برِ اعظم ایشیا کی سب سے بڑی جیل

Published on May 21, 2014 by    ·(TOTAL VIEWS 396)      No Comments

Amjad Khan
آج کل کا گرم موسم کڑک دھوپ زمانہ قدیم میں جلد کو بہت متاثر کر دیا کرتی تھی گورے رنگ کالے ہو جاتے اور کالے رنگوں پہ کیل مہاسے نکل آتے تھے مگر اس جدید دور میں آئے روز دریافت ہونے والی میک اپ کی نئی نئی اقسام نے ہر موسم کے اثر کو بے اثر بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شخص کی اصلیت کی پہچان نا ممکن ہو کر رہ گئی ہے جیسا کہ میک اپ نے ایک عام انسان کی پہچان نا ممکن بنا دی ہے اسی ہی طرح کرپشن کے میک اپ نے جمہوریت،عدلیہ ،یا میڈیا کے اثرات کو بے اثر بنا کر اداروں کی اصلیت کی پہچان ناممکن بنا دی ہے،جس کے سبب اداروں کے اندر میں ہونے والی بے ضابطگیوں ،انسانی حقوق کی پامالیوں اورظلم زیادتیوں پر اُن کے خلاف میرٹ پر کاروائی بہت مشکل ہوکر رہ گئی ہے،جس کا عملی مظاہرہ جتنی مہارت سے ساہیوال سینٹرل جیل میں ہو رہا اتنی مہارت سے شاید کہیں بھی نا ہو رہا ہو، اسے کالا پانی جیل بھی شاید اسی ہی لئے کہا جاتا ہے یہ جیل قیامِ پاکستان سے قبل کی تعمیر شدہ ہے ،جس کا رقبہ تقریباً 18مربع ایکڑ بتایا جاتا ہے جبکہ بلڈنگ صرف 4مربع ایکٹر پر ہی ہے ،زمانہ قدیم میںیہ برِ اعظم ایشیا کی سب بڑی جیل تھی ،اس میک اپ کی بدولت جیل کا ظاہری ماحول تو بڑا صاف ستھرا اور قانون کے بڑا تابع دکھائی دیتا ہے ،مگر اندرونی چہرہ بڑا بھیانک ہے ،اس میں خواتین کے رہنے سہنے کی الگ جگہ ہے ،بچوں کی الگ ،پاگلوں کی الگ ،خواجہ سراؤں کی الگ ،دہشت گردوں کی الگ،عمر قید کے لوگوں کی الگ ،سزائے موت کے لوگوں کی الگ ،اور حوالاتیوں کے رہنے سہنے کی جگہ الگ ہے ،ان مختلف جگہوں کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں ،جیسا کہ بچوں کے رہنے کی جگہ کو بچہ خانہ ،عورتوں کی جگہ کو زنانہ وارڈ ،جبکہ عمر قید اور سزائے موت کے قیدیوں کے رہنے کی جگہ کو (سی پیز )وغیرہ کہا جاتا ہے جہاں موجود لوگوں کو 3ہزار روپے ماہانہ کے عوض روزانہ دو گھنٹے موبائل فون ا ستعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے جبکہ کسی دوسرے وارڈ سے یہاں آکر فون کرنے کیلئے ہیڈبارڈرکو تین سو روپے پر کال دیناپڑتے ہیں جس کے بالکل ساتھ ہی COوارڈہے ،اس وارڈ میں نئے آنے والوں کو بند کیا جاتا ہے ، یہ CO\’sخواتین کیلئے الگ ہیں اور مردو کیلئے الگ ،ان میں تقریباً 6فِٹ مربع کے کافی سارے کمرے ہیں جنہیں چکیاں کہاں جاتا ہے جن میں نہ پینے کا پانی ہے اور نہ ہی صاف لیٹرینزاور ہر چکی میں چھ سے سات افراد کو بند کر دینے کے بعد شام کا کھانا انہیں باسی روٹی دی جاتی ہے جو کہ حلق سے نیچے اُتارنی کافی مشکل ہوتی ہے ،جوکہ ایسے برتنوں میں دی جاتی جنہیں کُتے بھی پسند نہیں کرتے ،لیکن مجبور انسان اسے بھی پسند کرکے سو جاتے ہیں،ان چکیوں کے مین گیٹ کی مخالف سمت میں CP1ہے جہاں سزائے موت کے وہ قیدی بند ہیں جو ہر طرف سے ہی مایوس ہو چکے ہیں اس CP1کی جالیوں کے بالکل سامنے سزائے موت کا پھٹہ ہے اس پھٹے کے خلاف آج کل سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے ورنہ اس جگہ پر تو دس منٹ بھی رُکنا بہت مشکل ہے اس پوری جیل میں کافی بڑاایک ہسپتال بھی ہے جہاں سے پہلی بات تو دوا ملتی نہیں اگر ملے بھی تو وہاں موجود ڈاکٹر زاس قدر قابل اور ذہین ہیں کہ ٹانگ درد کی دوا مانگنے پر معدہ واش کرنے کی اور پیچش روکنے کی دوا مانگنے پر شیمپو تھما دیتے ہیں اس جیل میں ایک بڑا خوبصورت سا کچن بھی ہے جہا ں