فیصل آباد (یو این پی)پاکستان میں پیداہونیوالے 40اقسام کے پھلوں و سبزیوں کی سالانہ پیداوار 15ملین ٹن سے بھی تجاوز کر گئی ہے جبکہ 20سے 40فیصد تک پیداوار کھیت سے منڈی تک ترسیل کے دوران ضائع ہونے سے کاشتکاروں کو بھاری مالی نقصان کاسامناکرناپڑ رہاہے لہٰذاکاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ کھیت سے منڈی تک ترسیل کے دوران ضائع ہونے والے پھلوں اور سبزیوں کو بچانے سمیت بعد ازبرداشت عوامل کیلئے جدید ٹیکنالوجی اپنا کر بین الاقوامی منڈی میں پھلوں اور سبزیوں کی ترسیل سے زیادہ منافع حاصل کیاجاسکے۔پوسٹ ہارویسٹ ریسرچ سنٹرآری فیصل آباد کے ماہرین کے مطابق مذکورہ ادارہ اپنے قیام سے اب تک پھلوں اور سبزیوں کے بعد ازبرداشت نقصانات کو کم کرنے، پھلوں اور سبزیوں کے طریقہ برداشت کو بہتر بنانے، پختگی کے معیار کا تعین کرنے اور ان کو ذخیرہ کرنے کی جدید ٹیکنالوجی کی تیاری میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 1989میں پنجاب حکومت نے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کے تعاون سے ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ میں پوسٹ ہارویسٹ ریسرچ سنٹر قائم کیاجس نے تاریخ تشکیل سے اب تک زراعت کے شعبہ میں گراں قدار خدمات سرانجام دی ہیں جن میں پھلوں اور سبزیوں کے بعد ازبرداشت نقصانات کو کم کرنا، مقامی پھلوں اور سبزیوں کے طریقہ برداشت کو بہتر بنانا اور آلو اور پیاز کی کھیتوں میں ذخیرہ کرنے کی کم قیمت ٹیکنالوجی متعارف کرانا شامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پھلوں اور سبزیوں کی بعدازبرداشت شیلف لائف بڑھانے اورایکسپورٹ کوالٹی کی تیاری کیلئے پری کولنگ ٹیکنالوجی و کولڈ سٹوریج ٹیکنالوجی کا قیام، گریڈننگ پیکنگ یونٹ کا قیام اور موبائل ائیر پلاسٹ ٹرک برائے ترسیل کے اقدامات نہایت ضروری ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ شعبہ پوسٹ ہارویسٹ سنٹر کے زرعی سائنسدان کسانوں،کھیتوں اور منڈیوں میں کام کرنے والی افرادی قوت اور زرعی ایکسپورٹ سے متعلقہ کمپنیوں کے لوگوں کی اصلاح اور رہنمائی کیلئے تربیتی پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ادارہ میں آم، کینو،امرود،آڑو، سٹرابیری،انگور،انار، لیچی، لوکاٹ،گاجر،پھول گوبھی،آلو، مرچ،پیاز، ٹماٹر اور شملہ مرچوں کی بعد ازبرداشت زندگی کو بڑھانے کیلئے تحقیقات مسلسل جاری ہیں۔