انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے وگرنہ

Published on May 12, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 448)      No Comments

Usman
تنقید عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ نقد سے ماخوز ہے جس کے لغوی معنی کھرے اور کھوٹے کو پرکھنا ہے۔ تنقید کسی بھی معاشرے میں رہنے والے افراد کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے۔ تنقید کسی بھی جماعت یا کسی بھی شخصیت کے لئے آئینے کی حیثیت رکھتی ہے جس کی بدولت کمی اور کو ہتائی کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ سوشل میڈیا کے دور میں تنقید ایک آلہ کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ دوران تنقید بولے اور لکھے جانے والے الفاظ نقاد کی پس پردہ تعلیم و تربیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان کی سیاست ازل سے ہی تنقید کا شکار ہے۔ چونکہ پاکستانی سیاست کا محور چند مخصوص خاندانوں کے گرد محو گردش ہے اس لئیے وہ جب چاہیں اس کا رخ کسی بھی طرف موڑ لیتے ہیں۔ سیاسی تنقید کی اگر بات کی جائے تو اس کا اصل مدعا یہ ہے کہ اس کو صرف سیاست تک ہی محدود رکھا جائے نہ کہ سیاستدانوں کی خاندانی اور ذاتی زندگی کو تنقید کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ آجکل کے میڈیا زرائع کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں تنقید کا پہلو بہت زیادہ نظر آتا ہے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس بنیادی حق کی آڑ میں ہمارے نقاد (تنقید کرنے والے) صرف ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں جو کہ تنقید کی اصل روح کی خلاف ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اور ان کے نمائندے تنقید کی اصل روح سے ہٹ کر اس کو ذاتیات اور عناد پسندی کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ جس سے یہ لگتا ہے کہ شاید ان کے اندر تنقید کو برداشت کرنے کا جذبہ نہ ہونے کے برابر ہے یا پھر وہ اقتدار کو حاصل کرنے میں اتنے مگن ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ تنقید جیسے بنیادی حق کی آڑ میں اپنے مخالفین پر ہتک آمیز جملے کسنے اور ان کی ذاتی زندگی پر تبصرہ کرنے میں اپنے آپ کو ماہر سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا۔ تنقید کے دوران ہم اس اہم بات کو بھول جاتے ہیں اور اپنے مخالف یا ناپسندیدہ شخصیت کو اس حد تک نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں رہتی۔ تنقید کو استعمال کرتے ہوئے آجکل سوشل میڈیا پر اصلیت کو پس پردہ رکھتے ہوئے جھوٹی احادیث ، نامکمل مذہبی واقعات، قرانی آیات کے ترجمہ میں رد و بدل، کسی معروف شخصیت کی تصاویر میں شر انگیز آمیزش کسی بھی شخص کی تحریر و تقریر میں نا پسندیدہ مواد کی ملاوٹ اکثر دیکھنے کو ملتی ہے۔ کسی بھی سیاسی سماجی یا معاشرتی واقعہ کے میڈیا پر آنے کے بعد اس کے خلاف ہم اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ بجائے اس واقعہ کے اصل حقائق کو جانا جائے اس میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر دی جاتی ہیں جو کہ بسا اوقات مدتوں حل نہیں ہو سکتیں۔ کسی بھی سیاسی، سماجی یا حکومتی شخصیت کا عہدہ اپنی جگہ مگر ہمیں دوران تنقید اس کو بحیثیت انسان پہلے دیکھنا چائیے۔ ہماری تنقید کا محور اس عہدے یا اس کرسی کے گرد ہونا چایئے نہ کہ اس شخص کی ذاتی زندگی۔ جس شخصیت پر تنقید کی جائے اس سے قبل ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چائیے کہ وہ شخص شاید ہمارا ناپسندیدہ ہو مگر اس کو پسند کرنے والے شاید اس سے کہیں زیادہ ہوں۔ آج ہماری سیاسی تنقید کا محور کسی لیڈر کی خاندانی زندگی اور اس کی تصویروں میں ردو بدل تک محدود رہ گیا ہے جو کہ ایک افسوس ناک المیہ بنتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت شاید ہمارے ملک میں نہ تو اصل روح کے مطابق تنقید کی جارہی ہے اور نہ ہی اس تنقید کو برداشت کرنے والے موجود ہیں جسکی بدولت آج ہمارے ملک کا سیاسی نظام درہم برہم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے نمائندے آج سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے مختلف پریس کانفر نسوں اور مختلف تقاریر کے دوراں اپنی مخالف جماعت پر طرح طرح کے الزامات لگانے میں مصروف عمل ہیں جس کو تنقید کا نام دیا جاتا ہے۔نقاد کی تنقید کا محور کسی سیاسی جماعت کے لیڈر یا نمائندے کی ذاتی زندگی مثلا اس کا باپ مزدور تھا، اس کا بیٹا شراب پیتا ہے، اس کا بھائی قاتل ہے نہیں ہونا چائیے بلکہ اس کے سیاسی کردار اور اس کی اجتماعیت پر ہونا چائیے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے ہمارا نقاد طبقہ اس بات پر عمل پیرا ہو جائے کہ تنقید کی آڑ میں کسی بھی شخص پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اس کی سیاسی منصوبہ بندیوں اور اس کے سیاسی کردار کو مد نظر رکھا جائے۔ سوشل میڈیا پر موجود خصوصا ہمارا نوجوان طبقہ نت نئے سافٹ وئیرز کی بدولت سیاسی و سماجی قائدین کی تصاویر میں رد و بدل کر کے سامنے لانے کی بجائے ان کی منصوبی بندیوں اور ان کے جماعتی کردار پر تنقید کرے جس سے پڑھنے اور دیکھنے والے کے علاوہ اس شخصیت کی بھی دل آزاری نہ ہو۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ہمیں ہدایت کی راہ پر گامزن کرے۔۔۔۔۔۔آمین انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے وگرنہ! دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

Readers Comments (0)




Premium WordPress Themes

WordPress Blog