درس قرآن کی محفل ختم ہونے کے چند گھنٹوں بعد لبرل طلبہ تنظیم کے کارکنان نے اسلامی جمیعت طلبہ سے تعلق رکھنے والے درس قرآن کے منتظم کو اغوا کر لیا ۔یونیورسٹی اور ملتان انتظامیہ کو درخواستیں کرنے کے باوجود نوجوان کو بازیاب نہ کروایا جا سکا ۔جمعیت نے رسل خان بابر ناظم پنجاب کی قیادت میں جامعہ زکریا میں احتجاجی مظاہرہ کیا مظاہرے کے دوران ہی پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر موجود طلبہ کو گرفتار کرکے مختلف مقدمات قائم کر دیئے ۔گرفتار ہونے والوں میں اویس عقیل شہیدبھی شامل تھے ۔میں اویس عقیل شہید کو میں زیادہ تو نہیں جانتا تھا لیکن ملتان جیل میں چنددن اکھٹے گزارنے کے بعد میں اس کی بے پناہ صلاحیتوں کا معترف ہو گیا تھا ۔یہ اللہ کا سپاہی اس وقت بھی ملتان کی جیل میں نعرہ تکبیر بلند کرتا تو باقی نوجوان اللہ اکبر کے جواب سے ملتان جیل کی درو دیوار ہلا دیتے ۔پولیس آفیسر نے آکر نعرہ بازی بند کروانا چاہی تو اویس بھائی نے مزید زور دار آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا اور آخر کار پولیس آفیسر ایس ایچ او کے ہمراہ چلتا بنا ۔دوران حراست اویس بھائی نے تمام ساتھیوں کو بالکل پریشان نہیں ہونے دیا ۔ایک کارکن کے گھر والے پریشانی میں ملنے آئے تو اویس عقیل بھائی نے ان کو بہت ہی پیارے الفاظ کے ساتھ مطمئن کر کے بھیج دیا ۔جب عدالت کی جانب سے رہائی ملی توللہ کی عظیم کتاب کی محبت میں گرفتار ہونے والے نوجوانوں کا اہلیان ملتان نے ایسا استقبال کیا کہ دنیا دیکھتی رہی منوں پھولوں سے نوجوانوں کو لاد دیا گیا۔اویس شہید کا اس وقت بھی یہی کہنا تھا میں ہربات برداشت کر سکتا ہوں لیکن کوئی ظالم جابرلبرل قرآن عظیم شان کا درس روکے یہ بات قابل برداشت نہیں ۔اللہ کا یہ سپاہی اویس عقیل پنجاب یونیورسٹی لاہورکے طلبہ کی دلوں کی آواز تھا یعنی ان کے مسائل کو لیے دن رات ہر اس دروازے کو بجاتا جہاں طلبہ کے مسائل حل ہونے کی ذرا بھی امید ہوتی۔بس اس مجاہد کی یہی ادا ان عناصر کو پسند نہ تھی جو جامعہ پنجاب کو ایک عظیم تعلیمی ادارہ دیکھنا پسند نہیں کرتے اویس عقیل کو دبانے کے لیے بہت سے جھتن انتظامیہ میں موجودچندافراد کی طرف سے بھی کیے گئے کبھی اویس عقیل پر مقدمات تو کبھی دیگر ہھتکنڈوں کے ذریعے اویس عقیل کو خاموش کرانے کی کوسش کی جاتی رہی لیکن اویس عقیل اپنے مقصد اپنی منزل سے پیچھے جانے والا کہاں تھا ۔آخر کار اویس عقیل کی آواز کو دبانے کا ایک ایسا منصوبہ بنایا گیا کہ مئی کی ایک رات اویس عقیل کو گولیوں کا نشانہ بنا کر طلبہ مسائل کے لیے بے چین رہنے والے کو چین کی نیند سلا دیا گیا ۔اویس عقیل نے جو چراغ جلایا تھا وہ کبھی بجنے نہیں پائے گاجہاں اویس عقیل کی ایک آواز تھی وہاں آج سینکڑوں آوازیں اویس عقیل بن کر طلبہ مسائل کو حل کروانے کی جدوجہد کر رہی ہیں اوراویس عقیل سیالکوٹ کے علاقے سمبڑیال میں اپنی آخری آرام گاہ میں سکون کی نیند سو رہا ہے اور اپنے رب کی جنتوں کی مزے سے بھی لطف اندوز ہورہا ہوگا ۔اویس عقیل کی کمی کبھی پنجاب یونیورسٹی میں پوری نہیں ہو سکتی۔جب تک طلبہ کے مسائل کو حل کرنے کیبجائے انتظامیہ جمیعت کو دبانے اور اپنے مفادات کے لیے سرگرم رہیے گی تب تک پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ و ملازمین کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔جامعہ پنجاب میں طلبہ وطالبات سے پرس،موٹرسائیکل چھیننے اور دیگر چوری اور ڈکیتی کے واقعات میں اضافہ ہونا بھی لمحہ فکریہ ہے ۔گورنر پنجاب جناب چوہدری سروراپنی خصوصی توجہ کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی کے مسائل حل کروائے تاکہ اویس عقیل جیسے طلبہ انتظامیہ کی سیاست کی بھینٹ نہ چڑ ئے۔اور طلبہ و طالبات کے ہاسٹل ،ٹرانسپورٹ سمت دیگر مسائل حل ہو سکیں۔