پر اتنے لذیز کھانے تیار کئے جاتے ہیں کہ اگر وہ گائے بھینسوں کے آگے بھی رکھ دیئے جائیں تو وہ بھی نہ کھائیں،اور مویشیوں کیلئے چارہ کاٹنے یعنی کہ چارہ باریک کرنے والی مشین پر سبزی کا ٹی جاتی ہے جوکہ اُبال کر کھلائی جاتی ہے ،اورجس آٹے سے وہاں روٹی بنائی جاتی ہے اُس کی تو بات ہی کیا ہے ،سوکھی روٹیوں، مکئی کے گانڈے بھوسہ اور گندم کو برابر مقدار میں پیس کر بنائے گئے آٹے سے وہاں روٹی بنتی ہے ، جیل میں ایک انتہائی خطر ناک جگہ بھی ہے جسے سات بلاک کہتے ہیں ، یہ جیل کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے بنایا گیا تھا مگر اسے استعمال موٹا مال بھٹورنے کیلئے کیا جارہا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ جن جگہوں کا ذکر میں متذکرہ بالا تحریر میں کیا اِن کے بالکل درمیان میں ایک گول چکر ہے جہا ں ایک ASIبیٹھتا ہے اسے جیل کی زبان میں چیف وارڈزکہتے ہیں جوکہ وہاں چلنے پھرنے والے ہر شخص پر نظر رکھتا ہے اورمتذکرہ بالا وارڈز اور CP\’sمیں بند لوگوں سے وہاں چلنے پھرنے کے ماہانہ 15سو روپے لیتا مگر اس کے باوجود وہ اپنے سینیئر کے حکم سے جسے کھاتے پیتے گھر انے سے تعلق رکھنے والا محسوس کرتا ہے اُسے اٹھا کر 50سے سو چھتر مارنے کے بعد سات بلاک میں بند کروا دیتا ہے جہاں پر ہر وقت اُن کمروں میں ہی بند رہنا پڑتا ہے جو ایک واش روم سے رتی بھر بھی بڑے نہیں ہوتے ان میں بند ہوتے ہی لوگوں کو خارش ہو جاتی ہے اور علاج نہیں کروا یا جاتا ،خارش اس لئے ہوتی ہے کہ وہاں پینے کیلئے گندا پانی اور کھانے کیلئے آلودہ خوراک جبکہ سونے کیلئے خارشی کمبل جس میں سے بد بو آتی ہو دیا جاتا ہے ہر پل بد بو ہی بد بو آتی رہتی ہے اس کے علاوہ انسان کو دنیاں کی کوئی بھی سہولت میسر نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہاں پر رفع حاجت کا بھی کوئی خاص انتظام نہ ہے وہاں بند انسانوں نے جہاں بیٹھ کر کھانا یا سونا ہوتا ہے وہیں رفع حاجت کرنی ہوتی ہے کیونکہ وہ جگہ تنگ ہی اتنی ہے کہ انسان ٹانگیں لمبی کرکے لیٹ بھی نہیں سکتا ان حالات میں وہاں بند غریب لوگ ہر پل موت مانگتے ہیں مگر اُنہیں نہ زندگی ملتی ہے اورنہ ہی موت، جبکہ روپے پیسے والے اگلے ہی دِن بیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ادا کرکے وہاں سے نکل جاتے ہیں ، ان مختلف طریقو ں سے ایک طرف توجیل کے اندر سے تقریباً 30سے 50لاکھ روپیہ ماہانہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے بھی بھاری فنڈز کی وصولی کی جاتی ہے،مگرجیل کانظام قیدی ہی چلا تے ہیں یہاں تک کہ وہاں پر ہونے والی سفیدی بھی قیدیوں کی ہی جیب سے ہوتی ہے،ان تمام تر معاملات کی شکایت کرنے والے کو سات بلاک پھینک دیا جاتا ہے اس لئے کوئی بھی شکایت نہیں کرتا اور نہ ہی وہاں کی شکایت پر جلد کوئی نوٹس لیتا ہے کیونکہ وہاں پر پاؤں سے لے کر سرتک میک اپ کیا جاتا ہے اسی ہی لئے تو جب سے یہ جیل بنی ہے تب سے لے آج تک وہاں کے حالات نہیں بدل سکے اگر میری اس تحریر پر کسی کو یقین نہ آرہا ہو تو وہ خود جاکر دیکھ سکتا ہے بشرطِ کہ حوالاتی بن کرجائے تو وہ یہ بھی دیکھ لے گا کہ کرپشن کے علاوہ انسانی حقوق کی دھجیاں بھی کیسے اُڑائی جا رہی ہیں جو کہ ایک مسلمان قوم کی جمہوری حکومت میں انصاف کے منہ پر تماچے سے کم نہیں،خیر لکھنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر تحریر پہلے ہی کافی لمبی چکی ہے لہذا آج کیلئے اتنا ہی ،مذید پھر کبھی سہی

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes