تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
ایک کہاوت ہے کہ پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک طوطااپنی طو طی کے ہمراہ خوراک کی تلاش میں دن رات سفر کرتے ہوئے بالآ خر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جھنگ کی چھت پر آ کر بیٹھ گیا جہاں پر کووں کا ایک غول ادھر سے اُدھر اُڑتے ہوئے اپنی زبان میں شور مچاتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ تم یہاں سے بھا گ جا ﺅ یہاں پر تعنیات ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز و دیگرعملہ انسانیت کی بقا کیلئے اپنی خدمات سر انجام نہیں دے رہے بلکہ انسانیت کا خاموش قاتل بن کر کئی گھروںکے چراغ گل کر چکے ہیں جس کے نتیجہ میں لاتعداد معصوم بچے اور بیوہ خواتین بے سہارا ہو کر اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں جبکہ بوڑھے ورثا خون کے آ نسوروتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھاجائے تو مذکورہ ڈاکٹرز ولیڈی ڈاکٹرز وغیرہ وہ ناسور ہیں جو حرام کی کمائی کی خا طر اپنے مقدس پیشے کے نام پر ایک بد نما داغ بن کر بغیر کسی ڈراور خوف کے انسانیت کی تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہیں ایک وقت تھا کہ جب بیمار و لا غر افراد انھیں اپنا مسیحا سمجھتے تھے لیکن اب وہ ڈریکولا کا روپ دھار کر بے بس ولا چار غریب مریضوں کا خون چوس رہے ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اگر مذکورہ ناسور سر کاری ہسپتالوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا غریب مریضوں کو طبی امداد دیتے توآج یوں سرکاری ہسپتالوں کے باہر لاتعداد میڈیکل سٹورز آباد نہ ہو تے یہاں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم شخص ان کے اس گھناﺅ نے کردار کے خلاف احتجاج یا پھر محکمہ ہیلتھ کااعلی آ فیسر ایکشن لیتا ہے تو یہ کم ظرف خاندان کے سپوت اکھٹے ہو کر اُس کے خلاف مظاہرہ کر کے غریب مریضوں کی دیکھ بھال مکمل طور پر بند کر کے اُنھیں زندہ در گور کر دیتے ہیں یہی کافی نہیں یہ وہ نام و نہاد مسیحا ہیں جواپنے فرائض ومنصبی سر کاری ہسپتالوں کے بجائے کروڑوں روپوں کی لا گت سے تعمیر کیے گئے اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر ادا کر کے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی یاد کو تازہ کرتے ہیں آپ ان کی قابلیت کااندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ یہ بغیر کسی ٹیسٹ کے کسی کا علاج معالجہ کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو یہ ناسور اپنے کلینکوں پر آنے والے ہر مریض سے ٹو کن فیس کم از کم ایک ہزار روپے کے علاوہ ٹیسٹوں کی مد میں ہزاروں روپے کمرے کا کرایہ اور ادویات کی مد میں آئے روز ہزاروں روپے وصول کر نے میں ذرہ بھر دریغ نہیں کرتے یہ وہ ناسور ہیں جو عام ڈلیوری کیس کو آ پریشن کا روپ
