تحریر عقیل خان
جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
نئے سال کا آغاز ہونے کو ہے۔پھر سے نئے سال سے نئی امیدیں وابستہ کی جائیں گی۔ گزرے سال سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جائےگا۔ ہم لوگ ہر سال کی طرح آنے والے سال کو خوش آمدید کہیں گے۔ ہر کام میں بہتری ہونے کا سوچیں گے۔زندگی ایک نعمت ہے جو اللہ کی طرف سے ہمیں عطا کی گئی ہے۔ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اس نے ایک نہ ایک دن ضرور جانا ہے۔ اسی لیے اس دنیا کو فانی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے ایک دن فنا ہوجانا ہے۔ انسان دنیا میں آتاتو ایک ترتیب سے ہے مگر جانے کی کوئی ترتیب نہیں۔ موت برحق ہے اور کفن پر شک ہے۔ اس کے باوجود ہمیں زندگی سے پیار ہے۔ ہمیں اس دنیا سے پیار ہے جو عارضی ہے۔ 2022ہم سے جدا ہونے والا ہے۔2022 میں بہت سے ہمارے اپنے پیارے ہمیں روتا چھوڑ کر اپنے اصلی گھر کی طرف چلے گئے۔ ان میں ایک ہستی میری ماں کی بھی ہے جو اس سال کے آخری مہینے کے پہلے دن ہمیں روتا چھوڑ کر چلی گئی۔ بچھڑنے والوں میں کچھ نامور شخصیات بھی شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنی خدمات وقف کررکھی تھیں۔
لتا منگیشکر
لتا منگیشکر28 ستمبر 1929کو اندور بھارت میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد دِینا ناتھ منگیشکر بھی گلوکار اور اداکار تھے۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی گلوکاری کی طرف مائل تھیں۔ موسیقار غلام حیدر نے ان کی حوصلہ افزاءکی اس کے بعد وہ کامیابی کی بلندیوں کی طرف روانہ ہوگئیں۔سروں کی بے تاج ملکہ لتا منگیشکر 6 فروری 2022کو 93 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ ان کا باکمال کیریئر 7 عشروں پر محیط تھا۔ انہوں نے 30 سے زائد زبانوں میں ہزاروں یادگار گیت گائے۔ ایک جانب جہاں ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوا تو وہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی اہم اعزازات ان کے نام ہوئے۔لتا کے گلے میں بھگوان والی گلوکارہ کو بھارت رتن، دادا صاحب پھالکے، پدم بھوشن اور نیشنل ایوارڈز سمیت متعدد ملکی و غیر ملکی اعزازت سے نوازا گیا۔
عامر لیاقت حسین
وہ 5 جولائی، 1971 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1995 میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے بیچلر آف میڈیسن، بیچلر آف سرجری (ایم بی بی ایس) کی ڈگری حاصل کی اور 2002 میں اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی ڈگری ٹرینیٹی کالج سے حاصل کی۔ انہوں نے ٹرنیٹی کالج اور یونیورسٹی سے 2002 میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ عامر لیاقت حسین کے والد شیخ لیاقت بھی قومی اسمبلی کے ایک رکن تھے انہوں نے 1994میں متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد 1997میں ایک نشست جیتی تھی۔معروف ٹی وی میزبان اور رکن قومی اسمبلی، عامر لیاقت حسین 9 جون 2022کو جہان فانی سے کوچ کرگئے۔
نیّرہ نور
نیرہ نور 3 نومبر 1950 کو موجودہ ہندوستان کے آسام میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان پیشہ ورانہ طور پر تاجر تھا، جو امرتسر سے آسام کے شہر گوہاٹی میں آ بسا تھا۔ نیرہ کے والد مسلم لیگ کے ایک فعال رکن تھے اور 1958میں یہ خاندان پاکستان کی طرف ہجرت کر آئے۔
