے کا درجہ بھی رکھتی ہے اپنی خوبصورت بلڈنگ کے ساتھ ایک خوبصورت پارک باغ ِ جناح میں واقع ہے جہاں ہر وقت پھُولوں کی خوشبو کے ساتھ کتابوں کی خوشبو کے ساتھ بھی دمکتی رہتی ہے۔پاکستان کی واحد یہ لائبریری ہے جس میں سی۔ایس۔ایس اور پی ۔سی ۔ایس کی کتابیں ہر وقت ملتی ہے کیونکہ اس لائبریری سے کتابیں ایشو نہیں ہوتیں۔اگر پاکستان کے اندر خاص طور پر کتاب کی انڈسٹری کو مراعات دی جائیںاور کاغذ کو سستا کرنے اور پبلشرز اور مصنف کی حوصلہ افزائی کی جائے تو کتاب سے دوستی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور ہندوستان ایک ساتھ ہی آزاد ہوئے لیکن ہندوستان میں کتاب کی صنعت کو خاص اہمیت دی گئی اور یہی وجہ ہے کہ وہاں دُنیا کے بڑے پبلشرز کے سب آفسز ہیں اور ہندوستان کے پبلشرز نے اُن سے کتاب کے پرنٹ کرنے حقوق لیے ہوئے ہیں اور وہاں کتاب پرنٹ ہوتی اس سے ہندوستان کے پڑھنے والوں کو بھی کتاب آسانی سے کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہے بلکہ وہ اس سے باہر کے خاص کر ایشیائی ممالک سے اچھا خاصا زرمبادلہ بھی کماتے ہیں۔یہ کام پاکستان میں بھی کیا جا سکتا ہے پاکستان نیشنل بُک فاونڈیشن اور پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن یہ کام کرسکتیں ہیں۔ایک دور میں کچھ کام ہوا بھی ہے لیکن اُسکا تسلسل برقرار نہیں رہ سکا۔ہندوستان میں پبلک لائبریریز سسٹم بھی موجود ہے یعنی انڈیا نے 1948 ء میں پبلک لائبریری ایکٹ پاس کر لیا گیا تھا اور اس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے۔لیکن پاکستان ابھی تک ایسا کرنے سے قاصر ہے۔ایک سروے کے مطابق صرف پنجاب کے اندر تقریباََ 300 سے زیادہ پبلک لائبریریز موجود ہیں لیکن وہ کسی ایک باڈی کے زیر سایہ کام نہیں کر رہی ہیں ۔کچھ لائبریریز ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز پنجاب کے زیر سایہ کام کر رہی ہیں اور کچھ لائبریریز اٹانومس باڈی کے تحت اور کچھ پنجاب سپورٹس بورڈ کے زیرسایہ، کچھ میونسپل کارپوریشن کے زیر سایہ کام کررہی ہیں۔حالانکہ پنجاب میں ارکائیوز اینڈ لائبریریز ڈیپارٹمنٹ موجود ہے اگر ان تمام پبلک لائبریریز کو ڈیپارٹمنٹ آف لائبریریز اینڈ آرکائیوز کے زیر سایہ کر دیا جائے تو ان لائبریریز کی سروسز کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ان سب لائبریریز کو ایک صوبائی لیول کی باڈی کے زیر سائیہ ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ پنجاب کے اندر پنجاب لائبریری فاونڈیشن کی موجودگی بھی کتابوں کی کمی کو دوُر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔اگرپنجاب لائبریری فاونڈیشن پبلشرز ،بک سیلرز اورمصنفین کی مالی معاونت آسان قرضہ جات کی صورت میں کریں تو پاکستانی معاشرہ بھی کتاب دوست بن سکتاہے۔پاکستانی معاشرہ کو کتاب دوست بنانے میں معاشر ہ کے ہر فردکواپنا کلیدی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرپاکستانی معاشرہ کوکتاب دوست کیسے بنایا جائے اس کے لیے چند تجاویز ملاحظہ فرمائیں۔