عدالتی معاملات سے فراغت کے بعد لاہور ہائی کورٹ قائد اعظم کیفے ٹیریا میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے چائے کے دوران گفت و شنید جاری تھی اتنے میں موبائل فون کی گھنٹی بجی فون رسیو کیا ،فون نمبراجنبی لیکن آواز جانی پہچانی تھی، خالد محمود بھٹی ہمیشہ کی طرح اپنا تعارف کرواے بغیر میرا حال احوال پوچھنے میں مصروف تھا لیکن میں یہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا کہ فون کی دوسری جانب کون ہے ؟آخر کار درست اندازہ لگاتے ہوئے میں نے پوچھا خالد پاکستان کب آئے؟ خالد محمود بھٹی نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا وکیل ہو نہ پہلے شناخت کرو گے ۔جی جناب آپ کا خادم خالد کل ہی انگلینڈ سے واپس آیاہوں اور آپ سے بہت ضروری کام کے سلسلہ میں ملنا چاہتا ہوں ۔کہاں ہیں آپ ؟خالد محمود بھٹی میرا بے تکلف دوست ہے سو میں نے قائد اعظم کیفے ٹیریا لاہور ہائی کورٹ میں آنے کو کہہ دیا ۔وہ اس قدر جلدی میں تھا کہ بجلی کی سی تیزی سے چند منٹوں میں قائد اعظم کیفے ٹیریا پہنچ گیااور آتے ہی اس نے مجھے ایک کاغذ جس پر موبائل نمبرکے ساتھ سید عرفان احمد شاہ کا نام درج تھا پکڑاتے ہوئے کہا کہ اس نمبر پر کال کرو ! میں اس شخصیت سے ملنے پاکستان آیا ہوں میں نے اس سے پوچھا کہ یہ نمبرکہا ں سے لیا ہے تو اس نے کہا انگلینڈ کے ایک نیوز پیپر میں ایک کالم پڑھا تھا جس میں سید عرفان احمد شاہ کی روحانی شخصیت کے متعلق کچھ ایسی باتیں تحریر تھی کہ جنہیں پڑھنے کے بعداُس روحانی شخصیت سے ملنے کی تمنا نے اس قدر زور پکڑا کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر فوراً ہی پاکستان چلا آیا ۔میں نے سوال کیا آخر ایسا کیا تحریر تھا اُس کالم میں ؟بولا،سید عرفان احمد شاہ روحانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیںآپ عرصہ تیرہ سال تک عالم مجذوبی میں رہے اور نانگا مست کے نام سے مشہور ہیں اس طویل عرصہ تک آپ نے خود کو دنیا مافیا سے الگ تھلگ رکھا دنیاوی امور میں آپ کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی، قرب الہٰی کے حصول میں طویل عرصہ ریاضت کی اس ریاضت میں خلوص سے اللہ رب العزت سے معافی کی طلب اور آدمی سے انسان کا رتبہ حاصل کرنے کی جستجو کی۔پھر اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کی والد ہ ، بزرگوں اور صالحین کی دعاؤں سے وہ سب کچھ عطاء کر دیا ہے جو آپ کی خواہشات اور تواقعات سے بہت زیادہ تھا۔آپ نے کامل انسان کا روپ دھار کرخود کو انسانیت کے لیے وقف کر دیا آپ کی روحانی خدمات کا اعتراف صوفی ازم پر یقین رکھنے والا ہر ذی روح کرتا ہے آپ کا فیض داتا گنج بخش فیض عالم حضورکی نگر ی لاہورمیں جاری وساری ہے جس سے ہرمکتبہ فکر کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں ۔ اولیا اللہ کا کام دنیا کے معاملات سے آگے ہے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کاایک مخفی پہلو یہ بھی تھا کہ وہ صوفی ازم پر کامل یقین رکھتی تھیں وہ ذہنی سکون کے لیے برگزیدہ ہستیوں کے آستانوں پر باقاعدگی سے حاضری دیتی تھیں انہیں سید عرفان احمد شاہ کی قربت بھی نصیب ہوئی وہ آپ کی روحانیت اور بزرگی کی بڑی قائل تھیں۔27دسمبر 2007 ء کو سید عرفان احمد شاہ نے بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی جانے سے روکا تو محترمہ نے جواب دیا شاہ جی میری عمر چھپن برس ہوگئی اور کتنے سال جیوں گی میرا مرنا جینا اس ملک کے غریب عوام کے لیے ہے اگر مجھے شہادت نصیب ہوتی ہے تو میں سمجھو ں گی کہ یہ خسارے کا سودا نہیں اور پھر 27دسمبر کو وہی کچھ ہواجس کا خدشہ
