آج پورے ملک میں بھوک ننگی ڈانس کررہی ہے کم اجرت اور بڑھتی مہنگائی نے عوام کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور لوگ اپنے جوان لاشے اپنے کندھوں پر اٹھائے کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں پاکستان آج جن حالات سے گذر رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیا سیاستدان ہیں جنہوں نے عوام کے نام پر لوٹ مار کی یا ہماری بیوروکریسی جنہوں نے اپنی اچھی جگہ پر تعیناتیوں کے لیے ان حکمرانوں کے ہر ناجائز کام کیے اور عوام کوپنکچر والی ٹیوب کی طرح خوب رگڑا ،یا پھر ان سب کو لوٹ گھسوٹ اور عوامی حقوق پر ڈاکے ڈالنے کے الزام میں اقتدار پر قابض ہونے والے فوجی ڈکٹیٹران حالات کے ذمہ دار ہیں پاکستان کو پاک سر زمین بنانے کے لیے جن لوگوں نے اپنے خاندانوں کی قربانیاں دیں اپنے معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں میں اچھلتے دیکھا اور اپنے گھر وں کو نئے ملک میں جانے کی خوشی میں چھوڑ دیا کیا آج کا پاکستان انکی امیدوں پر پورا اترا اگر نہیں تو پھر اسکا ذمہ دار کون ہے کیا ہمارے حکمران ،اخباری مالکان اورباقی کے بچے ہوئے ٹھیکیداروں نے پاکستان کو سنوارنے اور بنانے کی کوشش کی یا اسے مزید بگاڑنے میں اپنا کردار ادا کیا ہمارے حکمران جس طرح الیکشن میں کامیابی کے بعد عوام سے دور ہوجاتے ہیں اسی طرح ہر ضلع میں بٹھا ہوا اعلی سرکاری افسر بھی عوام کو اپنی رعایا سمجھ کر خود بادشاہی کے مزے لوٹنے لگتا ہے مگر اپنے سے اوپر والے کے سامنے چوں تک نہیں کرتا کیا پاکستانی قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہے کہ جو عوام کے نمائندے بن کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں وہ عوام دشمنی پر کیوں اتر آتے ہیں اور جوکہلاتے تو پبلک سرونٹ ہیں مگرپبلک کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں حکمرانوں سے لیکر ان سرکاری ملازمین تک سب ایک دوسرے کے حقوق غضب کرنے میں مصروف ہیں غریب اور محنت کش سرکاری ہسپتال میں علاج اور دوائی کے لیے ترستا ہے ،روٹی کے لیے تڑپتا ہے اور بچوں کی معصوم خواہشوں کے لیے اپنی جان قربان کردیتا ہے جبکہ سفارشی اور خوش آمدی قسم کے نااہل ہر جگہ نمایاں اور حق داروں کا حق غضب کرنے میں لگے ہوئے ہیں میرٹ سے ہٹ کر تعینات ہونے والے نہ اپنی بات کسی سے منوا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اسکا حق دلا سکتے ہیں اور اسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمران ایسے افسران کو ڈھونڈ ڈھونڈ کراعلی عہدوں پر تعینات کرتے ہیں جو انکے سامنے بھیگی بلی بنا رہے ایسے ملازم نہ صرف حکمرانوں کو بدنام کرواتے ہیں بلکہ انکو عوام کی نظروں میں بھی بری طرح گرا دیتے ہیں اگر کسی کو کوئی شک ہو تو وہ پنجاب کے مختلف شہروں میں تعینات ڈی سی اوزاور ڈی پی اوز کو دیکھ لیں ایک دو کاموں کے سلسلہ میں مجھے خود ساہیوال اورخانیوال کے ڈی سی اوسے ملنے کا اتفاق ہوا جس کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ ان بادشاہی صفت افسران کا عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہوگایہ عوام کے دکھ درد کم کرنے کی بجائے انہیں مزید بڑھا رہے ہیں اسی طرح پنجاب کے سب سے اہم محکمہ تعلقات عامہ کا بھی خانہ خراب ہو چکا ہے یہاں پر میرٹ سے ہٹ کر ایسے ایسے افراد کو چن چن کر لگایا گیا ہے جو صرف اپنے دفتر میں ٹی وی دیکھنے ،سرکاری سہولیات سے بھر پور فائدہ اٹھانے اور صوفہ کو بیڈ سمجھ کرلیٹنے کے لیے ہی آتے ہیں یہاں پر تعینات ڈائریکٹر جنرل چونکہ خادم اعلی کے پی آر او تھے اسی لیے انہیں غیر قانونی ترقی دیکر سینئر زپر ترجیح دیکر ڈی جی پی آر تعینات کردیا گیا اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف پر جوتا پھینکنے کا کام بھی اسی ڈی جی پی آر کے ہوتے ہوئے پیش آیا جسکی وجہ سے پاکستان کی پوری دنیا میں بدنامی ہوئی اسی محکمہ میں ڈائریکٹر نیوز اور ڈائریکٹر کو آرڈینیشن کی دو اہم سیٹیں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں پر ایک ایسے افراد کو تعینات کیا گیا ہے جو سارا دن اپنے دفتر میں لیٹنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرتا ڈائریکٹر کوآرڈینیشن چونکہ اشتہارات کے معاملات کودیکھتا ہے مگر یہاں پر ایک ایسے فرد کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے جس پر کرپشن کے کیس انٹی کرپشن میں چل رہے ہیں اور وہ ضمانت پر یہ معاملات چلا رہا ہے یہاں بھی دلچپ بات یہ ہے کہ IPLجیسے اشتہارات ڈپٹی ڈائریکٹر کے اختیار میں ہیں اور SPLڈی جی پی آر کے اختیار میں ہیں شعبہ اشتہارت کی سیٹیں ایسی ہیں کہ یہاں پر پیسہ افسران کو ایڈوانس مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر تعینات شاہد مجید نے کروڑوں کی کرپشن کرکے کیسز بننے پر نوکری چھوڑدی یہاں ایک اور بھی بڑی دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ ایک خاتون تقریباعرصہ15سال سے ایسی پوسٹ کے عوض تنخواہ لیتی رہی جو محکمہ میں تھی ہی نہیں کیونکہ وہ کبھی دفتر ہی نہیں آئی اور سب مراعات اسے گھر بیٹھے ملتی رہی جو ابھی تک مل رہی ہیں اور اس محکمہ میں کوئی بھی افسر اپنی صحیح سیٹ پر کام کرتا ہوا نظر نہیں آئے گا اگر کوئی بطور پی آر او گورنر کام کررہا ہے تو وہ اپنی تنخواہ کسی اور سیٹ کے عوض لے رہا ہے یہاں تک کہ سیکرٹری اطلاعات کے پاس بھی وقت نہیں ہے کہ وہ اپنے محکمہ کی حالت زار پر توجہ دے سکے خیر ڈی جی پی آر تو انکے دفتر سے بہت دور ہے انکے پاس تو اتنا بھی وقت نہیں ہے کہ وہ کئی ماہ سے پڑی ہوئی ڈی جی پی آر کی فائلوں پر دستخط ہی کردیں یہ صرف ایک محکمے کی کارکردگی ہے باقی کے محکموں کا اندازہ پڑھنے والے خود لگالیں اور عوام جاننا چاہتے ہیں کہ نہ صرف ان سرکاری اداروں بلکہ پورے ملک کی ایسی تیسی پھیرکر عوام کو بھکاری بنانے میں کس کا ہاتھ اور کون ذمہ دار ہے ؟۔