تحریر۔۔۔ میر افسرامان
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اپنی کتاب خلافت و ملوکیت کے دیباچہ میںلکھتے ہیں کہ اس کتاب کا موضوع بحث یہ ہے کہ اسلام میں خلافت کا حقیقی تصور کیا ہے۔کن ا صلوں پر وہ صدر ِاوّل میں قائم ہوئی تھی۔کن اسباب سے وہ ملوکیت میں تبدیل ہوئی۔ کیا نتائج اس تبدیلی سے رونما ہوئے اور جب وہ رونما ہوئے تو ان پر امت کا کیا رد عمل تھا۔اس امور کی توضیح کے لیے میں نے سب سے پہلے قرآن مجید کی ان آیات کو، جن سے سیاست کی بنیادی مسائل پر روشنی پڑتی ہے ایک ایک کر کے ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا ہے۔تاکہ اہم نقطہ نظر کے سامنے بیک وقت اسلامی حکومت کا وہ نقشہ سامنے آجائے جسے کتاب الہی قائم کرنا چاہتی ہے۔دوسرے باب میں یہ بتایا ہے کہ قرآن و سنت اور اکابر صحابہؓ کے اقوال سے ا ہم اصول حکمرانی کیا معلوم ہوتے ہیں۔
تیسرے باب میںخلافت راشدہ کی وہ امتیازی خصوصیات بیان کی ہیں جو تاریخ سے ثابت ہیں۔اس کے بعد ایک باب میں اُن اسباب پر بحث کی ہے جو خلافت سے ملوکیت کی طرف انتقال کی موجب ہوئے اور تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ یہ تبدیلی کس تدریج سے ہوئی۔پھر دو مستقل ابواب اس بحث کے لیے وقف کیے ہیں کہ خلافت ملوکیت کے درمیان حقیقی فرق کیا ہے۔ کیا تغریرات تھے جو خلافت کی جگہ ملوکیت کے آجانے سے واقع ہوئے۔کس طرح خلافت راشدہ کا زوال مسلمانوں میں مذہبی نفرتوں کا موجب ہوا اور کیا مسائل اس نفرتوں سے پیدا ہوئے۔ اس کے بعد میں نے یہ بتایا کی نظام ریاست کی اس تبدیلی نے مسلمانوں کی زندگی میں جو رخنے ڈال دیے تھے انھیں بھرنے کے لیے علمائے امت نے کیا کیا کوششیں کیں، اور اس سلسلے میں نمونے کے طور پر امام ابو حنیفہ اور امام یوسف رحہما الہہ کے کام کو پیش کیا۔
قرآن کی سیاسی تعلیمات کے باب میں لکھتے ہیں کہ سیاست کے متعلق قرآن کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالی اس پوری کائنات کا اور خود انسان کا اور ان تمام چیزوں کا خالق ہے جن سے انسان اس دنیا میں مستفید ہوتا ہے۔اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ” اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیداکیا۔(الانعام۔۳۷)”اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اوزمین میں ہے اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے جو کچھ زمین کی تہ میں ہے“(طہٰ۔۸)” آسمان سے زمین تک دنیا کا انتظام وہی کرتاہے“(السجدہ۔۵)”کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی باشاہی اللہ ہی کی ہے“(البقرة۔۷۰۱)حاکمیت کی جملہ صفات اور مجلہ اختیارات صرف اللہ ہی میں مرکوز ہیں۔اس کائنات میں کوئی ان صفات و اختیارات کا حامل ہے ہی نہیں۔حاکمیت الہیہ کے تحت انسانوں کا حقیقی فرماں روا اور حکام بھی وہی ہے۔انسانی معاملات میں بھی حاکمیت کا حق اسی کو ہے۔