پاکستان میں آج تک کسی بھی الیکٹرونک آلات یا میڈیا سے وابستہ چیز کو صحیح ، درست اور تعمیری نظریئے سے استعمال نہیں کیا گیا ہمیشہ ذاتی مفاد ، تسکین اور روپے کی لالچ میں آکر ملکی اور قومی سطح پر نقصان کا سبب ہی بنایا گیا جس کے نتیجے میں ہمیشہ منفی ، نفرت ، اشتعال انگیزی اور جرائم کا جنم ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ بدستور پروان چڑھتا رہا ۔ جب سنیما کا دور شروع ہوا تو دنیا کے تمام ممالک نے ہر موضوع پر ہلکی پھلکی سے لے کر پر تشدد تک کی فلمیں بنائیں ، فلم میکرز کا اصل مقصد پیسا کمانے کے ساتھ ساتھ فلم بینوں کو تفریح مہیا کر نا بھی شامل ہوتا تھا اور خاص طور سے اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ فلم بین فلم کو دیکھ کر کسی منفی کردار کو نہ اپنائے علاوہ ازیں سینسر بورڈ کسی ایسی فلم کو سر ٹیفیکیٹ جاری نہیں کرتا جس کو دیکھنے کے بعد فلم بین کرائمز کی طرف متوجہ ہوں ۔
پاکستان کے قیام کے بعد پندرہ بیس سال تک تو عام سماجی ، معاشی اور خاص طور پر لو سٹوری پر مبنی موضوعات پر فلمیں منتی رہیں جن میں اردو فلموں کی تعداد زیادہ تھی لیکن جیسے ہی پنجابی فلموں کا دور شروع ہوا وہاں سے لوگوں میں کرائم کرنے کی بھی عادت پڑ گئی ، پنجابی فلموں کی بھرمار نے قوم میں نفرت ، تشدد اور اشتعال انگیزی پھیلا دی ہاتھوں مکوں کی جگہ لاٹھیاں ڈنڈے آئے پھر چاقو چھریاں اور کچھ عرصہ بعد ان نام نہاد سٹوری اور سکرپٹ رائٹرز نے ڈائیریکٹر کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ اب وہ پرانا دور نہیں رہا ٹرینڈ بدل گیا ہے اس ٹرینڈ کو بدلنے میں بھارت کا بھی ہاتھ تھا چنانچہ پسٹل ، ریوولور ، بندوق ، سٹین گن اور بعد میں اے کے 47(کلاشنکوف) کو متعارف کروایا گیا ، ہر پنجابی فلم میں جدید اسلحے کی نمائش کی گئی جس کے نتیجے میں ملک کے کونے کونے میں نام نہاد سیاست دانوں کی مہربانی سے ان جاہل فلم میکرز نے اسلحہ پھیلا دیا ۔ملک اور قوم کو نیست و نابود کرنے میں سیاست دانوں سے زیادہ ان جاہل فلم میکرز کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، فلم انڈسٹری میں گنتی کے چند افراد ہی تعلیم یافتہ تھے وہ جانتے تھے کہ فلم میکر جس پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے وہ تعمیری نہیں ہے اور سنیما بین کو کرائم کرنے پر اکسائے گا لیکن لگی لگائی روزی روٹی کو کوئی لات نہیں مارتا ۔فلم لائن سے وابستہ لوگوں کے امریکا ، کینیڈا ریٹرن آعلیٰ تعلیم یافتہ بچے بھی اسی رنگ میں رنگ گئے حالانکہ وہ بھی جانتے تھے فلم کے نام پر قوم کو ذہنی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے عریانیت اور بات بے بات تشدد دکھا کر کوئی معرکہ نہیں سر انجام دیا جا رہالیکن انہوں نے بھی کسی قسم کی کوئی تعمیری جدو جہد نہیں کی اور بدستور فلم کے نام پر جرائم کو فروغ دیتے رہے وہ جانتے تھے کہ اگر ایسا چلتا رہا تو ایک دن فلم کے نام پر قائم عریا نیت اور جنگ وجدل سے بھرپور انڈسٹری بند ہو جائے گی اور وہی ہوا کیونکہ فلم یا ٹی وی ڈرامے صرف بندوق ، عریانیت ، بے تکی کومیڈی یا گانوں سے نہیں بلکہ سبجیکٹ سے بنتے اور چلتے ہیں ۔
پاکستان میں چند لوگوں کے علاوہ کبھی کسی فلم میکرز نے کلاسیکل یا آرٹ مووی بنانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ وہ جانتے تھے اس ملک کے عوام کسی سنجیدہ یا ہلکے پھلکے سبجیکٹ کو پسند نہیں کرتے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ عوام میں شعور ہی نہیں کہ ایک عام سے سماجی اور معاشی موضوع پر فلم دیکھی جائے انہیں تو وائلینس اور فحاشی دکھا کر ہی پیسا کمایا جا سکتا ہے اور ان جاہل محب وطن فلم میکرز نے دھڑا دھڑ بے مقصد بے سر وپا تشدد اور عریانیت سے بھرپور فلمیں تین تین ہفتوں میں مکمل کیں اور عوام کے سامنے رکھ دیں دیکھو اور کرائم کرو۔۔۔