معاشرہ کے اندر خاص طور پر ہماری قوم کے معمار میری مُراداَساتذہ۔ کرام ہیں۔اگر سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلباءو طالبات کونصابی کُتب کے ساتھ ساتھ کم از کم ہفتہ میں دو دفعہ کوئی ایسی آسائنمنٹ دیں جس کے لیے طلباءکو ہر حال میں لائبریری کارُخ کرنا پڑے اس سے ان کے نالج میں بھی اضافہ ہوگا اور لائبریری اورکتاب سے جُڑے رہنے کا بھی موقع ملے گا۔اس کے علاوہ کتاب دوستی اور کتاب دوست معاشرہ بنانے میں خاص کر پبلک لائبریری کے لائبریرین کابہت بڑ ا کردار ہے۔پبلک لائبریری ایک ایسی لائبریری ہوتی ہے جس میں ہرمکتبہ فکر اور ہر عمر کے قارئیں آتے ہیں۔ پبلک لائبریری کا لائبریرین اُ نکے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوتا ہے۔لائبریرین اگر سکول کے بچوں کومختلف ادوار میں لائبریری میں مدعو کرے اور اُنکی دلچسپی کے مضامین اور معلوماتی ویڈیو دیکھائے اس طرح بچے سکول کے اوقات کار کے بعد بھی اپنے والدین کے ساتھ لائبریری میں آئیں گے اور اسطرح بچے اپنی سکول کی زندگی سے ہی کتاب سے دوستی کرنے کے عادی بن جائیں گے۔اور اگر لائبریری کے مضمون کو نرسری سے سلیبس(نصاب) کا حصہ بنادیا جائےتو بچوں کے اندر لائبریری اور کتاب دوستی کا شعور پیدا کیا جا سکتا ہے تیسرا کردار گورنمنٹ آف پنجاب کا بھی ہے کہ فوری طور پر گورنمنٹ آف پنجاب کے سکول،میں ہزاروں لائبریرین کی خالی آسامیاں بذریعہ پبلک سروس کمیشن بھرتی کی جائیں تاکہ سکول کی لائبریریز آباد ہوں۔ماضی قریب میں تمام مضامین کے ٹیچرز پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے لیکن بدقسمتی سے سکول لائبریرین کی آسامی کوپبلک سروس کمیشن کے ذریعے ابھی تک بھرتی نہیں کیا گیا۔جس سکول ،کالج کی لائبریریز میں پروفیشنل لائبریرین ہی نہیں ہوگا تو وہاں ہم بچوں کو کتاب دوست کیسے بنا سکتے ہیں۔اور آخر میں آج کل میڈیا کا دور دورہ ہے اور اس سلسلے میں میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے میڈیا میں جہاں رات دن مختلف معلومات خبروں کو صورت میں ڈرامہ کی صورت میں یا دستاویزی فلم کی صورت میں دیکھائی جارہی ہیں اگر ایک پروگرام خاص کر بچوں کے حوالے سے کتاب دوستی اور لائبریری کے تعارف کے بارے میں بھی شروع ہونا چاہیے اور اس سے بچوں کے کوئز مقابلے مختلف ڈے پر کروانے چاہیے اورانعامات کی صورت میں اُنکی حوصلہ افزائی کی جائے اس سے بھی معاشرہ میں کتاب دوستی میں انقلاب برپا ہوسکتاہے۔ پچھلے دو سالوں میں پاکستان کے اندر کتاب کا عالمی دن کورنا کے باعث صرف آن لائن ویبینار کے ذریعے منایا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس دفعہ پاکستان کے مختلف شہروں میں کتاب کے عالمی دن کے موقع پر کتاب دوست قارئین کے لیے تقریباًت ہو رہی ہیں ۔ چغتائی پبلک لائبریری میں کتاب کے عالمی دن کے موقع پر علم دوست شخصیات کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا جارہاہے ۔