خدا کے قانون کو اللہ کے بندودں تک پہنچانے کا کام اللہ کے پیغمبر کا ہے۔ پیغمبر ہی اللہ کے قانون کی تشریع کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے بعد اللہ کے رسول کی اطاعت لازمی ہے۔ انسان خلیفہ کی حیثیت سے اللہ کی بخشی ہوئی طاقتوں کو اُس کے دیے ہوئے اختیار سے اس کی زمین میں استعمال کرے۔ یہ اجتماہی خلافت ہے ۔ اس کا حامل کوئی شخص یا خاندان یا طبقہ نہیں بلکہ وہ جماعت اپنی مجموعی حیثیت میں ہوتی ہے۔اس خلافت کی عوام اطاعت فی المعروف کرنے کے پابند ہوں گے۔اس خلافت کا نظام شوریٰ کی بنیاد پر قائم ہو گا۔اس ریاست کے اولی الامر جن کی صفات اللہ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق ہو گی۔ ان کی اطاعت عوام پر لازم ہو گی۔اس نظام میں رہنے والے مسلم و غیر مسلم باشندوں کے بنیادی حقوق جان،مال عزت کی حفاظت حکومت کے ذمہ ہو گا۔اس نظام میں رہنے والے عوام کو اس حکومت کے قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔اس اسلامی حکومت کی خارجہ پالیسی قرآن کی ہدایات کے مطابق ہوگا۔ عہد وپیمان کا پاس رکھنا ہوگا۔ انصاف سے ایک دوسرے سے معاملہ کرنا ہوگا۔اسلام کے اصول ِ حکمرانی کی مد میں لکھتے ہیںکہ اس میں قانون خدا وندی کی پابندی کرنی ہو گی۔
اس میں قرآن و سنت کا دیا ہوا قانون سب کے لیے برابرہوگا۔مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم کرنے ہوگی۔حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہو گی۔اس حکومت کا نظام قرآن کے بتائے ہوئے شوروی نظام کے تحت ہوگا۔عوام کی طرف سے اطاعت صرف معروف پر ہوگی۔اقتدار کی طلب و حرص ممنوع ہوگی۔ریاست کا وجو برائیوں کو ختم کرنا اور نیکیوں کا عام کرنا ہوگا۔ خلافت راشدہ اور اُس کی خصوصیات کے بارے لکھتے ہیں کہ یہ انتخابی خلافت تھی۔یہ شوروی حکومت تھی۔ اس حکومت میںبیت المال عوام کی امانت کی امانت تھی۔حکومت اپنی عوام کے سامنے جوابدہ تھی۔اس خلافت راشدہ میں قانون کی بلادستی تھی۔یہ حکومت عصبیتوں سے پاک تھی۔اس حکومت کی روح جمہوری تھی۔
خلافتِ راشدہ سے ملوکیت تک کے حصہ میں لکھتے ہیں کہ قبیلہ کے لوگ مسلمانوں پر مسلط کر دیے گئے۔
دوسرا مسئلہ کہ غلطی کو غلط نہیں کہا گیا۔ چوتھے خلیفہ کو پہلے خلیفہ کے رشتہ داروں نے تسلیم نہیں کیا۔تیسرے خلیفہ کے قاتلین کو گرفتار کرنے پر اختلافات پیدا ہوئے۔ شہید خلیفہ کے کپڑے اور اور ان کی ایلہ کی کٹی ہوئی انگلیوں کی نمایش کی گئی۔ اس سے بھی حالات خراب ہوئے۔جو حکم بنائے گئے تھے ان میں سے ایک نے معاہدہ کے خلاف بات کی۔ جس سے معاملہ خراب ہوا۔حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھ اختیارات کا آنا خلافت سے ملوکیت کی طرف اسلامی ریاست کے انتقال کا عبوری مر حلہ تھا۔
