عمران خان حکومت کے خلاف اپنی سیاسی مہم جوئی کے جوش میں زمینی حقائق اور ملک کے مختلف طبقوں کے جذبات و احساسات سے مکمل طور سے عاری ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی صورتحال پوری قوم کے سامنے عیاں ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے سربراہ اس سے بے خبر ہیں اور حکومت سے اصرار کر رہے ہیں کہ وہ قوم کو آگاہ کرے کہ یہ مذاکرات کس مرحلے پر ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عمران خان ایک سانس میں حکومت پر گولہ باری کرتے ہیں اور اسے قبائلی علاقوں میں مظالم کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن اگلی ہی سانس میں پاک افواج کی توصیف کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ اگر فوجی آپریشن ناگزیر ہے تو حکومت کو اس کی سیاسی اونر شپ لینی چاہئے۔
اس بیان میں ایک مشکل تو یہ ہے کہ عمران کی ممدوح افواج پاکستان نے شروع سے ان مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں ناامیدی کا اظہار کیا تھا۔ اگرچہ فوجی قیادت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ سیاسی لیڈر اپنی صوابدید کے مطابق مذاکرات کو ایک آخری موقع دینا چاہتے ہیں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن افواج پاکستان خود ان مذاکرات کا بجا طور پر حصہ بننے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ جبکہ طالبان کی طرف سے روز اول سے فوج کو فریق بنانے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ طالبان سے مذاکرات کا آغاز وزیراعظم میاں نواز شریف کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اس فیصلہ سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اسے بدنیتی قرار دینا مشکل ہے۔ پوری قوم طالبان کے جبر سے تنگ آ کر اور سکیورٹی فورسز پر جارحانہ حملوں کے تناظر میں انتہا پسندوں کی بیخ کنی کے لئے فوجی کارروائی کے لئے تیار تھی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنی تحریر شدہ تقریر تبدیل کرتے ہوئے مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی کا بھی اعلان کر دیا۔
اس کمیٹی کے بارے میں اگرچہ متعدد تبصرے سامنے آتے رہے ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسے وزیراعظم پاکستان کی ذاتی حمایت حاصل تھی۔ اس کے جواب میں طالبان نے جن لوگوں کو مذاکرات کے لئے بھیجا ان کی ہئیت ترکیبی سے ہی ظاہر ہو گیا تھا کہ یہ گروہ پائیدار امن کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ صرف قلیل المدت مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جن میں پاکستانی جیلوں میں قید طالبان کی رہائی سرفہرست مقصد تھا۔ یادش بخیر عمران خان بھی اس کمیٹی کے رکن نامزد کئے گئے تھے لیکن انہوں نے طالبان کا نمائندہ بن کر یہ مسئلہ حل کرانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کو خود حکومت سے معاملات طے کرنے چاہئیں۔
میاں نواز شریف نے مذاکرات کا رسمی آغاز کر کے بہت بڑا سیاسی رسک لیا تھا لیکن طالبان اس پیشکش کی قدر کرنے اور اس کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ کسی بھی دہشت گرد اور ملک دشمن گروہ کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کی بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی جنگ جوئی بند کرے، ملک کے آئین اور حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم کرے۔ طالبان ان میں سے کوئی بھی شرط پوری نہیں کر سکے بلکہ دوران مذاکرات بھی وہ آئین پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سنگین جرائم میں ملوث مقید طالبان کی ایک طویل فہرست حکومت کے ہاتھ میں تھما دی کہ ان کی رہائی سے قبل بات چیت نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے چند درجن طالبان رہا بھی کئے لیکن طالبان نے اپنی قید میں کسی پاکستانی کو رہا نہیں کیا۔ ان میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر سلمان تاثیر کے صاحبزادگان بھی شامل ہیں۔
عمران خان پہلے بھی یہ مضحکہ خیز بیان دے چکے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اس لئے دہشت گرد کارروائیوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب انہوں نے پلوں کے نیچے سے ٹنوں پانی گزرنے کے بعد پھر یہ بیان دہرایا ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس قومی لیڈر کی اصل حکمت عملی کیا ہے اور اگر وہ فوجی کارروائی کے خلاف ہیں تو فوج کی تعریف میں کیوں رطب اللساں رہتے ہیں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد دہشت گردی روکنے کے لئے فوجی کارروائی ضروری ہے تو وہ کس سیاسی اونر شپ کی بات کر رہے ہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان یہ قرار دے چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں بمباری حکومت کی اجازت سے ہو رہی ہے۔ عوام بھی طالبان کے مظالم اور سنگدلانہ رویہ سے عاجز آ چکے ہیں۔ ان حالات میں تو تمام سیاسی لیڈروں کو غیر مشروط طور پر فوجی کارروائی کی تائید و حمایت کرنی چاہئے۔ اسی کو پولیٹیکل اونر شپ کہا جائے گا۔ عمران خان ایک طرف فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہیں تو دوسری طرف فوج کو قابل صد تعریف ادارہ قرار دے کر اس کی تعریف میں قصیدہ گو ہوتے ہیں۔ اس سے تو محض یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو اصل اعتراض فوجی کارروائی پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کارروائی کا کریڈٹ کہیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو نہ چلا جائے۔
پاکستان محدود وسائل اور بڑی آبادی کا ملک ہے۔ اس کے مسائل نہ پلک جھپکتے پیدا ہوئے ہیں اور نہ ہی اچانک ختم کئے جا سکتے ہیں۔ ملک میں سیاسی نظام بدستور کمزور ہے۔ اس صورتحال میں سیاسی استحکام اور ذمہ دارانہ سیاسی رویے اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انارکی کی موجودہ صورتحال سے جمہوریت اور پاکستان کے علاوہ کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس عمل میں ہراول دستہ بننے والے بھی زیاں کاروں میں ہی شامل ہوں گے۔اس سیاسی رویہ اور حکمت عملی سے آخر کیا نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ حکومت اپنے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ کرپشن ، اقربا پروری اور نااہلی سے قطع نظر اگر وہ مسائل کی طرف توجہ دینا بھی چاہے تو مخالفانہ سیاسی تحریکیں اس کی صلاحیتوں کو مصلوب کر رہی ہیں۔ ان حالات میں صرف غیر جمہوری رویے اور ادارے ہی طاقتور ہو سکتے ہیں۔ سیاستدان اپنی جاہ پسندی میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑے خود کو ہی مجروح کرتے رہیں گے۔