تحریر۔۔۔ میر افسر امان
ہمارے سامنے ایک عیسائی برنے وائٹ۔ سپونر کی کتاب ہے، جس کا اُردو ترجمہ طاہر منصور فاروقی نے کیا ہے ،جس کا نام” تقسیم ،ہند اور قیام پاکستان کی داستان“ہے۔اس کتاب کے بارہ باب ہیں۔گیاویں باب ”کشمیر ایک مسئلہ “پر آج گفتگو کرنا مقصودہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ انڈین فورس کے کمانڈر ان چیف نے آکنلک کشمیر میں پھنسے برطانوی افراد کی مدد کے لیے برطانوی سپاہی کشمیر بھیجنے کی تجویز ماﺅنٹ بیٹن کے سامنے رکھی ،جسے اُس نے نا منظور کیا۔ اس سے قبل آکنلک نے پنجاب میں جہاں سکھ اور ہندو مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ رہے تھے کو بچانے کے لیے گورکھا سپائیوں کو تعینات کرنے کی ذبردست مخالفت کر چکا تھا۔اگر وہ ایسا کرتا تو پنجاب میں قتل و غارت میں نمائیں کمی لائی جا سکتی تھی۔ایٹلی اسے نواب کا خطاب دلانا چاہتا تھا اور ماﺅٹ بیٹن بھی اس کی حمایت کرتاتھا۔ مگر آکنلک نے مائنٹ بیٹن کو بھارت پاکستان کے معاملات کی خرابی کا ذمہ وارسمجھتے ہوئے یہ اعزاز قبول نہیں کیا۔
آکنلک نے ایک الوداعی ڈنر اور ۵۲ نومبر کو گورنر جنرل ماﺅنٹ بیٹن کے ساتھ لنچ اور الوداعی پریڈ سے انکار کرتے ہوئے اگلی شام آٹھ بجے خاموشی سے بمبئی روانہ ہو گیا۔
صاحبو! اس گفتگو سے جس بات تائید ہوتے ہیں کہ اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ماﺅئٹ بیٹن کو بھارت اورپاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل بننے نہیں دیا تھا۔ اس نے باﺅنڈری کمیشن ریڈ کلف کے ساتھ مل کر بھارت کو گرداس پور کا مسلمانوں کاعلاقہ بھارت کو دے دیا تھا ۔جس کی وجہ سے بھارت کو کشمیر کے لیے واحد زمینی راستہ درہ بانیال مل گیا تھا۔ہندو اور انگریز کی سازشیوں سے کشمیر پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔
جب ۷۴۹۱ءمیں تقسیم ہند کے وقت بھارت نے سکھوں اور ہندوﺅں کے ذریعے پنجاب کے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا۔ اس وقت لاکھوں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوئے اور مسلمانوں کی املاک لوٹ لی گئیں۔ سرحد کے قبائل اور پیر آف مانکی شریف کے پیروکار نے کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملانے کے لیے یلغار کی ۔موجودہ تین سو میل لمبی اور تیس میل چوڑی آذاد جموں و کشمیر ان قبائل نے آزاد کرائی۔گلگت بلستتان میں قبائل اور مقامی مجائدین نے ہندو راجہ کی فوج کو بزرو اپنے علاقوں سے بے دخل کر دیا۔مصنف لکھتے ہیں کہ ایک طرف کسی سمجھوتے کی بات ہو رہی تھی اور دوسری طرف جموں میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔پونجھ میں ہندوﺅ اور سکھوں کو مارا جارہا تھا۔مگر مصنف نے ٹوٹل پورا کرنے کے لیے دولاکھ لکھ کی تعداد پوری کی۔ مگر یہ نہیں لکھا کہ جموں کے مسلمانوں کو کہا گیا کہ سیالکوٹ کے راستے پاکستان جانے کے لیے جمع ہوجاﺅ۔ مسلمان ایک قافلہ کے شکل میں جمع ہوئے ۔ سکھوں اورہندوﺅں نے تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کو ایک وقت میں شہید کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی افواج اس وقت اپنی سرحدوں کی حفاظت پر محمور تھی۔ صرف اسلحہ سے قبائل کی مدد کی۔مگر بھارت نے بین الاقوامی اصولوں کو توڑتے ہوئے اپنے جہازوں سے جہیں برطانوی پائلٹ اُڑا رہے تھے اپنی باقاعدہ فوج سری نگر میں اُتاری۔ جس نے قابائل سول ملیشیا کا بھاری اسلحہ سے مقابلہ کیا۔ شیخ عبدللہ کی ملیشیا کے ساتھ مل کر قبائل کا زور توڑا۔ مجائدین سری نگر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ان کو سری نگر داخل ہونے سے روکا۔مصنف لکھتے ہیںایک طرف جنگ جاری تھی۔ دوسری طرف گفت و شنید بھی ہو رہی تھی۔لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان نے قائد اعظمؒ سے بات چیت کی اجازت لے لی۔ لیاقت علی خان نے نہرو سے کہ اس نے حال ہی میں سیالکوٹ کا دوراہ کیا ہے۔ وہاں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ میرے پر فوج بھیجنے کے دباﺅ ہے مگر میں نے فوج نہیں بھیجی۔لیاقت نے نہرو سے کہا کہ کشمیر سے فوج واپس بلائیں اور غیر جانبدار انتظامیہ سے لوگوں کی رائے معلوم کریں کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ۔نہرو نے جواب میںلشکر کے مظالم کی داستان سنائی اور کہا کہ ایسے میں فوج نہیں نکالی جاسکتی۔ ہم شیخ عبداللہ کی مدد کر رہے ہیں۔مصنف لکھتے ہیںکہ پونچھ کے مسلمان سپاہی سابق فوجی خورشید انورکے تحت تھے۔ وہ قبائلیوں سے زیادہ مہذب تھے۔پونچھ کے سابقہ فوجیوں نے ہندوستانی سپاہیوں اور مہاراجہ کی فوج کی باقیات کو مار بگایا۔مصنف لکھتے ہیں کہ انڈین ائر فورس کے فائٹر بمباروں کی اعانت لشکر پر بمباری سے نقصان ہوا وہ آگے سری نگر نہیں پہنچ سکے۔بھارت کے فوج کو بمباری کی مدد حاصل تھی۔ اس نے لشکر کو سری آنے سے روک دیا۔ اُس وقت پاکستان نے پاک بھارت جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے لشکروں کی باقاعدہ فوج اور اپنی ایئر فورس سے مدد نہ کر سکی ورنہ کشمیر اس وقت ہی پاکستان کے ساتھ مل جاتا۔ دوسرا اگر پاک فوج درہ بانیال پر قبضہ کر لیتی تو بھارت کی زمینی فوج بھی کشمیر میں داخل نہ ہوسکتی۔لکھتے ہیں مسلم لیگ کے حامی پس منظر میں رہے۔ان کو امید تھی
کہ سیاسی اقتدار لینے کے لیے ان کا دن ضرور آئے گا۔جب کہ شکر پہنچ جائے گا۔مصنف لکھتے ہیں قائد اعظم نے نہرو سے کہ دونوں فریقوں کو کشمیر سے نکل جانا چاہےے۔اس پرقبائلیوں کوروکا جاسکتا ہے۔ماﺅنٹ بیٹن کو معلوم تھا کہ وہ کشمیر سے نہیں نکلیں گے۔ اس لیے اس نے اقوام متحدہ کے ذریعے رائے شماری کا کہا۔ قائد اعظم نے کہا جب کشمیر میں بھارت کی فوج موجود ہو گی اور شیخ عبداللہ کشمیریوں کو دھمکا کر بھارت کے حق میں کرے گا تو ایسے تو ممکن نہیں۔قائد اعظم نے کہا کہ بھارت نے پاکستان بنتے ہی گلہ گھوٹ کر مارنے کی حرکت کی ہے۔مصنف لکھتے ہیں اور یہ بات درست بھی ہے کہ آکنلک قائد اعظم کا حکم مان لیتا اور پاکستان سپائیوں کو سر ی نگر بھیجتا تو وہ بھارت کے سپائیوں کو شکست سے دوچار کر سکتے تھے۔ مگر آکنلک نے ایسا نہیں۔ ورنہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا ہوتا۔قائد اعظم لاہور پہنچے اور کہا کہ طاقت کا جواب طاقت ہونا چاہےے۔
پاکستانی سپائیوں کو فوراً کشمیر بھیجا جائے۔ درہ بانیال پر پاکستان کنٹرول حاصل کرے۔مگر گریسی نے ماﺅنٹ بیٹن کے کہنے سے اس ایسا کرنے سے منع کیا اور اس نے صاف انکار کر دیا تھا۔
قائد اعظم بیک وقت انگریزوں سے جو بھارت کی فوج کے سربراہ تھے۔ ہندوﺅں سے جو پاکستان بنانے پر قائد اعظم کو گاﺅ ماتا کی ٹانگ کاٹ کر علیحدہ کرنے والا کہتے تھے کہ ساتھ معاملہ تھا۔ اگر جنرل گریسی اہنے سیاسی لیڈر قاعد اعظم کی بات مانتا اور فوجی روایات کو برقرار رکھتا تو کشمیر کا مسئلہ اُسی وقت حل ہو جاتا۔ مگر کشمیر تو انگریز استعمار کاخود کاشتہ پودہ ہے۔ پہلے ریڈ کلف کے ذریعے بھارت کو زمینی راستہ دلایا۔ پھر برطانوی پائلٹوں نے بھارتی جہازوں کو اڑا کر کشمیر میں بھارتی فوج اُتاری۔ مسلم دشمنی اور ہندو نوازی سے جو اپنے اقتدار میںمسلمانوں سے تعصب اور ہندوں کو آگے آگے رکھتے تھے کا شاخسانہ ہے۔ مگر انصاف بھی کوئی چیز ہے ۔ ایک نہ ایک دن انصاف مل کر رہے گا۔ کشمیری اس وقت سے تکمیل پاکستان کی جنگ جاری کیے ہوئے ہیں پانچ لاکھ جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں۔اربوں کی معاشی نقصان برداست کر چکے ہیں۔ اپنی سیکڑوں عزت مآب خواتین کی آبروزی کرا چکے ہیں ۔ہزاروں کی تعداد میں قید میں بند ہیں۔ اب بھارت کے ہٹلر صفت نریندر مودی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا ہے۔ پھر بھی تاریخ آزادی کشمیر پہلے سے زیاد زوروں پر چل رہے ۔ اقوام متحدہ یہود، نصارا اور ہنود کی لوندی بنی ہوئی ہے۔ کشمیری خود اور پاکستان کی مدد سے اورجہاد فی سبیل للہ کی مددسے ان شاءاللہ آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