تحریر: رانااعجاز حسین چوہان
شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی کے 783 ویں عرس کی تقریبات کا آغاز 3 ستمبر سے ملتان میں ہوگا۔ عرس کے موقع پر پاکستان بھر بالخصوص صوبہ سندھ سے آنے والے زائرین کی بڑی تعداد شرکت کرے گی ۔ بلاشبہ دنیا بھرمیں اسلام پھیلنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ وہ بندگان دین ہیں جنہوں نے اپنی سیرت و کردار ، اور اپنے عمدہ اخلاق و عمل سے علم کی قندیلیں روشن کرکے اسلام کا روشن چہرہ دنیا بھر میں متعارف کروایا، اورطبقات کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے سے نکال کر صراط المستقیم پر گامزن کیا ۔ ان ہی عظیم ہستیوں میں برصغیر پاک وہند کے ایک عظیم مبلغ شیخ الاسلام حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ آپ صحابیِ رسول حضرت سیدنا ہبا بن اسود ہاشمی قریشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد میں سے ہیں۔ باری تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ تبلیغی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا، آپ علم و عرفان اور تقویٰ و اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے ۔ آپ نے کفر و شرک میں مبتلا انسانیت کو توحید کا درس دیا، غافل مسلمانوں کو یادالٰہی کا سبق پڑھایا، اور محبت سے محروم دلوں کو اللہ اور اللہ کے رسول خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل کی محبت سے معمور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علم روحانیہ اور فیوض باطنیہ میں بہت بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو دولت اسلام عطا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اخلاقی تعلیم و تربیت بھی فرمائی۔ آپ نے ایک منفرد تبلیغی نظام قائم کر کے اشاعت اسلام کے لئے جو خدمت سرانجام دی وہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں رقم کی گئی ہے۔
لوگوں کی اصلاح کے لئے تدابیر ظاہری و باطنی علوم سے آراستہ ہوکر جب آپ رحمتہ اللہ علیہ ملتان تشریف لائے تو یہاںآپ نے دعوت وتبلیغ کا کام شروع فرمادیا۔ آپ یہاں لوگوں میں ترویج علم کے لیے ایک عملی درسگاہ کا قیام عمل میں لائے جو آپ کی خانقاہ سے متصل تھی۔ جس نے ا فراد اور معاشرے کی اصلاح کے لئے مثالی خدمات سر انجام دیں۔ لوگ یہاں آکر ٹھہرتے اور آپ کی صحبت بابرکت سے فیض یاب ہوتے ، اپنے قلوب کی پاکیزگی کا اہتمام کرتے ۔ اس درسگاہ کے دو شعبے تھے ایک شعبے میں علما تربیت حاصل کرتے تھے اور دوسرے میں مبلغین اسلام اسلامی تعلیم اور طور طریقوں سے بذریعہ استاد استفادہ کیا کرتے تھے ۔ ان حضرات کو اس بات کا سبق دیا جاتا تھا کہ وہ جس علاقے یا ملک میں جائیں وہاں کی معاشرت اور زبان سے واقفیت کا ہونا ضروری ہے ، اس کے لیے حضرت شیخ نے کم و بیش ہر ملک سے ایک عالم و فاضل شخص کو ملتان بلاکر اپنی درسگاہ میں بحیثیت استاد کے مقرر کرلیا تھا، اور انہیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھی۔ اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے براعظم کے ساتھ عراق، شام اور سر زمین حجاز سے بھی آکر طلبہ داخلہ لیتے ، جہاں انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی جاتی، طلبہ کو علم و عمل کا پیکر بنایا جاتا، تاکہ وہ اپنے وطن واپس جاکر اسلام کی ترویج و اشاعت کا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔ حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ بہت مالدار اور سخی تھے اس لئے طالب علموں کے تمام اخراجات آپ خود پورے کرتے ۔مفت تعلیم کے علاوہ خوراک، لباس اور رہائش کا انتظام بھی موجود تھا۔ بزرگان دین کے ملفوظات شاہد ہیں کہ آپ کی درس گاہ سے ہزاروں طالب علم قرآن و حدیث اور فقہ کے علاوہ خطاطی، تاریخ نویسی، ظروف سازی ، جلد سازی اور تجارت سمیت مختلف علوم و فنون کے ماہر بنے جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ جاوا سماٹرا، انڈونیشیا، فلپائن، خراسان اور چین تک اسلام کی روشنی پھیلائی۔ یہاں علوم الٰہیہ کی ایک علیحدہ خانقاہ تھی جس میں ہندوستان کے علاوہ چین، ترکمانستان، مصر، بغداد اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی جو حق کی تلاش میں تھے آپ سے فیض یاب ہوتے تھے ۔ آپ کے گرد ہر وقت طالبان حق کا ایک مجمع لگا رہتا تھا عقیدت مندوں کی فہرست کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ حضرت شیخ بہاءالدین زکریاملتانی کی خانقاہ میں بڑے بڑے اولیاءاللہ نے قیام فرمایا ۔ مثلاً حضرت خواجہ غریب نوازؒ ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ، حضرت حمید الدین ناگوریؒ، جلال الدین تبریزیؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ وہ باکمال اولیاءاللہ ہیں جن کے توسل سے دعا بارگاہ ربّ العزت میں مقبول ہوتی ہے ۔
حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ رشتے میں خالہ زاد بھائی تھے اور آپس میں گہری محبت رکھتے تھے ۔ دونوں حضرات کئی سال تک سفر حضر میں اکٹھے رہے اور دونوں ایک دوسرے کی بہت عزت کیا کرتے تھے ۔ ان کی صحبت میں رنج و ملال کا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ فرماتے ہیں ایک مرتبہ مجلس میں زہد و تقویٰ کی گفتگو ہو رہی تھی حضرت برادرم بہاءالدین زکریا اور میں یکجا بیٹھے ہوئے تھے ۔ برادرم بہاءالدین زکریاؒ نے فرمایا کہ زہد تین چیزوں پر موقوف ہے جس میں یہ تینوں باتیں نہیں وہ زاہد کہلانے کا مستحق نہیں اول دنیا کو پہچاننا اور اس سے مایوس نہیں ہونا، دوسرے اولاد کی خدمت کرنا اور اس کے حقوق کی نگہداشت کرنا، تیسرے آخرت کی طلب اور اس کے حصول میں لگا تار کوشاں رہنا اور اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھنا۔ حضرت بہاءالدین زکریاؒ سے کشف و کرامات کے بہت سے واقعات منسوب ہیں اور جو مورخین کے مطابق حقیقت پر مبنی ہیں، ان جیسی عظیم ہستیوں نے اپنی پوری عمر عبادت و ریاضت اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں بسر کی، دنیا کی محبت اور کشش ان کے لیے بے معنی تھی۔ ایک موقع پر حضرت بہاءالدین زکریاؒ نے دو رکعت نماز میں پورا قرآن پاک ختم کرنے کا شرف حاصل کیا، ایک رکعت میں ایک قرآن اور چار پارے ختم کیے اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی۔ حضرت شیخ کی تعلیم اور حکم کے مطابق تبلیغی جماعت سوداگروں کے لباس میںبحری جہازوں پر سامان تجارت لاد کر ملتان سے روانہ ہوجاتی اور دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی دکانیں کھولتے اور اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت شروع کردیتے اور جب ان کی ایمانداری، شرافت، عفو و درگزر، تحمل مزاجی سے گاہک اور حلقہ احباب متاثر ہوتے تب وہ اللہ کا پیغام پہنچاتے ، اسلام کی دعوت دیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج مشرق بعید کے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جو کروڑوں مسلمان نظر آتے ہیں وہ ان بزرگان دین اور صوفیا کرام کی سعی اور تبلیغ کا نتیجہ ہے ۔