سید عرفان احمد شاہ نے ظاہر کیا تھا سید عرفان احمد شاہ جیسے مرد کامل انسان صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی عطاء ہوتے ہیں جو لوگوں کے مردہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں ان کو شرک وبدعت اور گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔ مرد کامل ا پنی رو ح سے ہم کلام ہو کر عشق الٰہی میں بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے اور اپنے نفس کی لذتوں کو چھوڑ کر قدرت کی طرف سے صدہا مسرتیں حاصل کر کے انسانیت کی خدمت کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیتا ہے مرد کامل اسرار کے میدان کا شیر ہے وہ دوسروں کے دل کی کیفیت کو جانتا ہے جو کوئی دل میں سوچتا ہے لیکن پردہ پوشی کرتے ہوئے مسکراتا ہے خالد کی گفتگوسنتے سنتے میں خود سحر زدہ سا ہوگیا اور مجھے بھی اُس روحانی شخصیت سے ملنے کااشتیاق ہونے لگا۔
میں نے دھٹرکتے دل سے آپ کو کال کی اور ملاقات کا وقت مانگا۔ شاہ صاحب نے پوچھا کہ آپ نے مجھ سے کس سلسلے میں ملنا ہے مجھے لوگوں سے ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ میں نے شاہ صاحب کو بتایامیرانام محمد رضا ایڈووکیٹ ہے ۔ میرا دوست خالد محمود بھٹی انگلینڈ سے صرف آپ سے ملنے کی خواہش لئے پاکستان آیا ہے۔میں اور خالداس وقت لاہور ہائی کورٹ قائد اعظم کیفے ٹیریا میں موجود ہیں اگر ہوسکے تو ابھی کچھ وقت دے دیں۔شاہ صاحب نے اپنے آفس الغنی ہاؤس ساندہ روڈلاہور میں ایک گھنٹے بعد ملاقات کا وقت دے دیا۔ ہم مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکے تو شاہ صاحب کی کال آئی کہ وکیل صاحب آپ نے ایک گھنٹے بعد آنا تھا لیکن آپ نہیں پہنچے ۔میں نے بتا یا کہ ہم راستے میں ہیں اور آپ کے پاس دس منٹ تک پہنچ جائیں گے ۔جیسے ہی ہم آپ کے آٖفس پہنچے اور سید عرفان شاہ سے ملے تو ہمیں آپ کے پر نور چہرے کی رونق اور آنکھوں کی چمک اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ یہ صاحبِ نظر سادات ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں مجھے آپ میں ایک پراسرار روحانیت نظر آئی جس سے ہمیں مل کر بے پناہ سکون ملا ۔میری نظریں ایک گھنٹے کی ملاقات میں سارا وقت آپ کے چہرے کا طواف کرتی رہیں اور میں خاموشی سے خالد محمود بھٹی اور شاہ صاحب کی باتیں سنتا رہا ۔میں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں اللہ سے یہ دعا مانگتا کہ میری کسی صاحب نظر سے ملاقات ہو جائے میری وہ دعا اس وقت قبو ل ہوگئی۔یوں لگا جیسے شاہ صاحب سے مل کر میری تلاش کومنزل مل گئی ۔ مجھے ا یسا احساس پہلے کبھی کسی بزرگ سے مل کرنہیں ہو اجیسا سید عرفان احمد شاہ سے مل کرہوا تھا ۔دل میں بار بار ملنے کی تمنا لئے آپ کے آفس سے رخصت ہوئے ۔ خالد محمود بھٹی چندروز بعد واپس انگلینڈ چلا گیا جب کہ میری ملاقاتوں کا سلسلہ آج بھی سید عرفان احمد شاہ کے ساتھ جاری ہے۔اپنی وکالت کی عادت سے مجبور میں شاہ صاحب سے اُن کی شخصیت ،ماضی ،اور زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق سوالات کرنا اُن کی صحبت میں وقت گزانے کا بہانہ بناکر اکثر اُن کے پاس بیٹھا روحانیت کے مزے لوٹتا رہتا ہوں۔سوچا ایسی پیاری شخصیت سے حاصل ہونے والی مفید معلومات کو خود تک محدود رکھنا سراسرناانصافی ہوگی سواب تک کی گفتگوکو دوسروں تک پہنچانے کی نیت سے کاغذ قلم لے بیٹھا ،جو کچھ تحریر کر پایا وہ حاضر خدمت ہے ۔خاندانی پس منظر:
پیر سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست سرکارکے پردادا سید عبدالرحمان نے 1850ء میں بغداد شریف عراق سے آکر آگرہ میڈیکل سکو ل میں تعلیم حاصل کی ۔انہوں نے 1860ء میں برٹش فوج میں کمیشن حاصل کیا اور ڈاکٹر لیفٹیننٹ
