تحریر:صفدر علی خاں
نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اچھی سوچ رکھنے والوں کے چہرے پر تازگی اور انکے جسم تندرست و توانا رہتے ہیں یعنی خوبصوت سوچ رکھنے والے ہرلحاظ سے فٹ رہتے ہیں ،انکے حسن کوزوال نہیں اور انکی صحت کو لاحق خطرات نہیں ہوتے جبکہ منفی اور پراگندہ سوچ رکھنے والے اپنے ساتھ دوسروں کےلئے بھی نقصان دہ ہوتے ہیں اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نیت ہی سب سے اہم ہوتی ہے ۔اپنے لئے اچھاسوچنے والے یقینی طور پر دوسروں کیلئے بھلائی کی ترغیب دیتے ہیں ،ہر کسی کی خیرخواہی چاہنے والوں کی اپنی زندگی بھی خوبصورت اور پر سکون ہوتی ہے ۔ہمارے اردگرد اچھی اور بری سوچ رکھنے والے بے شمار کردار ہوتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح اپنی ذات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔برے لوگ درحقیقت حادثاتی طور پر جنم نہیں لیتے بلکہ سوچ سمجھ کربرے کام کرنے کے عمل کو ہی حقیقی معنوں میں برائی کہاجاتا ہے جن کی سوچ ہی منفی ہوتی ہے جو ہرآن دوسروں کے بارے میں غلط اور نیگیٹو سوچ رکھتے ہیں انکے غلط سوچنے پر خود ان کا اپنا تو نقصان ہوتا ہی ہے یہ دوسروں کو ہر حال میں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ایسے لوگوں سے ملنا بھی نقصان سے خالی نہیں ،انکے پاس جو بظاہر ہوتا ہے وہ محض علامتی اور بناوٹی ہوتا ہے وہ جو اعلانیہ کہتے ہیں اس پر عمل کرنے سے ہمیشہ قاصررہتے ہیں ،انکی منفی سوچ انہیں کسی پل چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ،ایسے ہی لوگوں میں کچھ دوسروں کو بظاہر سدھارنے کا دعویٰ کرکے انکی بربادی کا سبب بن جاتے ہیں ،یہ دوسروں کو برباد کرنے کے اپنے عمل سے لطف اندوز ہوتے ہیں بظاہر بہت مہذب اور خدمت خلق کے کام کرنے کی شہرت رکھنے کے باوجود اندر سے یہ اذیت پسند ہوتے ہیں اور انکی حقیقی تشفی دوسروں کو ہرحال میں نیچا دکھانے میں ہوتی ہے ،اپنے اعلانیہ مخالف میں اپنے اندر کی خواہشوں کے پورا نہ ہونے کا ذمے دار تصور کرتے ہوئے انہیں زمانے بھر کی خرابیوں پر مورد الزام ٹھہراتے ہیں ان لوگوں کو بہترین مواقع بھی ملتے ہیں مگر یہ اپنی ضدپر اڑ جاتے ہیں اور دوسروں کی بہتری کے کسی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بجائے اپنی ذات کے حصار میں محدود ہوکر خود نمائی کے سواکچھ بھی نہیں کرسکتے پھر جب انکی ہی نااہلی کے سب ان کے پاس کوئی اختیار نہیں رہتا تو بھی اپنی کوتاہی تسلیم نہیں کرتے یہی انکی سب سے بڑی “برائی “کہی جاسکتی ہے ،کبھی ناتجربہ کاری کا بہانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی اپنی حماقتوں کے آشکار ہونے کے عمل کو دشمن کی کارروائی قرار دیتے ہیں ،یہ سیکھنے کی صلاحیت سے یکسر عاری ہوتے ہیں کیونکہ ان لوگوں نے کسی طور اپنے کسی غلط کام کو غلط نہیں تسلیم کرنا ہوتا اپنی برائی کو اچھائی تصور کرنے کا انہیں جو مرض لاحق ہوجاتا ہے تو پھر یہ کسی کواپنا دوست بھی بنالیں تو اس کے ساتھ بھی دشمنوں سے بدتر سلوک کرتے ہیں کیونکہ انکے ذہن میں اپنے سوا کوئی دوسرا کسی قابل نہیں ہوتا اور دوستی بھی انکی محض مفاد پرستی کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہے ۔