رہی سہی کثر آج کل پشتو فلموں میں پوری کی جارہی ہے یا انڈین اور پشتو فلموں کے بینرز اور پوسٹرز لگا کر سنیماؤں میں فحش فلمیں دکھائی جارہی ہیں اور پولیس رکھوالی کر رہی ہے،کیا یہ لوگ نابینا ہیں انہیں نظر نہیں آ رہا کہ قوم تو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اوپر سے یہ غلاظت دکھا کر آنے والی نسلوں کو تباہی اور بربادی کے اس گندے گٹر میں دھکیلا جا رہا ہے جہاں سے وہ کبھی باہر نہیں نکل سکیں گے ۔
اسلامی ری پبلک پاکستان کو فحاشی ری پبلک بنا یا جا رہا ہے ،حکومت اور سینسر بورڈ ستو اور بھنگ پی کر گہری نیند سو رہے ہیں ۔
وی سی آر(ویڈیو) مارکیٹ میں آنے کے بعد پاکستانی فلموں کا زوال شروع ہو گیا تھا سٹوڈیوز بند ہو گئے مالکان اور کچھ نام نہاد اداکار امریکا کینیڈا چلے گئے اور وہاں بزنس شروع کیا جو باقی بچے وہ ٹی وی کی چھوٹی سکرین کی طرف لوٹے اور ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا ، انڈین اور انگریزی ویڈیو فلمیں کرایہ پر ملنی شروع ہو گئیں اور یہاں سے فلم کے نام کا دوسرا دور چھوٹی سکرین پر فحاشی سے شروع ہوا، ابھی یہ دھندہ مکمل طور پر پھیلا نہیں تھا کہ کمپیوٹر نے آ کر دنیا میں تہلکہ مچا دیا تخریبی لوگوں نے اس مشین کو کبھی کسی تعمیری کام کے لئے استعمال نہیں کیا ، ابھی یہ گھر گھر نہیں پہنچا تھا کہ موبائل فونز نے اس الیکٹرونک ڈبے کو پچھاڑ دیا ، موبائل فونز کی ایجاد کا اصل مقصد ایمر جینسی کالنگ اور بزنس کا ذریعہ ہے اسے بھی منفی کاموں میں استعمال کرنا شروع کر دیا اور آج کل ٹیبلیٹ اور سمارٹ فون کا دور ہے اسے بھی غلط کاموں اور جرائم میں استعمال کیا جا رہا ہے ، لبِ لباب یہ کہ پاکستان میں میڈیا اور الیکٹرونک آلات سے وابستہ کسی چیز کو تعمیری نہیں بلکہ تخریبی کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے فیس بک اور یو ٹیوب یا ریڈ ٹیوب بھی تخریبی کاموں میں زورو شور سے استعمال کی جارہی ہے ۔ پابندیاں بھی اسی زمرے میں لگائی گئیں ہیں ۔دیکھا جائے تو آج پاکستان کے ٹی وی ڈراموں کا حال بھی پاکستانی پنجابی فلموں سے کم نہیں ان ڈراموں میں وہی کچھ دکھایا جا رہا ہے جو سن ساٹھ سے لے کر سنیما کے زوال تک پنجابی فلموں میں دکھایا جاتا تھا ۔ ملک میں کسی سینسر بورڈ کا نام و نشان نہیں ، چھوٹے بڑے، عورت ، بچے کے لئے کوئی شوئینگ رینکنگ کیٹا گری نہیں کسی کو کچھ نہیں معلوم کیا دکھانا ہے اور کیا نہیں ، جس کے پاس دو چار کروڑ روپیہ ہے وہ پہلے گھٹیا ، لچڑ فلمیں بناتا تھا آج ٹی وی ڈراموں میں انویسٹ کر کے عورتوں اور بچوں کا بیڑا غرق کر رہا ہے ، اور نام نہاد سیاست دان ، رہنما ، لیڈرز ،ٹھرا،افیون ، چرس، ہیروئن ، بلیک لیبل ،شیواز ریگل پی کر گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔
اب ایک نظر ترقی یافتہ ممالک کی طرف ۔۔۔