(ایم آئی ڈی)کے عہدے پر فائز ہوئے آپ کی نو عمری میں ہی سنت رسول ؐ کے مطابق پوری داڑھی تھی ۔اس وقت انگریز فوج میں داڑھی والوں کو اچھی نظر سے نہ دیکھا جاتا تھا جس انگریز آفیسر نے بھی آپ کو کہا کہ شاہ صاحب صبح شیو کروا کر آئیں تو وہ انگریز آفیسر دوسرے دن ہی مسلمان ہو گیا ۔آپ کی اس کرامت کی خبر جب وائسرائے کو پہنچی تو اس نے تمام افسران کو حکم دیا کہ سید ڈاکٹر عبدالرحمان سے کوئی روحانیت کے بارے میں یا داڑھی کے متعلق کوئی بات نہیں کرے گا۔ اس وقت ایبٹ آباد کا نام شیروان تھا۔شیروان کا نام ایبٹ آباد رکھنے کے وقت آپ کی لڑائی ایبٹ نامی مال آفیسر سے ہو گئی برطانوی فو ج میں فوجی آفیسر کو سول آفیسر سے بڑا سمجھاجاتا تھا۔ آپ شیروان کانام کسی اولیا ء اللہ کے نام سے رکھنا چاہتے تھے ۔ آپ نے کہا میں عراقی سید ہوں اور میں پڑھائی اور عہدہ میں بھی بڑا ہوں میری بات مانی جانی چاہے لیکن انگریز آفیسر زآپ کے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہ مانے اور شیروان کا نام ایبٹ آباد رکھ دیا گیا جس کے بعد آپ کی تعیناتی منٹگھمری ساہیوال ہو گئی ۔آپ دوبارہ ایبٹ آباد نہ آئے ۔آپ کے گاؤں40/12L کے ساتھ ایک گاؤں 109/12Lسے چوکیدار عبدالمجید پٹھان نے آکر اطلاع دی کہ صوبیدار میجر محمد علی کی بیوی فوت ہو گئی آپ نے کہا کہ کل ہی میں نے اسے چیک کر کے دوائی دی تھی وہ نہیں
مر سکتی ۔آپ ڈاکٹر بھی تھے اور کلام الٰہی سے مخلوق کا علاج بھی کرتے تھے ۔آپ جب اس گاؤں میں پہنچے تو لوگ اس عورت کا جنازہ لے کر قبر ستان جا رہے تھے ۔آپ نے وہاں پہنچ کر جنازے کو روکا اور کہا کہ جنازے کو واپس گھر لے چلو یہ عورت تو زندہ ہے پہلے تو کچھ لوگوں نے مزاحمت کی جو لوگ شاہ صاحب کو جانتے تھے انہوں نے شاہ صاحب کے حکم کی تعمیل کی اورجنازے کو گھر لے آئے ۔شاہ صاحب نے صوبیدار کی بیوی کے جسم کے مختلف جوڑوں پر بھیڑوں کا دودھ منگواکر عورتوں سے مالش کروائی ۔لوگ حیرت سے تمام ماجرا دیکھ رہے تھے ۔تھوڑی دیر بعد عورت کا انگوٹھا ہلا تو لوگ ڈر گئے ۔آہستہ آہستہ عورت کا پورا جسم کام کرنا شروع ہو گیا اور وہ عورت اٹھ کر بیٹھ گئی آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کو دو بیٹے عطاء کرے گا۔ایک کا نام نورالہادی اور دوسرے کا نام عبدالہادی رکھنا اسی طرح ہی ہوا وہ عورت بڑا عرصہ زندہ رہی ۔آپ فرماتے تھے میرے خاندان میں کوئی مست مجذوب پیدا ہو گا اور سالک (ہوش) بھی ہوگا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آپ کی بات سچ ثابت ہو گئی ۔سید عرفان احمد شاہ کے دادا کے بھائی سید حبیب الرحمان تھے ۔اس وقت برصغیر کے چار بیرسٹر بنے جن میں سید حبیب الرحمان ، سید عبداللہ ، قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی تھے ۔تمام لوگ چار بجے اکٹھی چائے پیتے تھے ۔آپ کے دادا حبیب الرحمان اکثر فرماتے تھے کہ گاندھی اور جناح تم کچھ نہ کچھ ضرور کرو گے ۔دادا کی بات سچ ثابت ہوئی ۔
ولادت با سعادت:
سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست کی والد ہ ماجدہ امام بری سرکار اسلام آباد کے پاس ایک قصبہ نو رپور شاہاں میں رہائش پذیر تھیں ۔راستے میں بڑا جنگل پڑتا تھا۔والدہ محترمہ کو راستے میں ایک بزرگ ملتے وہ والدہ محترمہ کو ایک لیموں دیتے جس کی تاثیر یہ تھی کہ گرمیوں میں پانی میں ڈالنے سے پانی ٹھنڈا اور میٹھا ہو جاتا تھا۔والدہ محترمہ اور جن لوگوں نے لیموں کا پانی پیا وہ بھی پانی کی یہی تاثیر بیان کرتے تھے۔ وہ بزرگ والدہ محترمہ کو فرماتے تھے کہ آپ کے ہاں ایک مست مجذوب بچہ پیدا ہو گا ۔تین سال تک اس کو گود میں کھیلانا اور اس کے بعد اس کو کسی درگا ہ میں دے آنا ۔مائی صاحبہ نے کہا کہ میرے شوہر کے اباؤاجداد بھی یہی ذکر کرتے ہیں11 اگست 1973 ء کو سید ممتاز احمد شاہ کے سادات گھرانے نور پور شاہاں اسلام آبادمیں سید عرفان احمد شاہ کی ولادت ہوئی پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بچہ دیکھنے میں چاند کا ٹکڑا اور پورے خاندان کی آنکھوں کا تارا تھا ۔
بچپن میں جھولے سے غائب ہونا (جاری ہے)۔