ان کے دوست جب اپنے احسانات کے بدلے میں ایسے لوگوں کی طرف سے برائی اور شر پھیلانے کے عمل کا سامنا کرتے ہیں تو پھر ان سے دور ہوجاتے ہیں ،لیکن اس عمل پر بھی احسان کے بدلے برائی پھیلانے والے انہی دوستوں یہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ،یہ لوگ ہر پل ایسے دوست ڈھونڈتے رہتے ہیں جو ان کے لئے اپنی دولت نچھاور کرتے رہیں ،انکے اسی چلن نے بے وفائی اور ڈھٹائی کے نئے انداز کو متعارف کرایا ہے ،اچھے دوستوں کو کھو دینے کا انہیں کبھی قلق نہیں ہوتا بلکہ یہ الٹا انکے سامنے اپنے مشکل حالات رکھ کر آزمائش میں ڈالنے کا تقاضا کرتے ہیں ،دوستوں کو یہ لوگ پرکھنے میں برباد کردیتے ہیں ،لیکن ایسے لوگوں کا غلبہ دائمی نہیں رہتا جس طرح یہ اپنے ،پرائے سبھی لوگوں کو آزمانے کے چکر میں رہتے ہیں اسی طرح قدرت انہیں وقتی طور پر اختیار دے کر آزماتی ہے اور پھر ان سے اختیار چھین کر ہمیشہ کے لئے بے اختیار کرکے انہیں پھر سے اختیار کی خواہش کا غلام بناکر مسلسل بے چین و بے قرار رکھتی ہے ۔قدرت کے فیصلے بھی اٹل ہوتے ہیں ان کو قناعت پسند لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں ،دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش رکھنے والے کبھی قدرت کے ان اصولوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے ،یہاں سے برائی کی رسوائی کا عمل شروع ہوجاتا ہے ،جس کا انہیں کوئی شعور ہی نہیں ،انکے برعکس انہی ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں سے سبق حاصل کرنے والے حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ،
ان حالات میں دل وجان سے حقائق تسلیم کرنے والے زندگی کے اصل راز پالیتے ہیں جبکہ حقائق کو جھٹلا کر اپنے جھوٹ پر مبنی بیانیہ پر ڈٹ جانے والے ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں ۔
دوسروں کے لئے کچھ کرنے کا سچا عمل کسی نمود و نمائش کا محتاج نہیں ہوتا خلق خدا سے پیار کرنے والے کسی قسم کا اختیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ،تاہم جب انہیں قدرت موقع دیتی ہے تو یہ اپنے عمل سے دوسروں کے فائدے کی راہیں نکالنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔اور انکے برعکس منفی سوچ رکھنے والے اپنی ذات سے آگے کسی کو عملی طور پر کچھ نہیں سمجھتے ایسے لوگ ہمیشہ مفاد پرستانہ چلن اختیار کرتے ہوئے زمانے بھر کی اچھائیوں کا اپنے اندر موجزن ہونے کا ڈھوندورا برسر عام پیٹتے رہتے ہیں ۔ان کے سامنے اپنی ذات سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوتا ،یہ ہر بار وعدہ خلافی کرنے کے باوجود پھر نئے وعدے کرکے حالات کو اپنے حق میں کرلینے کی جستجو کرتے رہتے ہیں ان لوگوں کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی کردار بدل جاتے ہیں مگر یہ مائنڈ سیٹ اسی طرح کا چلن اختیار کرکے لوگوں پر اپنے تسلط کی صورت پیدا کرنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں ،دنیا جہان کے جھوٹ بولنے کے باوجود جب کوئی انکے گزشتہ جھوٹ کا پردہ چاک کردیتا ہے تو پھر وہ اس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے محفل سے اٹھ کر وقتی طور پر چلے تو جاتے ہیں مگر پھر سے نئے ہنگام کے ساتھ نئی منصوبہ بندی کرکے آتے ہیں اور دوسروں پر غلبہ پالینے کی اپنی شدید خواہش کو پورا کرنے تک انتہائی بے چینی وبے قراری کے ساتھ تلملاتے رہے ہیں ۔ایسے لوگوں کا دنیا میں سردست کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا تاہم محقیقین نے انکے ایسے مرض کی تشخیص کردی ہے جس کے تحت انکے اس مرض کی زیادہ تر تکلیف دوسروں کو ہوتی ہے۔ تاہم انکے برعکس ایک محبت کرنے والے شاعر نے خدا سے ایسے مرض کی استدعا کی تھی کہ محبوب کے مرض کی تکلیف مجھے دی جائے ،قتیل شفائی کے اس شعر پر اجازت چاہوں گا ۔ع۔
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور چوٹ آئے مجھے۔