جن آوازوں نے پاکستانی موسیقی کو اوج بخشا ان میں نیّرہ نور کا نام بھی شامل ہے۔ ان کی گائیکی ایک درخشاں باب تھی۔ 21 اگست 2022ءکو یہ باب بند ہوا، جب یہ باکمال گلوکارہ جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ان کی عمر 72 سال تھی۔ بلبل پاکستان کہلانے والی نیّرہ نور نے پاکستانی صنعت کو ’روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناو¿ں پیا‘، ’اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘ اور ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ جیسے باکمال گیت دیے۔ آخر کے برسوں میں انہوں نے گائیکی ترک کردی تھی۔ نیّرہ نور کو پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔
اسمٰعیل تارا
اسماعیل تارا 16 نومبر 1949کو کراچی میں پیدا ہوئے۔اسماعیل تارا کی اداکاری کی دنیا میں وجہ شہرت پی ٹی وی کے مزاحیہ خاکوں پر مبنی سلسلہ ففٹی ففٹی ہے۔جس میں انہوں نے اداکاری کے علاوہ بعض خاکے بھی لکھے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے مزاحیہ اداکار ماجد جہانگیر کے ساتھ مل کر بہاری لہجے میں منوا اور ببوا کے لازوال کردار تخلیق کیے۔ یہی دو کردار ایکسپریس ٹی وی پر پھر شروع کیا گیا “عجب کہہ رہا ہے بھئی “ کے نام سے۔ ففٹی ففٹی میں ماجد جہانگیر اور زیبا شہناز کے ساتھ ان کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔اسماعیل تارا نے ٹی وی اور اسٹیج کے علاوہ 14 پاکستانی فلموں میں بھی کام کیا۔ فلم چیف صاحب اور فلم دیواریں میں کام پر بھی اسماعیل تارا کو نگار ایوارڈ دیا گیا۔’ففٹی ففٹی‘ کا ستارہ، ہزاروں چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا اسمٰعیل تارا 24 نومبر 2022 کو جہان فانی سے کوچ کرگیا۔73 سالہ یہ فنکار گردوں کے امراض میں مبتلا تھا۔۔ تمغہ حسن کارکردگی بھی ان کے حصے میں آیا۔
کنیز فاطمہ
کنیز فاطمہ اس ہستی کا نام ہے جومیرے لیے دنیا کی سب سے قیمتی اور نایاب ہستی ہے۔ یہ میری ماں کا نام ہے۔ آپ 1934 میں انڈیا کے ایک گاو¿ںمیں پیدا ہوئیں۔ آپ کی تین بیٹے اور پانچ بیٹیاںتھیں۔آپ نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔آپ کے بیٹے 17گریڈ اور 18گریڈ کے عہدوں پر فائز ہیں۔ مجھ جیسے ناکارہ کالمسٹ کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں اس ہستی کا بیٹا ہوں۔ آپ کے نواسے ڈاکٹرز ، کپیٹن سمیت مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ آپ کا پوتا آئی ٹی کے میدان میں اپنا نام پیدا کررہا ہے۔ آپ پر 19 نومبر کو فالج کا اٹیک ہوا، آپ یکم دسمبر کو اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ اس ہستی کے جانے سے میری اپنی دنیا اجڑ گئی۔ میرا چمن ویران ہوگیا۔
افضال احمد
افضال احمد جھنگ کے ایک سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اشفاق احمد کے ڈرامے اچے برج لاہور دے (کارواں سرائے ) میں صرف 18 برس کی عمر میں50 سالہ بوڑھے کا کردار ادا کرکے سب کو حیران کر دیا تھا۔ اداکاری کے شوقین افضال احمد نے اپنے 35 سالہ کیریئر کے دوران اردو، پنجابی، پشتو فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے اپنی بہترین اداکاری کے جوہر کے باعث 90 کی دہائی میں خوب شہرت کمائی۔جب 2 دسمبر کو فلم، ٹی وی اور اسٹیج کے معروف اداکار افضال احمد کے انتقال کی خبر ملی تو یہ بڑی حد تک متوقع تھی۔ وہ کئی برس سے فالج کے مرض میں مبتلا تھے البتہ اسپتال کے بستر سے سامنے آنے والی آخری لمحات کی تصاویر نے سب کو دل گرفتہ کر دیا جہاں اس ضعیف العمر فنکار کو بستر بھی میسر نہیں تھا۔