اس وقت پاکستان میں ہر طرف توہین توہین کی صدائیں بلند ہورہی ہیں ۔ توہین مذہب توہین رسالت توہین صحابہ اور اب توہین اہل بیت ۔پاکستان میں توہین رسالت کا قانون متعارف کروایا گیا اور اس کی سزا موت مقرر کی گئی ۔اس قانون کے تحت بہت سے افراد کو حراست میں لیا گیا کچھ کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا کچھ کو ماروائے عدالت قتل کر دیا گیا ۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ کسی پر بھی توہین ثابت نہیں ہوئی بلکہ حالات اور واقعات سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ تقریبا ہر ملزم کو
جھو ٹے طور پر ملوث کیا گیا ۔اس طرح کچھ کی تو رہائی عمل میں آئی اور کچھ کو ابھی تک پیشیوں کا سامناہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ توھین ہے کیا ۔۔اس کے محرکات کیا ہیں اور واقعی اس کو قانونی حیثیت ملنی بھی چاہیے یا نہیں ۔؟
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ تقریبا ہر مذہب میں جزباتی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ جو مذہب کو اپنے طریقے اور نظریات سے دیکھتے ہیں ۔۔ کچھ لوگ ایسے لوگوں کو مذہبی جنونی بھی کہتے ہیں ۔ ایسے لوگ مذہب کی تعلیمات سے تو مکمل واقف نہیں ہوتے مگر ان کے جزبات زرا زرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں اور ان کی نظر میں ہرخلاف اسلام بات توھین کے زمرے میں آتی ہے ۔۔کچھ لوگ ان کو مفاد پرست ٹولہ بھی کہتے ہیں ۔
آخر توہین کی تعریف کیا ہے ۔ کب اور کس پر لاگو ہوتی ہے ۔ کیا اس کی سزا میں انصاف کے پہلووں کو مد نظر رکھا جاسکتا ہے ، یعنی اگر توہین ثابت نہ ہوتا الزام لگانے والا بھی ویسا ہی مجرم قرار پاتا ہے ۔؟؟یہ وہ سوالات ہیں جن کو تلاش کرنا بہت ضروری ہے ۔
اللہ تعالی نے ہر مسلمان کے لئے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔ اللہ تعالی یہ بھی فرماتا ہے کہ حقوق اللہ معاف ہوسکتے ہیں مگر حقوق العباد نہیں ۔۔۔ اب اگر ہم اپنے معاشرے پر نگاہ دوڑائیں توکیا اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کے مطابق سب کو حقوق مل رہے ہیں یا عوام الناس اس سے محروم ہے اوراگر ایسا نہیں ہے تو پھر اللہ تعالی کی اس بات پر عمل نہ کرکے اللہ تعالی کی کون سی خوشنودی حاصل کی جارہی ہے ۔ کیا یہ کسی توھین کے زمرے میں نہیں آتی ۔؟
اللہ تعالی نے مذہب کو بہت آسان بنایا ہے۔مگر نجانے کیوں اس کو مشکل اور پچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ عام انسان اس کی تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔۔ ایک طبقہ فکر مذہب کی ایک تعریف بیان کرتا ہے تو دوسراا س کو دوسرے نظریے سے دیکھتا ہے ۔
ابھی حال ہی میں سما ء ۔اے آر وائی اور جیو پر ایک ہی طرح کی قوالی ایک سنجیدہ تنازے کا باعث بنی ہوئی ہے ۔ ان تنیوں ٹیلی ویثرن
چینل نے ایک ہی متنازیہ قوالی کو شادی کی ایک ہی طرح کی تقریب میں دکھایا ۔لیکن زیر عتاب جیو آیا ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ باقی چینل میں وینا ملک جلوہ افروز نہیں تھیں ۔ اس لئے نظر انداز کر دیا گیا ۔ مگر جیو نے وینا ملک کو بلا کر اسی پر یہی قوالی چلوادی تو قابل اعتراض اور توہین اہل بیت کے زمرے میں آگئی ۔۔تو گویا یہ معیار ہے اہل بیت سے محبت اور عقیدت کے اظہار کا ۔
اپنی صفائی میں بیان دینے والے دیگر چینل اس قوالی کو پیش کرنے کے مہذب طریقے پر زور دیتے ہیں ۔ اس لئے خود کو اپنے چینل پر پیش کی گئی اس قوالی کو توھین سے بری ازمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ صاحب ! بات تو ایک ہی ہے ۔ کان کو دائیں طرف سے پکڑا جائے یا بائیں طرف سے ۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ایسی قوالی تحریر ہی نہیں کرنی چاہیے تھی ۔
اور پھر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت سے عقیدت اور محبت کا یہ کون ساانداز ہے کہ اب نعت ہو یا منقبت میوزک چلانا ضروری ہے ۔ احترام اور عزت کا یہ تقاضا ہے کہ سادگی محبت نہ صرف انداز میں نظر آئے بلکہ پیش کرنے کا طریقہ بھی سادہ ہو ۔
اس وقت زیادہ تر پیش کی جانے والی صبح کی نشریات شتر بے مہار کی طرح ہوتی جارہی ہیں ۔ کیا کچھ ہنگامہ اور ڈرامہ نہیں رچایا جاتا کہ اب تو چند لمحہ بھی دیکھنا محال ہوتا جارہا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ترکی ڈراموں کی بے لگام بھرمار نے معاشرتی ادب وآداب کو تہہ بالا کر دیا ہے ۔ کیا یہ توہین معاشرہ نہیں ہے۔ اسلام امن محبت اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے ۔ مگر ہم نے اس تعلیم کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے ۔ اور مذہب کے نام پر خون کو جائز قرار دے کر معاشرے میں گھٹن کی فضا پیدا کر رکھی ہے ۔ جس کا سدباب کرنے سے ہی معاشرہ سکون کا سانس لے سکتا ہے ورنہ الزامات کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ یونہی جاری رہے گا ۔اور انسانی معاشرے کا امن و سکون تباہ کرتا رہے گا ۔