حضرت شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی ؒ کی تعلیم و تربیت بہت چھوٹی عمر میں شروع ہوگئی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ جب آپ کے والد محترم کلام پاک کی تلاوت کرتے تو آپ دودھ چھوڑ کر نہایت توجہ سے سنتے تھے ۔ یہ عالم دیکھ کر آپ کے گھر والے حیران رہ جاتے ۔ آپ صرف سات سال کی عمر میں قرات کے ساتھ کلام اللہ حفظ کر کے قاری مشہور ہو گئے تھے۔ جب آپ کی عمر بارہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد محترم کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا لیکن آپ کی تعلیم بدستور جاری رہی۔ آپ کی رسا طبیعت اور خداداد ذہن کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جو چیز نظر سے گزر جاتی وہ محفوظ ہو جاتی آپ نے تحصیل علم کے شوق سے سیاحت بھی کی والد محترم کی وفات کے بعد آپ نے ملتان سے خراسان کا سفر کیا۔ وہاں پہنچ کر سات سال تک بزرگان دین سے علم حاصل کیا اور اس قدر کمال حاصل کیا کہ درجہ اجتہاد کو پہنچ گئے ۔ مجاہدے ، مشاہدے اور مکاشفے میں بہت زیادہ مشق کی۔ آپ کے اوصاف دل موہ لینے والے اور عادتیں لوگوں کو گرویدہ کر لینے والی تھیں جس کی وجہ سے اہل بخارا آپ کو بہاءالدین فرشتہ کہتے تھے۔ جلد ہی آپ کی شہرت خراسان اور بخارا کے گردونواح سے بھی آگے پہنچ گئی۔بخارا میں آٹھ سال تک تحصیل علم کے بعد آپ حج کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور معمولات حج سے فارغ ہو کر حضور رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ پہنچے۔ پانچ سال تک حضور کے روضہ اقدس کی زیارت سے شرف یاب ہوتے رہے اور روضہ اقدس کے مجاور بنے رہے ۔614ھ میں آپ دوبارہ ملتان تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر چھتیس یا سینتیس سال تھی اہل ملتان کی اس درخواست پر آپ نے تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کر دیا اور ملتان کی حالت علمی ظاہری و باطنی بدل کر رکھ دی۔ ہر طرف مسجدیں تیار ہونے لگیں مدرسے تعمیر ہونے لگے ، لنگر خانے بنائے گئے شہر میں بڑی بڑی اور صاف ستھری عمارتیں تعمیر ہونے لگیں اور ملتان کی رونق بڑھنے لگی۔یہی وجہ ہے کہ آج ملتان اور اہل ملتان ان کے وجود پر نازاں ہیں کہ ان کا وجود تبلیغ و اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ ملتان کی ترقی و مشہوری کا ذریعہ بنا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ 7 صفر المظفر661 ھ بمطابق 21 دسمبر1262 ءحسب معمول اپنے وظائف میں مشغول تھے کہ آپ کے صاحبزادے شیخ صدر الدین عارف رحمتہ اللہ علیہ نے ایک نورانی شخص کو دیکھا، انہوں نے ایک رقعہ آپ کے والد ماجد کو دینے کے لئے کہا۔ صاحبزادے حجرہ میں داخل ہوئے اور رقعہ پیش کرکے باہر آگئے۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے آواز آئی وصل الحبیب الی الحبیب (یعنی دوست دوست سے مل گیا)۔ صاحبزادے جلدی سے اندر گئے تو دیکھا کہ والد محترم وصال فرما چکے ہیں۔ آپ کا مزار شریف ملتان میں مرجع خلائق ہے جہاں آج بھی دن رات آپ کے مزار پر انوار الٰہی کی بارش ہوتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ حضرت شیخ نے اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا تھا جو برصغیر میں اس دور کا بہترین نمونہ ہے، مزار کی عمارت پرنقاشی کا کام قابل دید ہے اور سینکڑوں اشعار یاد رکھنے کے لائق ہیں۔ اس مقبرے میں آپ کے صاحبزادے کے علاوہ دیگر افراد خاندان کے مزارات بھی ہیں۔ جہاں آج بھی اہل محبت جا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور مزارات کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ مزار کا احاطہ ہر قسم کی خرافات سے پاک ہے، عرس کے موقع پر علما کرام کی تقاریر خلق خدا کی ہدایت کاسامان بنتی ہیں، ملک بھر خصوصاً اندرون سندھ سے مریدین و معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