آج سے تقریباً پچیس سال قبل موٹورولا کمپنی نے ڈائنامک اڈاپٹیو ٹوٹل ایریا کوریج ٹیلی فون کے نام سے موبائل فون متعارف کروایا جس کا وزن آٹھ سو گرام(لگ بھگ ایک کلو)اور قیمت تین ہزار نو سو پچانوے ڈالر تھی اس فون میں تیس نمبر محفوظ کئے جا سکتے اور ایک گھنٹہ تک بات کی جا سکتی تھی اس مہنگی ہڈی کو لاکھوں لوگ حاصل کرنا چاہتے تھے اور کئی کئی دنوں تک انتظار کی فہرست میں رہے ۔ رفتہ رفتہ دنیا بھر میں نوکیا ، سیمینس ، ایلکا ٹیل اور پھر ہر چھ ماہ و سال بعد نت نئے ناموں اور کیٹا گری سے موبائل فونز متعارف ہوئے وزن اور قیمتیں کم ہوئیں اور چند سالوں میں ہی کومپییوٹر جیسی بڑی مشین سکڑ کر سمارٹ فونز اور ٹیبلیٹ میں تبدیل ہو گئی ۔ کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ دنیا بہت بڑی ہے جبکہ آج بچے بچے کی جیب میں سمارٹ فون موجود سے دنیا اسکی جیب میں ہے ۔
مغربی ممالک میں بچوں اور موبائل نیٹ ورک پر تحقیقات کی گئیں جس میں بتایا گیا کہ پیمپرز سے چھٹکارہ ملتے ہی دنیا کا ہر تیسرا بچہ موبائل کا
استعمال شروع کر دیتا ہے ان بچوں کو جوتے کا تسمہ باندھنا اور سوئمنگ کرنا نہیں آتا لیکن موبائل اور ٹیبلیٹ کے ہر فنکشن سے آگاہ ہیں ۔
ماہرین نے والدین کو بچوں کی اس عادت سے خبردار کیا ہے کہ یہ بچوں کے لئے خطرناک ہیں ، ریسرچ کے مطابق چھوٹے بچے کتابوں میں دلچسپی اسلئے نہیں لیتے کیونکہ وہ حرکات نہیں کرتیں جبکہ سمارٹ فون اور ٹیبلیٹ میں دنیا چلتی پھرتی نظر آتی ہے ان کا کہنا ہے کہ تین سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں رحجان پیدا ہو گیا ہے وہ کومپیوٹر اور سمارٹ فونز کو گہری دلچسپی سے دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں اور صرف ہر دسویں بچے کو جوتے کے تسمے باندھنا ، سائیکل چلانا یا سوئمنگ کرنی آتی ہے ،ماہرین کا کہنا ہے آج کے بچے میڈیا کو سیکھنے میں اپنے ذہن کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور بنی بنائی چیزوں میں عدم دلچسپی ہے ، ماہرین نے ان آلات کی اس تیزی سے استعمال اور نتائج کے خلاف خبردار کیا ہے موبائل بچوں کو مغلوب کر سکتا ہے ، یہ بات درست ہے کہ آج کے دور میں موبائل انٹر نیٹ کی بدولت دنیا بھر کی معلومات میں رسائی دوسرے لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیال کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے انسانوں کے لئے فائدہ مند ہے لیکن بچوں اور نوجوانوں کی لاپرواہی ان کی تعلیم اور سماجی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے کیونکہ انٹر نیٹ سے منسلک دیگر نیٹ ورک سائبر کرائمزسے پیدا ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہیں ۔
مغربی ممالک میں جب بھی کوئی نئی چیز ایجاد ہوتی ہے تو ماہرین ماہ وسال ان پر تحقیق کرتے ہیں اور دنیا بھر میں ان ایجادات کے فوائد اور نقصانات سے تفصیلاً آگاہ کرتے ہیں تاکہ انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے مشکلات اور مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے اس کے بر عکس پاکستان میں ہر نئی چیز کو انسانوں کو نقصان پہنچانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ عمل بدستور جاری ہے ، ملک کے لاکھوں کروڑوں انسان ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر امریکا اور یورپ کو دادِتحسین دیتے ہیں کہ یہ لوگ کتنی ترقی کر گئے ہیں انہیں مہذب دنیا اور انسان کے نام سے گردانتے ہیں کئی لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں تمام اسلامی کام تو یہ لوگ کرتے ہیں ہم تو نام کے مسلمان ہیں وغیرہ ۔اور ہم ان جیسا کیوں نہیں بن سکتے ؟
تو عرض ہے ان جیسا مہذب بننے کے لئے جو کچھ اپنے اندر غلاظت کا ڈھیر جمع کر رکھا ہے(جلن، حسد، چغلی،جھوٹ،بے ایمانی،ملاوٹ، دھوکہ،۔۔۔۔۔۔)اسے صاف کرنا ہو گا، کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے ۔شاید کسی کو کچھ سمجھ آئے؟۔