دے دیتے ہیں یہاں تعجب خیز بات تویہ ہے کہ ان کے پرائیویٹ کلینکوں سے خریدی گئی ادویات باہر کے میڈیکل سٹوروںسے نہیں ملتی آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ ناسور ادویات سے لیکر باہر سے خریدی ہوئی ہر چیز میں اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں ماسوائے چندایک ڈاکٹروں کے جن کے نام سر فہرست ہیں ڈاکٹر راﺅارشد ایم ایس شاہ کے علاوہ آر تھو پیڈک سر جن ڈاکٹر یسین بھٹی وغیرہ کے بالآ خر کووں کی ان باتوں کو سننے کے بعد طو طا اور طو طی یہ کہہ کر وہاں سے اُڑ گئے کہ ہم ان ناسوروں کی کمائی گئی دولت سے حاصل کی گئی خوراک کو کھا نے سے بہتر ہے بھوک سے نڈھال ہو کر عزت کی موت مر جا نا طوطا اور طو طی اُڑتے ہو ئے جا رہے تھے کہ اسی دوران میونسپل کمیٹی جھنگ کے دفاتر کے قریب سے گزرنے لگے تو توانہوں نے دیکھا کہ چندایک افراد جو غالبا ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے تھے سابقہ ہیڈ کلرک چو ہدری علی محمد کو اپنے گھیرے میں لیکر بڑے درد مندانہ انداز میں پوچھ رہے تھے کہ ہمارا قصور کیا ہے ہم متواتر تین ماہ سے شہر بھر سے غلاظتوں کے انبار اُٹھانے کے ساتھ ساتھ گٹروں کی صفائی پر مامور رہے اس کے باوجود ہمیں تنخواہ نہیں دی گئی آ خر کیوں جس کے جواب میں مذکورہ ہیڈ کلرک اُنھیں کہہ رہا تھا کہ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں قصور ہے توصرف اور صرف کلرک ارشد الہی اور سابقہ سیوریج مین چوہدری اسحاق جو اپنے خو شامدانہ رویے اور چاپلوسی کی بنا پر غیر قانونی طریقے سے ترقی کے منازل طے کرتا ہوا آج چیف سینٹری انسپکٹر اور وہ بھی بغیر کسی اسناد کے عہدے پر تعنیات ہو کر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے نے سابقہ چیف آ فیسر عثمان جو حال تعنیات ساہیوال ضلع سر گودہا کوغلط گائیڈ کرتے ہوئے ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کی تعداد تقریبا ساٹھ ستر افراد کی بتائی لیکن بعد ازاں مذکورہ نام و نہاد چیف سینٹری انسپکٹر تقریبا ایک سو ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے افراد کی تنخواہ وصول کرنے مذکورہ چیف آ فیسر کے دفتر پہنچ گیا جس پر مذکورہ چیف آ فیسر جواپنے آپ کو صادق وامین سمجھتا تھا نے آپ کے بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجہ میں آپ آج تک اپنی تنخواہ سے محروم ہو کر اذیت ناک زندگی گزار رہے ہو حالانکہ میں دوبارہ آپ کی تنخواہ کے بل پر دستخط کروانے مذکورہ چیف آفیسر کے پاس گیاہوں لیکن وہ بضد ہے آپ کی تنخواہ کے بل پر دستخط نہ کر نے پر مذکورہ سابقہ ہیڈ کلرک کی ان باتوں کوسننے کے بعد اُن افراد جن کے سر کے بال آوارہ بادلوں کی طرح بکھڑے ہوئے ہونٹ خشک پتوں کی طرح مر جھائے ہو ئے آنکھوں میںآ نسو موسلا دھار بارش کی طرح قصہ مختصر وہ افراد بے بسی و لا چارگی کی تصویر بنے ہو ئے تھے نے سابقہ ہیڈ کلرک کو بڑے درد مندانہ انداز میں کہا کہ اگر واقعہ ہی سابقہ چیف آ فیسر عثمان اپنے آپ کو صادق و آ مین سمجھتے تھے تو وہ ہمیں سزا دینے کے بجائے کلرک ارشدالہی اور قانون شکن چو ہدری اسحاق کودیتے جس نے آج بھی اپنی اسناد کی فائل میو نسپل کمیٹی جھنگ کے اہلکاروں کو جمع کروانے کے بجائے اپنے قبضے میں لیکر اپنے گھر چھپا رکھی ہے کو عبرتناک سزاسے دوچار کرتا لیکن افسوس کہ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے بہر حال اب ایک محب الوطن شہری مہر اقبال سابقہ سینٹری انسپکٹر نے قانون اور انسانیت کی بالادستی کیلئے ایک تحریری درخواست ڈائریکٹر انٹی کرپشن کو ارسال کر دی ہے جس میں آپ نے مذکورہ آ فیسر جو کرپشن کا بے تاج بادشاہ کے نام سے جانا جاتا ہے کے خلاف موقف اختیار کیا ہے کہ
جاری ہے