تحریر سدرہ ثاقب
یونیسف اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں ہونے والی شادیوں میں سے 40 فیصد لڑکیوں کی عمر 18 سال سے کم تھی جس میں سے 30 فیصد اندرون سندھ اور 10 فیصد جنوبی پنجاب سے رپورٹ ہوئیں اور یہ وہ ریکارڈ ہے جو رجسٹر شادیوں کا ہے اسکے علاوہ جبرا ًشادیوں کی تعداد اسکے علاوہ ہے اور وہ تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے جو توعورتوں کے حقوق کے لیے بہت سی این جی اوز کام کر رہی ہیں جو کہنے کو عورتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہیںمگر ان کا کام زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں اور ان کو بیرون ملک سے فنڈنگ کی جاتی ہے اور یہ صرف اس فنڈنگ کے لئے کاغذی کاروائی کرتے ہیں عملی طور پر کوئی بھی کام اس سلسلے میں نہیں ہورہا کم عمری میں شادی کا زیادہ رواج قبائلی معاشرے میں پایا جاتا ہے یا پھر اسے مذہبی رنگ دے کر ہضم کر لیا جاتا ہے خاندانی اور قبائلی نظام اتنا طاقتور ہے کہ اکثر اوقات ماں باپ کو بھی نہ چاہتے ہوئے اس کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے کبھی غربت بچی کی زندگی کھا جاتی تو کبھی مجبوری کبھی بچی کو جوئے میں ہار دیا جاتا ہے تو کبھی قتل کے تاوان کے طور پر بچی کو مخالفوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے ایک اور وجہ لڑکیوں کا سرکاری یا نادرا ریکارڈ میں ٹھیک سے اندراج نہ ہونا ہے بچی ابھی کم عمر ہوتی ہے اور نکاح کے وقت اس کی عمر زیادہ لکھوا کر قانون کو بھی چکمہ دے دیا جاتا ہے اور اس سب میں بڑے طاقتور وڈیروں اور زمینداروں کے ہاتھ شامل ہوتے ہیں گاﺅں کا مولوی کچھ پیسوں کے عوض اس نکاح کو رجسٹر کروا دیتے ہیں اور یہ سب کچھ کھلے عام ہوتا کوئی چھپ چھپا کر نہیں جب قاضی اور قاتل ہی مل جائیں تو مقتول کو انصاف کون دلائے گا اور قتل کو قتل اور جرم کو جرم کیسے کہا جائے گا ویسے بھی ہمارے معاشرے میں اتنی اخلاقی گراوٹ اور کرپشن ہو چکی کہ بسکٹ سے ایمان تک سب کچھ خریدا جا سکتا ہے کچھ بے ایمان ملا اور قاضی چند روپوں کے لاپنا ضمیر ایمان بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح شرعی اور معاشرتی دونوں لحاظ سے نہ صرف غلط ہے بلکہ جرم بھی ہے مگر یہ سب کھلے بندوں ڈھٹائی سے کیا جا رہا ہے حکومت نے قانون سازی تو کر رکھی کہ لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی نہیں کی جاسکتی اور یہ قابل سزا جرم ہے جبکہ دوسری طرف سولہ سال کی شادی کو بھی جائز قرار دیا ہے جو اپنے آپ میں قوانین کے درمیان تضاد اور مذاق ہے بچیوں کی رضامندی سے شادی صرف 4.8 فیصد ہے اور اس میں بھی بے شرمی اور بے غیرتی کا عنصر شامل ہے اور الزام پھر لڑکی پر ہی آتا ہے کہ وہ نافرمان اور بے ادب ہے تعلیم کے معاملے میں بھی لڑکی کواکثر اوقات 15 سے 17 سال کی عمر تعلیم ختم کروا دی جاتی اور یا اسکی شادی کردی جاتی یا گھر سنبھالنے پر لگا دیا جاتا ہے سعدیہ اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ اس کی دادی نے پیدا ہوتے ہی اسکی شادی کزن کے ساتھ طے کردی جو اس وقت تیرہ سال کا تھا 14 سال کی عمر میں جب ابھی وہ میٹرک میں تھی تو اسے گھر کے کاموں میں ایسا الجھایا گیا کہ امتحانات کی تیاری نہ کر سکی اور فیل ہو گئی چنانچہ اس کی شادی اپنے سے تیرہ سال بڑے کزن جو تب ستائیس سال کا تھا سے کر دی گئی شادی کے بعد شوہر نے بتایا کہ پڑھائی سے روکنے کے لئے اسے جان بوجھ کر گھریلو مسائل میں الجھایا گیا تا کہ فیل ہونے کو بنیاد بنا کر پڑھائی ختم کروائی جا سکے کیونکہ وہ اسے بہت خوبصورت لگتی تھی اور وہ جلدی شادی کروا سکتا زچگی کے وقت ذچہ یا بچہ کی موت کی سب سے بڑی وجہ کم عمری کی شادی ثابت ہوئی ہے کیونکہ لڑکی کا اپنا جسم کمزور اور کچا ہوتا ہے جسکی وجہ سے اس تکلیف کو برداشت نہ کرتی ہوئے جان دے دیتی ہے اگر بچ جائے اور غلطی سے لڑکی کو جنم دے دیا تو پھر اسکی زندگی طعنوں سے جھنم بنا دی جاتی ہے پھر کبھی چولہا پھٹ جاتا ہے اور کبھی کرنٹ لگنے سے مر جاتی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ چولہا بھی بہو کے لئے پھٹتا ہے اور بجلی بھی کرنٹ اس معصوم کو ہی مارتی ہے ساس سسر شوہر نند کسی کے ساتھ بھی ایسا حادثہ نہیں ہوتا اور اگر ایسا کچھ نہ ہو تو اسے ایسے ایسے طعنے دیتے ہیں اور مظالم ڈھاتے ہیں کہ وہ تنگ آ کر خودکشی پر مجبور ہو جاتی۔