خلافت اورملوکیت کے فرق کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ تقررِ خلیفہ کے دستور میں تبدیلی ہوئی۔خلفاءکے طرز زندگی میں تبدیلی ہوئی۔ بیت املال کی حیثیت بدل دی گئی۔آزادی رائے کو ختم کر دیا گیا۔عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ ہوا۔شوروی نظام حکومت ختم کر دیا گیا۔قانون کی بالادستی کا خاتمہ کر دیا گیا۔بہت سے قانون بدل دیے گئے۔یزید کے دور میں حضرت امام حسینؓ کا واقع پیش آیا۔اس کے بعد مروان کا دور آیا تو اس میں دین سے سیاست کی آزادی بلکہ سیاست کے احکام و حدود کی قربانی انتہا کو پہنچ گئی۔کچھ مدت عمر بن عبدا لعز یز کا مبارک دور آیا۔
عباسیوں نے بنی امیہ کے حکومت ختم کی۔ان کے دور میں شعوبی تحریک اور زندقہ پیدا ہوئے۔مسلمانوں میںمذہبی اختلافات کی ا بتدا اور اس کے اسباب کے حصے میں رقم طراز ہیں کہ خلافت راشدہ کے زوال کے بعد امت میں اختلافات پیدا ہوئے۔حامیان علیؓ کا گروہ ابتدا میں شیعان علی کہا جاتا تھا۔ بعد میں صرف شیعہ کہلانے لگے۔دوسرا گروہ خوارج کا بنا۔اس کے رد عمل میں مرحبہ گروہ بنا۔ اسی دور میں معتزلہ سامنے آئے۔امام ابو حنیفہؒ کا کارنامہ حصے میں رقم طراز ہیں کہ انہوں نے ” ال فقہ الاکبر“ لکھ کر ان مذہبی فرقوں کا مقابلہ میں عقیدہ اہل سنت و الجمات کو ثبت کیا۔قانون اسلامی کی تدوین کی۔خلافت اور اس کے مسائل میں امام ابو حنیفہؒ کا مسلک کے عنوان میں مصنف لکھتے ہیں حاکمیت کا مسئلہ خلافت کے انعقاد کا صحیح طریقہ، اہلیت ِ خلافت کی شرائظ،فاسق و ظالم کی امامت،خلافت کے لیے قریشت کی شرط، بیت المال، عدلیہ کی انتظامی آزادی،آزادی اظہار رائے کا حق ،ظالم حکومت کے خلاف خروج کا مسئلہ ان تمام امور پر مفصل لکھ کر خلافت کی گاڑی کو صحیح سمت پر چلایا۔امام ابو یوسف اور ان کے کارنامے کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کے دور میں عباسیہ اور حنفی مدرسہ فکر کی کشیدگی کی وجہ سے حالات خراب ہو گئے تھے۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخروج لکھ کرصحیح سمت کا تعین کیا۔ اس میں خلافت راشدہ کی طرف رجوع، حکومت کاتصور ،روح جمہوریت،خلیفہ کے فرائض ،مسلم شہریوں کے فرائض، بیت المال،ضرب محاصل کے اُصول،غیر مسلم رعایا کے حقوق،زمین کا بندبست،ظلم و ستم کا انسداد،عدلیہ ،شخصی آزادی کا تحفظ،جیل کی اصلاحات ان کاموں کی اصل قدر و قیمت ان کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک قاضی اقضادةنے باشاہ کے سامنے رکھیں۔یہ اما م ابو یوسف کا بڑا کارنامہ ہے۔
قارئین! مدینہ کی اسلامی ریاست اس کے خلفہِ راشدین کا سنہری دور کو دنیا کے مسلمان اب بھی ترس رہے ہیں۔ سید ابو الاعلی مودودیؒ نے اس کتاب میں مسلمانوں کے سامنے ایک نقشہ پیش کر دیا ہے۔ اس پر عمل کر اس سنہری دور کو پھر سے واپس لایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کو پھر سے اپنی اصل پر آنا پڑھے گا۔تب ہی وہ سنہری دور واپس آ سکتا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو ا۔آمین۔