اسلام آباد (یواین پی)چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ حمزہ کےلیے قائم مقام وزیر اعلیٰ کا لفظ استعمال نہیں کریں گے، ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو دونوں فریقین کو قابل قبول ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پر باتیں کرنا بہت آسان ہے، ججز جواب نہیں دے سکتے، حکومتی بنچز کو اپوزیشن کا احترام کرنا ہوگا، قومی اسمبلی میں اپوزیشن نہ ہونے سے بہت نقصان ہوا ہے۔
اس سے قبل عدالت نے کیس کی سماعت آدھے گھنٹے کے لیے ملتوی کی تھی اور پرویز الہٰی کو حکم دیا تھا کہ وہ عمران خان سے رابطہ کرکے آدھے گھنٹے میں عدالت کو آگاہ کریں، جس کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو عمران خان کی ہدایت سے متعلق آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے حمزہ کو قائم مقام وزیراعلیٰ کے طور پر 17 جولائی تک قبول کیا ہے، عمران خان کا کہنا ہے کہ آئی جی پولیس، پنجاب الیکشن کمشنر اور چیف سیکریٹری قانون پر عمل کریں۔
بابر اعوان نے بتایا کہ عمران خان کا کہنا ہے جن حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں وہاں پبلک فنڈز استعمال نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ تو الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کا حصہ ہے، الیکشن کمیشن کو ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل کروانے کا کہہ دیتے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ شفاف ضمنی انتخابات اور مخصوص نشستوں کے نوٹیفکیشن تک حمزہ بطور وزیراعلیٰ قبول ہیں، الیکشن کمیشن سے متعلق تحفظات موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ حمزہ شہباز صاحب آپ کا ارادہ ہے دھاندلی کرنے کا؟
حمزہ شہباز کو نگراں وزیر اعلیٰ بنانے پر پرویز الہٰی اور پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کے درمیان اختلاف ہوگئے۔
لاہور ہائی کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پرویزالہٰی نے جو شرائط رکھیں وہ آپ کے اطمینان کے لیے حمزہ پر عائد کی جاسکتی ہیں، عدم اعتماد والے کیس میں عدالت ایسی شرائط عائد کر چکی ہے۔
تحریکِ انصاف کی اپیل پر سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی اس بینچ میں شامل ہیں۔
لاہور سے پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ فریقین میں اتفاق نہیں ہوسکا، صرف دیکھنا چاہ رہے تھے کہ سینئر سیاستدان مسئلہ کس طرح حل کرتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر میاں محمود الرشید روسٹرم پر آئے، اور انہوں نے کہا کہ آپس میں طے کیا ہے کہ ہاؤس مکمل ہونے دیا جائے، انتخاب کے لیے17 جولائی کے بعد کا وقت دے دیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے محمود الرشید کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ درخواست گزار نہیں اس لیے آپ کو نہیں سن سکتے۔
پی ٹی آئی وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اپنے پارٹی لیڈر سے مشاورت کر کے15 منٹ میں عدالت کو آگاہ کروں گا، محمود الرشید کے بیان کے بعد پارٹی سربراہ سے ہدایات لینا ضروری ہوگیا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک قانونی پوزیشن لیں اور ہمیں بتائیں، جو حکم جاری کریں گے وہ کسی ایک کے فائدے میں نہیں ہوگا۔