شمالی وزیرستا ن ممکنہ فوجی آپریشن کا فیصلہ

Published on May 15, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 323)      No Comments

Afsar-Mir1
یہ شمالی وزیرستان کیا ہے جو برسوں سے دشمن کی نظر میں کھٹکتا رہتا ہے کئی بار امریکا نے کھلے عام پاکستان سے مطالبہ کیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیا جائے متعدد بار اعلان بھی کیے گئے مگر اس کے ملک کے بہی خواہوں نے پاکستان کے بہترین مفاد میں عمل درآمند نہ کرنے دیا اور اب بھی انشاء اللہ ان سے یہی امید ہے ۔ لگتا ہے پاکستان دشمن، مذاکرات دشمن، پاکستان میں افراتفری چاہنے والے گریٹ گیم کے بین الاقوامی اداکار، ان کے مقامی ایجنٹ شاید کامیاب ہو گئے ہیں پاکستان کے دوست نما دشمن امریکا نے ایک بار پھر کھل کر کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا سے پہلے آپریشن ضرور ہونا چاہے اس کی سوچ کے مطابق وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے نکلتے ہی طالبان اقتدار پر قبضہ کر لینے کی امریکی پریشانی ہے ان کے مطابق شمالی وزیرستان میں موجودحقانی نٹ ورک کے لوگ افغانی طالبان کی قبضہ کرنے میں مدد کریں اس لیے ان کا خاتمہ ضروری ہے نہ معلوم امریکا کی عقل کیوں ماری گئی ہے کیا کسی قوم کو فوجی آپریشن سے ختم کیا جا سکتا؟ کیا کسی کو اپنے ملک میں حکومت کرنے کا حق نہیں؟اخباری اطلاع کے مطابق حکومت نے طالبان کے خلاف آپریشن کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے سیکورٹی اداروں نے تیاریوں سے حکومت کو آگاہ کر دیا ہے کاروائی کے لیے صرف گرین سگنل کا انتظار ہے۔ امریکا کے نائب وزیر خارجہ نے وزیر اعظم ،آرمی چیف، وزیر داخلہ، مشیر خارجہ اور دیگر حکومتی اہلکاروں سے ملاقات میں مطابعہ کیا ہے کہ کابل میں تبدیلی سے پہلے وزیرستان میں آپریشن کیا جائے ۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے آپریشن سے دہشت گردی میں اضافہ ہو گا دونوں کو بداعتمادی کا خاتمہ کرنا ہو گا طالبان اور فوج حملے بند کرنے کی اپیل کرتا ہوں اخباری رپورٹس کے مطابق ۵ دن سے وہاں کرفیو نافظ ہے سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے بند ہیں تمام کاروباری مراکز بند ہیں اہم سڑکیں بند ہیں طلبا و طالبات پرچہ نہ دے سکے کرفیو کے دوران پابندی نہ کرنے والوں کو گولی ماردینے کا حکم جاری ہوا ہے بس اڈوں پر باہر سے آئے ہوئے مسافرپھنس گئے ہیں ان مسافروں نے مظاہرہ بھی کیا ہے بنوں کوہاٹ روڈ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے خوراک اور غذائی چیزوں کی کمی اور شدید قلت ہے بظاہر اس کی وجہ گزشتہ ۵ روز پہلے سڑک کے کنارے نصب ریمورٹ بم سے سیکورٹی فورسز پر حملہ کے دوران ۹؍اہلکاروں کے شہید ہونے اور ایک کے زخمی ہونے کی وجہ معلوم ہوتی ہے سرچ آپریشن جاری ہے ۶۰ افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں تحصیل غلام خان کے محلقہ علاقوں پر مارٹر گولے فائر کیے گئے ہیں متعدد گھروں کو اس سے نقصان پہنچا ہے اور قبائلیوں نے نقل مکانی کر کے سیکڑوں افغانستان کے صوبہ خوست میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے فوج کے سپہ سارنہیں ایک کے سخت بیان میں کہا ہے کہ امن ے لیے حکومت کی ہر کوشش کی حمایت کرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان مخالف سرگرم عناصر غیر مشروط طور پر ملک کے آئین اور قانون کی مکمل اطاعت قبول کرہیں اور قومی دھارے میں واپس آئیں بصورت دیگر ریاست کے باغیوں سے نمٹنے کے معاملے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ادھر طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے مذاکرات سیاسی اور جنگی ہتھیار کے طور پر قبول نہیں حکومت بیک وقت مذاکرات اور دھمکی کی سیاست پر عمل پیرا ہے کیا مذاکرات کامیاب بنانا طالبان ہی کی ذمہ داری ہے ہمارے شاہین دشمن کے حملوں کا جواب دینا جانتے ہیں۔ اے کاش کے دونوں طرف امن کو قائم کرنے میں مخلص ہوں اور ملک میں جاری ۱۲ سال سے گوریلہ جنگ کا خاتمہ ہو جس میں ہمارے کئی فوجی اور سولین شہید ہو چکے ہیں ۱۰۰ارب ڈالرسے زائد کا قومی نقصان ہو چکا ہے ملک میں لوڈ شیڈنگ ،مہنگاہی، دہشت گردی کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں۔ امن کی متلاشی جماعت اسلامی کے تحت پشاور میں گرینڈ جرگہ ہو ا جس میں کہا گیا ہے کہ امن کی چابی اسلام آباد کے پاس ہے حکومت چائے تو کھیل ختم ہو سکتا ہے جرنیلوں اور حکمرانوں کو بھی آئین کی پابندی کرنی چاہے قبائل نے کبھی بھی پاکستان کا پرچم نہیں جلا یا مذاکرات کی ناکامی پاکستان کی ناکامی ہے ۔ طالبان کمیٹی کی ممبر پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے فریقین ماہ رجب کے احترام میں مل بیٹھیں جنگ بندی کا اعلان کریں موقع ملا تو طالبان سے امن تسلیم کراہیں گے۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ مذاکرات سبوتاژ کرنے کی سازش پر تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کی خاموشی حیرت انگیز ہے۔ وزیر اعظم جناب نواز شریف جو شروع دن سے مذاکرات کے حامی ہیں نے کہا کہ کچھ عناصر طالبان کے ساتھ جنگ بندی سے خوش نہیں یہ نہ ہمارے دوست ہیں نہ طالبان کے خیرخواہ ہیں مذاکرات میں پیش رفت متوقع ہے ادھر وزیر داخلہ نے کہا ہے مذاکرات میں تعطل کی رپورٹ چند روز میں وزیر اعظم کو دوں گا۔ طالبان کی شکایت ہے کہ فورسز ان پر حملے کر رہی ہیں وزیرستان میں شدید لڑائی جاری ہے بمباری سے طالبان کمانڈر سمیت ۲۴ جنگ جو ہلاک ۹ فوجی بھی مارنے کا دعویٰ کیا گیا
ہے شمالی وزیرستان میں بھی تحریک طالبان کا اہم رہنما قتل ہوا ہے ۔ تحصیل بابر میں کمانڈر اعظم طارق کا بیٹا بھی مارا گیا ۔ اس وقت جنگ بندی نہیں ہے مولانا یوسف شاہ نے کہا ہے کہ فریقین کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ آپریشن سے امن ہوا نہ طالبان کے حملوں سے شریعت نافظ ہوئی ہے جنگ مسائل کا حل نہیں مذاکرات نہ ہونے سے خفیہ ہاتھ فائدہ اُٹھاتا رہے گا۔ سوات میں بھی جھڑپیں جاری ہیں ۷ عسکریت پسند ہلاک تین گرفتار ہوئے ہیں ۔ طالبان کمیٹی کے ممبر کا کہنا ہے تین روزمیں دونوں کمیٹیاں ملے گیں جبکہ امریکی اور بھارتی لابیاں مذاکرات کی ناکامی کے لیے سرگرم ہیں طالبان کو بھی جنگ بندی پر راضی کر لیں گے مولانا سمیع الحق نے کہا ہے جنگ بندی میں توسیع نہ ہونا مذاکراتی کمیٹیوں کی غفلت ہے۔ حکومت مذاکرات میں مخلص ہے آپریشن کے خواہش مند ملک میں ا من نہیں چاہتے۔ وزیر داخلہ نے بیان دیا کہ کھینچا تانی کے موجودہ ماحول میں مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بتا دیا تھا کہ اب بات چیت نتیجہ خیز ہو گی یا بل لکل نہیں ہو گی فوج حکومت کے ساتھ ہے جو بھی اٹھتا ہے کہتا ہے حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں اور حکومت سنجیدہ نہ ہوتی تو مذاکرات یہاں تک نہ پہنچتے پیر کو نواز شریف کو بھی رپورٹ پیش کردوں گا ۔ ماحول کو درست کرنے کی لیے وزیر اعظم صاحب کو مناسب ایکشن لینا چاہے تاکہ مذاکرات کامیاب ہوں۔
قارئین !ان حالات میں جناب نواز شریف سے درخواست ہے کہ امریکا کا آپریش کا مطالبہ ہر گز نہ ماناجائے اس سے بہت تباہی ہو گی امن کے بہی خواہ پاکستانیوں کی نظریں آپ کے حتمی فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ وزیر داخلہ کی رپورٹ سننے کے بعدوہ دونوں کمیٹیوں کی ملاقات وزیر داخلہ کی زیر صدارت ہونا چاہیے اور امن کا راستہ تلاش کرنے کا کہا جاناچاہیے۔ طالبان اپنی کمیٹی کے افراد پر بیان جاری پر پابندی لگائیں صرف کسی ایک فردکو ترجمان مقرر کریں حکومت کی طرف سے وزیرداخلہ اور طالبان کمیٹی کی طرف سے صرف ایک فرد بیان جاری کیا کرے یہ بات سمجھ سے بلاتر ہے کہ جب حکومت امن اور مذاکرات چاہتی ہے تو اس میں اتنی مدت کیوں گزر گئی حتمی فیصلہ اب تک کیوں نہ ہوا؟ اے اللہ میرے مثل مدینہ پاکستان کی حفاظت فرما آمین۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress主题