مجھے فخر ہے کہ میں صحافت کی دنیاکاچھوٹاسا طالب ہوں ۔ مجھے صحافت میں اکثر عبادت کا مزا آتا ہے اور راقم ہر صحافتی ادارے کو اپنا ادارہ سمجھتا ہے۔صحافت کے متعلق مولانا کے خیالات سننے کے بعد بہت گہرا صدمہ پہنچا۔صحافت ایک مقدص پیشہ ہے لیکن بڑے ہی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صحافت میں بھی سیاست کی طرح بڑے بڑے چورگھس آئے ہیں۔پیارے دوست عمر فاروق سردار کا کہنا ہے کہ میں نے بزرگوں سے یہی سُناہے کہ ہر چیز چوری ہوجاتی ہے لیکن علم چوری نہیں ہوتا۔لیکن بڑی عجیب بات سامنے آئی ہے کہ علم بھی چوری ہورہا ہے ۔دوسروں کی محنت اور لگن سے لکھی ہوئی تحریروں (کالمز)کوکچھ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ شائع کروانے کیلئے اخبارات کو بھیج رہے ہیں ۔یہ کتنا گھٹیا عمل ہے ۔انہوں نے میراکالم چوری ہونے کے بعد یہ تحریر فیس بک پر پوسٹ کرکے میرے ساتھ اظہار یکجہتی کیااور بھی بہت سے دوستوں نے کالم چوری کی مذمت کی۔قارئین محترم آپ کیلئے یہ بات نئی ہوسکتی ہے کہ کالم بھی چوری ہوجاتے ہیں لیکن یہ معمول کی بات ہے ۔آپ کے ذہن میںیہ سوال اُٹھ سکتاہے کہ پھر مجھے آج ہی کیوں یاد آیاکہ کالم چوری کی مذمت کے موضوع پر لکھوں؟جس کا جواب یہ ہے کہ اکثر کالم چور معافی مانگ کر آئندہ باز آجاتے ہیں لیکن اس بار میرا پالا ایک مہان کالم چورکے ساتھ پڑا ہے ۔جس نے مجھے فون کرکے اُلٹا دھمکانے کی کوشش کی کہ میں نے اُس کی شکایت کیوں کی ہے۔وہ کہتا ہے یہ کوئی چوری نہیں مجھے آپ کا کالم بہت پسند آیا اس لئے میں نے اپنے نام کے ساتھ شائع کروانے کیلئے اخبارات کو بھیج دیا۔جب راقم نے مولانا سے سوال کیا کہ کیا مولانا صدیق مدنی کے بیٹے کی ولدیت میں مہر علی کانام لکھا جاسکتا ہے تو کہنے لگا یہ اور بات ہے ۔جب میں نے اس کا نکتہ نظر تسلیم کرنے سے انکار کیا تو بددعائیں دینے لگا۔آپ یقیناًاُس مہان کالم نگار کا نام جاننا چاہیں گے ۔وہ مہان کالم نگار ہیں مولاناصدیق مدنی ۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی اس عظیم ہستی نے شرمندہ ہونے کی بجائے اُلٹامجھ سے قسم مانگی ۔کہنے لگا قسم کھاکہ کہو تم نے کبھی کسی کاکالم چوری نہیں کیا اور اس کے ساتھ ہی دعوت بھی دے ڈالی کہ آپ بھی دوسروں کے کالم چوری کرلیا کرواس میں کوئی بُری بات نہیں ۔اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ دعوت ہے یا مولانا کا فتوع ؟میسج میں دوستی کا واسطہ دے کرکہتاہے کہ فیس بک سے وہ تمام پوسٹیں ہٹادو جس میں اُسے کالم چور ثابت کیا گیا ہے اور دوسروں کے سامنے کہتاکچھ اور ہی کہتا ہے ۔ایڈیٹر پاک نیوز لائیو ڈاٹ کا م اور آپ کے جانے پہچانے کالم نگار محترم جناب عقیل خاں کے ساتھ فیس بک پر چیٹ کرتے ہوئے مولا نا کا کہنا تھا کہ ’’جب بھی آپ کسی چیز پر کمنٹ دیں ذرا اس کی تصدیق کرلیا کریں ۔شائع کرنے والے امتیاز علی شاکر میرے کئی کالمز چوری کرکے شائع کرچکے ہیں۔لیکن باربار یاد دہانی پر اس نے میرے خلاف یہ سازش چلادی اور یہ مضمون بھی میرا ہے جو 2013ء میں شائع ہوچکا ہے ۔محترم ایڈیٹر صاحب میں یہ بات اللہ تعالیٰ کو حاضر جان کر کہہ رہا ہوں کہ اگر یہ صاحب صرف میرے چور ہوتے توکبھی بھی شور نہ کرتا۔میرے خیال میں یہ شخص ادارے کیلئے بھی باعث شرم ہے کیونکہ میرا جوکالم (ہم نجات چاہتے ہیں ) کے عنوان سے26سے 30جنوری2014ء تک میرے نام کے ساتھ شائع ہوا تھا صدیق مدنی نے 8مئی2014ء کو وہی کالم پُرسکون زندگی کے عنوان سے اخبارات کوبھیج دیا جو بد قسمتی سے شائع بھی ہوگیا۔آپ خود سوچیں قاری جب یہ ایک ہی کالم مختلف لوگوں کے نام سے پڑے گا تو ہم سب کو مجرم سمجھے گا اور اُس کا یہ سمجھنا باکل درست ہوگا۔ اس طرح صحافت ہمارے لئے تو باعث فخر ہی رہے گی لیکن ہم صحافت کے لئے باعث شرم بن جائیں گے ۔لہٰذا میری اپیل ہے کہ ایسے تمام کالم چوروں کو بین کیا جائے بلکہ ان لوگوں کو عدالت میں لا کر سخت سزائیں بھی دلوائی جائیں ۔اگر ممکن ہو تو ادارہ ایسے کالم چوروں کو ادارتی صفحہ پر وارننگ بھی دے سکتا ہے۔